کیا جلاوطنی کی سیاست قومی مفاد میں ہے؟
افواج پاکستان کے سابق سپہ سالار اور سابق سپریم کمانڈر (صدر مملکت) ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف اپنی خود ساختہ جلاوطنی کے بعد واپس پاکستان لوٹ چکے ہیں۔ یہ پاکستان کی تاریخ کا انتہائی افسوسناک واقعہ ہے کہ کسی فوجی جرنیل نے خود ساختہ جلا وطنی اختیار کی اور پھر یہ کہہ کر پاکستان وپس آئے کہ میں پاکستان بچانے واپس آیا ہوں”یہ میرے دل کی آواز ہے“ اور ”یہ کہ یہ میری دلی تمنا بھی ہے“۔ جنرل صاحب ایک طویل عرصہ تک اس ملک کے سیاہ و سفید کے مالک رہے ملک کے جمہوری وزیراعظم میاں نواز شریف کی جمہوری حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کیا اور وزیراعظم کے خلاف طیارے کے اغوا کا مقدمہ دائر کروا دیا ماضی میں جنرل ضیاءالحق نے بھی اسی طرح جمہوری وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹ دیا جبکہ وہ سیاسی رہنماﺅں کے ساتھ سیاسی نوعیت کے تمام معاملات طے کر چکے تھے بعد میں ان کاعدالتی قتل کروا دیا گیا1958ءمیں جنرل محمد ایوب خان اور بعد میں 1969 میں جنرل یحییٰ خان اقتدار پر مسلط رہے اور اس طرح 1971ء میں ملک دو ٹکڑے ہو گیا یہ تمام واقعات اب پاکستانی تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں آج تک جنرل ایوب خان سے لیکر جنرل یحییٰ خان اور پھر جنرل پرویز مشرف تک کسی کا بھی احتساب ہوا ہی نہیں فوجی آمروں کی سیاہ کاریوں نے ملک میں جس سیاسی کلچر کو فروغ دیا اسکا نتیجہ آج پوری قوم کے سامنے ہے۔ عدالت عظمیٰ کے جج صاحبان کو انکے گھروں میں نظر بند کیا گیا ملک کے آئین کی دھجیاں اڑائی گئیں لیکن پھر بھی ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف کو باعزت طور پر گارڈ آف آنرز دیکر رخصت کیا گیا این آر او کا بدنام زمانہ معاہدہ کر کے اقتدار پیپلزپارٹی کے حوالے کیا گیا اور محترم آصف علی زرداری کو صدر مملکت چنا گیا یہ بھی پاکستان کی تاریخ کا انوکھا واقعہ ہے جو کہ تاریخ میں ہمیشہ ہی اپنی نوعیت کے انوکھے واقعات میں شمار ہوا کریگا۔ سابق وزیراعظم شوکت عزیز بھی برطانیہ میں مقیم ہیں لندن میں رہتے ہوئے پاکستانیوں سے ملنا بھی گوارا نہیں کرتے دوسرے سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے خاندان کے کچھ لوگ اپنے ممکنہ احتساب کے ڈر سے دوبئی میں قیام پذیر ہیں جبکہ تازہ تازہ سابق ہوئے وزیراعظم راجہ پرویز اشرف اپنے صاحبزادے کے انتہائی مہنگے فلیٹ جوکہ لندن میں موجود ہے وہاں شفٹ ہونے کیلئے تیار ہیں۔ رحمان ملک کے حوالے سے بھی یہ ہی اطلاعات ہیں کہ ان کا لندن میں موجود فلیٹ ان کی واپسی کا انتظار کر رہا ہے جبکہ برطانیہ میں موجود پاکستان کے ہائی کمشنر واجد شمس الحسن بھی سبکدوش ہو کر لندن ہی میں قیام پذیر ہونگے انکا اپنا فلیٹ لندن میں موجود ہے بظاہر یہ چھوٹے چھوٹے واقعات ہیں ان کی عوامی سطح پر حیثیت کو عام طور پر نظر انداز کر دیا جاتا ہے لیکن پاکستان کے موجودہ حالات کی روشنی میں دیکھا جائے تو ایک بات بڑی واضح ہو جاتی ہے کہ حکمرانوں نے پاکستان کو اپنی ذاتی جاگیر کا درجہ دے رکھا ہے یعنی اقتدار میں ہوئے تو قیام پاکستان میں اور پھر اقتدار سے باہر ہوئے تو پھر بیرون ملک شاید ہی ایسا کوئی وزیر، مشیر یا سفیر ہو جو کہ لندن، دوبئی، پیرس یا امریکہ میں اپنی جائیداد نہ رکھتا ہو حالت اب یہ ہے کہ پاکستانی بیوروکریسی اور فوجی جرنیلوں کی اولادیں بیرون ملک اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ رہائشی فلیٹس کی بھی مالک ہیں ملک میں چند ہفتوں بعد عام انتخابات کا عمل شروع ہونے والا ہے کیا ایسا ممکن ہو گا کہ سبکدوش حکومت کے وزرائ، مشیر اور ممبران اسمبلی دوبارہ ووٹ لینے کی غرض سے عوام میں جانے کی جرا¿ت کر سکیں گے؟ یہ شخصیات ایوان صدر میں پناہ لینے پر مجبور ہو رہی ہیں۔
دوسری جانب عالم یہ ہے کہ سابق حکومت کا کوئی وزیر، مشیر اور سفیر اپنے آپ کو پاکستان میں محفوظ تصور نہیں کر رہا حالانکہ پانچ سال تک قوم پر یہ لوگ مسلط رہے اور قومی خزانہ دونوں ہاتھوں سے لوٹا غیر ملکی بنکوں میں انکا سرمایہ محفوظ پڑا ہے جائیدادیں یورپ میں خریدی جا چکی ہیں۔ ان تمام حالات کے باوجود پاکستان میں جو زمینی حقائق سامنے آ رہے ہیں ان کے مطابق پاکستان مسلم لیگ (ن) کا ووٹ بنک برابر برقرار ہے اور اس کے ساتھ ہی یہ حقیقت بھی اپنی جگہ برقرار ہے کہ اب تحریک انصاف بھی بھرپور سیاسی قوت بن کر ابھری ہے پاکستان پیپلزپارٹی صرف اور صرف سندھ کے چند مخصوص شہروں تک محدود ہوتی ہوئی پارٹی بن کر رہ گئی ہے۔ کراچی کی حد تک بھی پیپلزپارٹی کا وجود خطرے میں نظر آ رہا ہے پنجاب میں پیپلزپارٹی کی جگہ تحریک انصاف نے حاصل کر لی ہے لیکن اس کے باوجود پاکستان مسلم لیگ (ن) نا صرف پنجاب بلکہ سندھ، خیبر پختونخواہ اور بلوچستان میں بھی اپنی سیاسی قوت مستحکم کرنے میں کامیاب ہوئی ہے یہ بات تو طے ہے کہ وفاق میں ہنگ پارلیمنٹ بھی بنتی ہوئی دکھائی دیتی ہے جس میں پاکستان مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کا کردار بڑا واضح ہے جبکہ اس بار دیگر سیاسی گروپس کے ساتھ ساتھ جماعت اسلامی کی پوزیشن بھی خاصی مضبوط ہو چکی ہے جو کہ ایم کیو ایم، جے یو آئی اور اے این پی کے قریب قریب ہوتی ہوئی دکھائی دیتی ہے وفاق میں اب پاکستان پیپلزپارٹی کے بعد پاکستان مسلم لیگ (ن) کو اس بنا پر تحریک انصاف پر سبقت حاصل ہے کہ انکے پاس تجربہ کار اور منجھے ہوئے سیاسی رہنماﺅں کی وافر کھیپ موجود ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان کی ٹیم میں نوجوانوں کے علاوہ بعض سینئر لوگ بھی شامل ہیں لیکن ابھی تک ان کا سیاسی قد کاٹھ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے آگے بونا ہی ہے جس کی ایک بڑی وجہ پاکستان مسلم لیگ(ن) کا سنجیدہ طریقہ سیاست اور خاص طور پر میاں شہباز شریف کی حکومت کی گزشتہ پانچ سالہ کارکردگی بھی ہے بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح نے 2 نومبر 1945 کو پشاور میں ایک جلسہ عام میں کہا تھا کہ:
”ہمارا کوئی دوست نہیں ہے، ہمیں نہ انگریز پر بھروسہ ہے نہ ہندو بنیئے پر ہم دونوں کے خلاف جنگ کریں گے خواہ وہ آپس میں متحد کیوں نہ ہوجائیں“۔
حکومتی سطح پر بار بار کہا جاتا ہے کہ بھارت کو پسندیدہ ملک قرار دے دیا جائے گا اس ضمن میں ملک کے اہم میڈیا گروپ کی جانب سے ”امن کی آشا“ کے نام سے پروپیگنڈہ مہم بھی مسلسل جاری ہے اور بدقسمتی سے بعض سیاسی اکابرین، دانشور اور لکھاری اس مہم کا حصہ بن کر عملی طور پر ملک میں بھارتی کلچر فروغ دینے میں پیش پیش بھی ہیں اور آنے والے عام انتخابات میں بھارت کی مخصوص میڈیا لابی سے بھرپور تعاون کر رہے ہیں جوکہ سراسر نظریہ¿ پاکستان کے اصولوں سے انحراف ہے اس ضمن میں انتخابات میں حصہ لینے والے امیدواروں اور سیاسی پارٹیوں کے رہنماﺅں کو پابند کیاجانا چاہئے کہ وہ بھارت کی مخصوص میڈیا لابی سے ہرگز تعاون نہ کریں بلکہ انتخابی مہم کے دوران نظریہ پاکستان کے اصولوں کو اجاگر کیا جانا چاہئے اور ان پر کاربند رہ کر نظریہ¿ پاکستان کا تحفظ کیا جائے چند ہفتوں بعد پاکستان میں عام انتخابات کے بعد جو بھی حکومت برسراقتدار آتی ہے اب اس حکومت کو یہ اصول بھی طے کر لینے چاہئیں کہ آئندہ ملکی سیاست کے حوالے سے تمام معاملات جوڑ توڑ، اور معاہدے لندن اور دوبئی کی بجائے سرزمین پاکستان پر ہوا کریں گے اور پھر ملکی سیاست اور اقتدار کے حوالے سے کسی سطح پر بھی غیر ملکی مداخلت اور مشاورت کا عمل ممنوع قرار پائے۔ ملکی سیاست کے حوالے سے غیر ملکی مشاورت کی حوصلہ شکنی ہونی چاہئے۔ بیرون ملک رہ کر سیاسی پارٹیاں تشکیل نہ دی جائیں اور خاص طور پر حکمرانوں کے جلاوطن ہونے پر پابندی عائد ہو ملکی سیاست میں کردار ادا کرنا ہے تو سرزمین پاکستان پر رہ کر ہی کردار ادا کیا جائے۔ اگر ان اصولوں کو اپنا کر کوئی قانون سازی ہو جاتی ہے تو پھر ایک تو قومی خزانے میں لوٹ مار کا عمل کم ہو گا دوسرا غیر ملکی بنکوں میں حکمرانوں کا سرمایہ منتقل ہونا بند ہو سکے گا۔ غیر ملکی جائیدادیں خریدنے کے رجحان میں بھی کمی واقع ہو گی۔ آنے والے سالوں میں کم از کم کرپشن اور حکومتی سطح پر لوٹ مار کا بازار مندی کا شکار ہو سکتا ہے بشرطیکہ اصولوں کو قانونی حیثیت حاصل ہو جائے ماضی میں حکمرانوں کی جلاوطنی غیر ملکی قوتوں کو پاکستان کے اندرونی سیاست میں مشاورت فراہم کرنے کا موجب بنتی رہی ہے جس کے نتیجے میں این آر او کا معاہدہ طے پایا لندن، دوبئی اور امریکہ میں پاکستان کی داخلی سیاست کے تانے بانے جوڑے گئے حتیٰ کہ پاکستان کی قومی سلامتی کے حوالے سے حسین حقانی اور رحمان ملک جیسے لوگوں کو اقتدار کے ایوانوں کی زینت بننے کا موقع فراہم کیا گیا ۔ان کی وفاداریاں پاکستان سے کم اور غیر ملکی آقاﺅں سے زیادہ تھیں جن کے ایجنڈے پر گذشتہ پانچ سالوں سے عمل ہوتا رہا ہے۔ رحمن ملک نے جلاوطنی میں کیا کچھ کمایا؟ قومی سلامتی کے محافظ بن کر پورے پاکستان کو دہشت گردی کی نگری بنا دیا اب بھی وقت ہے کہ جلاوطنی کے بارے میں سنجیدگی سے قانون سازی کی جائے جو ایک بار جلاوطن ہو اسے ملکی سیاست سے باہر ہی رکھا جائے تو یہ ملکی مفاد میں ہو گا ماضی کے پانچ سالہ دور اقتدار کے تجربات تو یہ ہی بتا رہے ہیں۔ بھارتی خفیہ ایجنسی ”را“ امریکی سی آئی اے اور برطانوی خفیہ ایجنسی MI5 کی پاکستان کی داخلی سیاسی صورتحال میں گہری دلچسپی غور طلب ہے! آنے والے سال خطے میں اہم تبدیلیوں کے سال ہیں جو پاکستان کیلئے بہت بڑا چلنج بھی ہونگے اور پوری قوم کیلئے کڑی آزمائش بھی۔