نصابی کتب سے اسلامی تعلیمات‘ نظریہ پاکستان سے متعلقہ مواد کا اخراج برداشت نہیں کیا جائے گا: ڈاکٹر مجید نظامی
لاہور (خصوصی رپورٹر) نصابی کتب سے اسلامی تعلیمات و اقدار اور نظریہ¿ پاکستان سے متعلقہ مواد کا اخراج کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا۔ غیر ملکی ماہرین کی ہدایات پر نصاب تعلیم کی تیاری قوم کے لئے مہلک ثابت ہو گی۔ 18ویں ترمیم کے تحت نصاب تعلیم تیار کرنے کی ذمہ داری وفاق سے صوبوں کو منتقل کرنا غیر دانش مندانہ اقدام ہے جسے فی الفور واپس لیا جانا چاہئے۔ پاکستان نظریاتی ریاست ہے، اس کے نصاب تعلیم کا محور و مرکز اس کا اساسی نظریہ ہونا چاہئے۔ ہمیں ایسی کتابوں کی قطعاً ضرورت نہیں جو ہمارے نظریات سے مطابقت نہ رکھتی ہوں۔ ان خیالات کا اظہار تحریکِ پاکستان کے سرگرم کارکن‘ ممتاز صحافی اور نظریہ¿ پاکستان ٹرسٹ کے چیئرمین مجید نظامی نے پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ کی ایمپلائز ویلفیئر سوسائٹی کے صدر قیصر اقبال کی قیادت میں نمائندہ وفد سے بات چیت کرتے ہوئے کیا۔ وفد کے دیگر ارکان میں کرم حسین اور اللہ دتہ شاہد شامل تھے۔ اس موقع پر نظریہ¿ پاکستان ٹرسٹ کے وائس چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر رفیق احمد، چیف کوآرڈینیٹر میاں فاروق الطاف‘ سیکرٹری شاہد رشید اور ایڈیشنل سیکرٹری رفاقت ریاض بھی موجود تھے۔ وفد نے مجید نظامی کو پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ اور نئے انتظام کے تحت پرائیویٹ پبلشرز کی شائع کردہ درسی کتابوں کا سیٹ پیش کیا اور ان سے متعلق اپنے نقطہ¿ نظر سے آگاہ کیا۔ مجید نظامی نے کہا کہ ہم مسلسل یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ نظریہ¿ پاکستان یا دو قومی نظریہ کو ہر سطح پر نصابِ تعلیم کا حصہ بنایا جائے۔ ہماری نئی نسل پاکستان کا مستقبل ہے، ان کے لئے یہ جاننا نہایت ضروری ہے کہ پاکستان کیوں اور کیسے معرضِ وجود میں آیا۔ ملک و قوم کے مستقبل کو محفوظ بنانے کی خاطر ضروری ہے کہ نسلِ نو کو قیامِ پاکستان کے حقیقی اسباب اور مقاصد سے آگاہ کیا جائے۔ اس سلسلے میں نصابِ تعلیم کا کردار کلیدی اہمیت کا حامل ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ ہماری درسی کتابیں نظریہ¿ پاکستان کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہوں۔ پروفیسر ڈاکٹر رفیق احمد نے کہا کہ قبل ازیں پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ دینی و قومی تقاضوں سے ہم آہنگ نصاب تعلیم تیار کرتا تھا مگر پرویز مشرف کے دور میں نیشنل ٹیکسٹ بکس اینڈ لرننگ میٹریل پالیسی 2007ءکا نفاذ عمل میں لایا گیا جس کے تحت نصابی کتب کی تیاری پرائیویٹ پبلشرز سے کرانے کی پالیسی اپنائی گئی۔ اس پالیسی کے باعث نصابی کتب کی تیاری اور اشاعت پر حکومت کا کنٹرول ختم ہو گیا، پبلشرز اپنی مرضی اور نظریات کے مطابق نصابی کتب تیار کرانے میں آزاد ہو گئے۔ اٹھارہویں ترمیم کے تحت نصاب تیار کرنے کے اختیارات صوبوں کو تفویض ہونے کے بعد حکومتِ پنجاب نے 2012ءمیں ایک ایکٹ کے ذریعے پنجاب کریکلم اتھارٹی قائم کی جس کے ذمہ نصابی کتب کے معیار کا جائزہ لینا تھا، اس ایکٹ میں شامل شق 6(c) کے تحت اس اتھارٹی نے نصابی کتب کی تیاری اور منظوری دینے کا کام بھی سنبھال لیا۔ اس اقدام کے باعث نصابی کتب میں نظریہ¿ پاکستان‘ اسلامی روایات و اقدار‘ قومی شخصیات‘ اردو زبان کی اہمیت‘ قومی شعراءاور ادیبوں کی بجائے اغیار کے کارنامے اور ہندوﺅں کی تاریخ شامل ہو رہی ہے۔ باخبر ذرائع کے مطابق ورلڈ بنک کی جانب سے حکومتِ پنجاب کو درسی کتابوں کی مفت تقسیم کے لئے اڑھائی ارب روپے کی خطیر رقم فراہم کی گئی ہے۔ ورلڈ بنک کے نمائندے مائیکل باربر کو وزیرِ اعلیٰ پنجاب کے خصوصی مشیر کی حیثیت حاصل رہی ہے جو نصابی کتب میں ایسا مواد شامل کرنے کی ہدایت دیتا تھا جن کے باعث ہماری نئی نسلیں اپنی شاندار اسلامی تاریخ اور نظریہ سے بے بہرہ رہ جائیں۔ اس پالیسی کو آگے بڑھانے کے لئے جرمنی کی غیر سرکاری تنظیم GTZ بڑی سرگرم ہے جو تیکنیکی معاونت کے لبادے میں سیکولر نظریات کے حامل مواد کی ترویج و اشاعت کو یقینی بنا رہی ہے۔ نصاب تعلیم کو سیکولر بنانے کے ذمہ دار ملکی و غیر ملکی عناصر کو برخاست کیا جائے، ان کی طرف سے نصاب میں پیدا کردہ نقائص کو دور کر کے اسے قومی امنگوں کے مطابق ازسرِنو تشکیل دیا جائے۔ ہم محض اڑھائی ارب روپے کی خاطر اپنی نئی نسل کو غیر ملکی ہاتھوں میں فروخت نہیں کر سکتے۔ انہوں نے پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ کو نصابی کتب کی تیاری کے حوالے سے بے دست و پا کرنے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ نصاب تعلیم قوم سازی کا انتہائی م¶ثر ذریعہ ہے، اسے تیار کرنے کی ذمہ داری صرف محب وطن افراد کو ہی سونپی جانی چاہئے۔ انہوں نے وفد کے ارکان سے کہا کہ وہ مثالی نصاب تعلیم تیار کرنے میں نظریہ¿ پاکستان ٹرسٹ سے تعاون کریں۔ وفد نے انہیں اپنے بھرپور تعاون کا یقین دلایا۔