چلے شمال کی جانب جنوب جا نکلے!!
لاہور کے ایک بڑے ہوٹل میں داخل ہو رہی تھی اور سوچ رہی تھی کہ لوگ کشاں کشاں کہاں چلے جا رہے ہیں؟ کیونکہ حسن و جمال کا نور ایک ہی سمت بڑھتا دکھائی دے رہا تھا۔ معطر پیرہن میں ملبوس خواتین کی بھی بڑی تعداد نظر آرہی تھی یہ لاہور کا ایک ایسا مقام ہے کہ جہاں شادی بیاہ کی اور دیگر تقریبات بھی ہوتی ہیں اس لئے گمان ہوا کہ آج ایک ساتھ کئی تقریبات یا میوزک کا خصوصی انتظام بھی ہو سکتا ہے۔ فریدہ برلاس اور اسلام آباد سے ہی آئے ہوئے شاعر شکیل حاذب کے ساتھ جب میں مخصوص ہال کی طرف بڑھی تو معلوم ہوا کہ یہ سارے لوگ مشاعرہ کے لئے سجائے گئے پنڈال میں ہی آرہے تھے پاکستان کے کلچرل پروگراموں کے حوالے سے اور پھر مشاعرے کی تہذیبی روایت کی پذیرائی کے حوالے سے یہ بات بڑی خوش آئند محسوس ہو رہی تھی۔ پھر اس پروگرام کے آرگنائز کرنے والوں کا جذبہ بھی بڑا بلند اور ارفع تھا اور مجھے یہ بات دنیا بھر کے مسلمانوں کی حالت زار اور پھر وطن کے اندر حالات پر گہری نظر رکھ کر دانشور شاعر ہونے کا کردار ادا کرنے والے شاعر مرتضی برلاس نے بتائی کہ انڈسٹریلسٹ نثار منوں مرحوم نے آج سے تیس پینتیس برس قبل ریحان ملز فیصل آباد میں شاندار مشاعرہ کروایا تھا۔ اس میں بہت ہر دلعزیز شاعرہ پروین شاکر نے پہلی بار پنجاب کے کسی مشاعرہ میں بھی شرکت کی تھی۔ اس کے علاوہ بڑے بڑے نامی گرامی شعراءمیں صہبا اختر‘ محسن بھوپالی‘ حمایت علی شاعر‘ اطہر نفیس، شبنم رومانی افتخار عارف وغیرہ بھی شامل تھے۔ نثار منوں مرحوم کے بعد اپنے والد کی اس روایت کو قائم رکھنے کے لئے ان کے ہونہار صاحبزادے کمال منوں نے اس مشاعرے کا اہتمام کیا تھا اور اس اہتمام میں ان کی والدہ کی خواہش بھی شامل تھی جو مشاعرے میں موجود رہیں۔ مشاعرہ کی صدارت مرتضی برلاس نے کی جبکہ لاہور سے ڈاکٹر خورشید رضوی کے علاوہ عباس تابش‘ سلیم طاہر‘ رحمان فارس‘ امجد اسلام امجد‘ زاہد فخری‘ خالد شریف‘ صائمہ کامران‘ شاہ نواز زیدی اور کنور امتیاز احمد شامل تھے جبکہ امریکہ سے آئی ہوئی شاعرہ فرحت زاہد ان کے شوہر زاہد سعید زاہد اور ملتان سے مبشر سعید اور فیصل آباد سے نصرت صدیقی شامل تھے۔ میں سوچتی رہی کہ ادب کی ترقی و ترویج میں انڈسٹریلسٹ اور سیاستدان حکمران بھی اہم فرائض ادا کر سکتے ہیں بشرطیکہ مخصوص گروہ کے ہاتھوں کھلونا بننا ترک کر دیں۔ ورنہ ہوتا یوں ہے کہ جن ہاتھوں کو مستقل یہ فرض سونپ دیا جانا ہے وہ گھٹیا سیاست کی طرح نسل در نسل اس منصب پر قابض ہو جاتے ہیں۔
لہٰذا ادب کی ترقی و ترویج کا سفر آگے بڑھنے کی بجائے تباہ کن راستے پر مخصوص گروپ بندی کا شکار ہو جاتا ہے۔ مشاعرہ کی روایت کو شفاف بادلوں کی طرح ہر اس شاعر پر برسنا چاہئے کہ جو اچھا شعر کہتا ہے ورنہ یہی ہوتا رہے گا کہ جیسے اب چند پبلک ریلیشنز کے ماہر افراد کے ہاتھ میں یہ سب کچھ سونپ دیا گیا اور وہی اپنے من پسند افراد کو ساتھ لے کر چلتے ہیں اور مشاعروں میں بھی اپنے لوگوں کو داد سے نوازتے ہیں ورنہ ایسی چپ سادھ لیتے ہیں کہ جیسے سانپ سونگھ گیا ہو اور یہی لوگ خصوصاً مشاعرہ آرگنائز کرنے والوں کے ساتھ یہ خصوصی تعلق بحال رکھتے ہیں تاکہ برسہا برس مستفید ہوتے رہیں۔ لاہور کے کسی مشاعرے میں طویل مدت کے بعد میں نے شرکت کی تھی کیونکہ زیادہ تر مشاعرے مخصوص شعرا کی وساطت سے ترتیب پاتے ہیں۔ چند برس قبل میری کتاب ”محبت کتنی تنہا تھی“ کی تقریب رونمائی میں معروف شاعر خالد اقبال یاسر اور خالد شریف نے الحمرا میں خوبصورت مضامین پڑھے تھے کہ میں ان کے شہر راولپنڈی سے آئی تھی۔ مگر کل جگمگاتے ہوئے ہال میں ہنستے مسکراتے چہروں کے درمیان خالد شریف نے مجھے ایسے دیکھا جیسے جانتے ہی نہیں۔ امجد اسلام امجد سے کوئی گلہ اس لئے نہیں کہ ان کے مزاج سے ہم آشنا ہیں اور پھر ویسے بھی آج کل وہ ایسی مشکل کا شکار ہیں کہ ان کے لئے ہم دعا گو ہیں کہ اللہ ان کے حال پر رحم فرمائے۔ اس مشاعرے میں ڈنر کے درمیان بھی میزبان کمال منوں اور ان کے اہل خانہ خوش اسلوبی کے ساتھ حق میزبانی ادا کرتے رہے۔ یہ بھی اچھی بات ہے کہ پروگرام کا بروقت آغاز کر لیا گیا۔ تقریب کی نظامت ایک انشورنس کمپنی کے جی ایم فیصل آباد سے آئے ہوئے محمود احمد خان نے کی۔ یہ بھی ایک اور اچھی روایت تھی کہ مشاعرہ کسی مخصوص اور مستقل ناظم کے حوالے نہیں کیا گیا تھا ورنہ پی ٹی وی کے مشاعروں میں دیکھ لیں۔ وہاں بھی مخصوص چہروں کے براجمان ہونے کے بعد گھسے پٹے مشاعرے اور ادبی پروگرام ہی چلتے رہتے ہیں اور کوئی پروڈیوسر محنت کرنے پر تیار نہیں ہوتا جبکہ پوچھنے والا بھی کوئی نہیں کہ آخر قومی اداروں پر مخصوص قبضہ گروپ کیوں قائم ہے؟ ان تمام آلائشوں سے پاک ماورا اور حسن ترتیب و پیش کش سے آراستہ یہ مشاعرہ خوبصورت تھا۔ شاعروں کا انتخاب ستاروں کی کہکشاں میں سے منتخب کئے گئے شعراءپر مبنی تھا لہٰذا حسن کلام سے سماعتوں نے مہمیز ہونا ہی تھا اور سامعین بھی ایسے تھے کہ جو واقعی اپنی سماعتوں میں اشعار کو سمو رہے تھے۔ لہٰذا جب شاعر اپنا کلام سنا چکتا تھا تو تالیاں بجا کر داد دیتے تھے۔ حالانکہ سچی بات ہے کہ ہم شاعروں کو ساتھ کے ساتھ واہ واہ سمیٹنے کی عادت پڑی ہوئی ہے۔ مشاعرہ کا آغاز روایتی نعت خوانی کی بجائے سلیم طاہر کی آزاد نعتیہ نظم سے کیا گیا جس نے شروع ہی سے مشاعرہ کو اپنی گرفت میں لے لیا۔ سب شاعروں نے اپنے اپنے انداز میں سماں باندھا مگر ڈاکٹر خورشید رضوی نے ایسی شاہکار غزلیں سنائیں کہ محفل کو مہمیز کر دیا اور سننے والے ان غزلوں کے پیچھے چھپے محبت، دکھ درد اور خوشگوار حیرت سے سجے ہوئے ماحول میں گم ہو گئے۔ شاعری میں لفظوں اور احساسات کی جادوگری سے ایسی آب و ہوا تخلیق کر لینا ڈاکٹر خورشید رضوی کا ہی کمال ہے۔ ان کا شعر ہے کہ....
مجھے راس تھیں وہ کھلی کھلی سی عداوتیں
یہ جو زہر خند سلام تھے مجھے کھا گئے
آخر میں صدارتی خطبہ کی ذمہ داری نبھاتے ہوئے جناب مرتضیٰ برلاس نے اپنے دبنگ لہجے اور سیاسی شعور سے آراستہ پیراستہ اشعار سے محفل کو گرما دیا اور موجودہ حالات کا عالمی سطح اور قومی سطح پر یوں تجزیہ پیش کیا کہ....
چلے شمال کی جانب جنوب جا نکلے
کہاں کا قصدِ سفر تھا کہاں پہ آ نکلے
ہم کہاں کہاں اور کن مقامات پر شمال کو جاتے جاتے جنوب کو جا نکلتے ہیں یہ آج کا لمحہ فکریہ ہے۔