جناب مجید نظامی کی سالگرہ کی تقریب
دو روز پیشتر روزنامہ نوائے وقت کے ایڈیٹر ‘ تحریک پاکستان کے سرگرم کارکن ‘ آبروئے صحافت جناب ڈاکٹر مجید نظامی کی 85 ویں سالگرہ کی تقریب نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے آفس میں منعقد کی گئی۔ اس تقریب میں متعدد صحافیوں اور دانشوروں نے شرکت کی۔ شاہد رشید نے اپنے خطاب میں کہا کہ مجید نظامی اس سالگرہ کی تقریب کے حق میں نہیں تھے۔ اس تقریب کا اہتمام ہم نے اپنے طور پر کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ جناب مجید نظامی سنچری مکمل کرلیں ۔
روزنامہ پاکستان کے ایڈیٹر مجیب الرحمن شامی نے کہا کہ کوئی دوسرا اس طرح باوردی جرنیلوں اور بے وردی آمروں کے سامنے اس طرح دو ٹوک بات منہ پر نہیں کرسکتا۔ جیسی ادائے دلبرانہ اور دلیرانہ انداز میں نظامی صاحب نے کی۔ ہماری صحافت کیلئے یہ آزاد زندگی کی تابندگی کی طرح ہے۔ ان کی تعریف کرنا ایک بھلائی ہے کہ اسی گفتگو میں ساری صحافی برادری کا اعزاز ہے۔ ان سے اختلاف تو کسی کو بھی ہوسکتا ہے مگر وہ آپ کے اعتراف سے بچ نہیں سکتا۔ اس زمانے میں کون ہے جس کی تعریف کرکے اچھا لگتا ہے۔
روزنامہ جرات کے ایڈیٹر جمیل اطہر نے کہا کہ مجید نظامی ہمارے زمانے کے سب سے بڑے ایڈیٹر ہیں۔ یہ بھی کئی دوستوں نے کہا کہ ہم صحافت کے عہد مجید نظامی میں زندہ ہیں۔ ہم خوش نصیب ہیں کہ ہم نے مجید نظامی کو دیکھا ہے۔ انہوں نے کہا کہ گذشتہ پچاس سالوں میں جناب مجید نظامی نے نہ صرف ادارہ نوائے وقت کو وسعت دی بلکہ اس کے نظریاتی تشخص کو مستحکم کرتے ہوئے اسے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کیا ہے‘ فکر اقبال ؒ اور قائداعظمؒ و مادر ملتؒ کی حیات و خدمات کو انہوں نے نہ صرف اپنے لیے بلکہ پوری قوم کیلئے مشعل راہ بنایا ہے ہر قومی ایشو پر جس بے باکی‘ جرات مندی اور ثابت قدمی سے نوائے وقت اور اس کے مدیر نے گذشتہ پچاس سالوں میں قوم کی رہنمائی کی ہے یہ ایک جہد مسلسل ہے جس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔
پروفیسر ڈاکٹر رفیق احمد نے کہاکہ مجید نظامی کی سوچوں کا اصل سرچشمہ علامہ اقبالؒ کی سوچیں ہیں جو قیامت خیز ہیں اور ولولہ ‘ تازہ سے لبریز ہیں۔ مجید نظامی کو ان سوچوں کی صداقت پر غیرمتزلزل یقین ہے اور اس یقین و ایمان کی بدولت اللہ تعالیٰ نے انہیں تین ہارٹ بائی پاسز کے باوجود چاق و چوبند رکھا ہے اور پاکستان کی نظریاتی اساس سے والہانہ عشق رکھنے والا صحافی بنایا ہے۔ قائداعظمؒ اور علامہ اقبالؒ کی سوچوں نے مجید نظامی کو متحرک رکھا ہے۔
سینیٹر ایس ایم ظفر نے کہا مجید نظامی کی شخصیت کے بارے میں کہنے کیلئے کئی دن اور کئی راتیں چاہئیں انہوں نے کہا نوائے وقت نے آج تک کبھی موقف نہیں بدلا اور کوئی پرچہ برصغیر میں ایسا نہیں جو مشن کے نام پر کام کر رہا ہوں۔
ڈاکٹر اجمل نیازی نے کہا کہ جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق بلند کرنے کا عہد نوائے وقت کا بنیادی نظریہ ہے اور نظامی خاندان نے اس نظریے کو کاروباری مصلحتوں کا شکار نہیں ہونے دیا۔ ان پر کڑے وقت بھی آئے۔ سخت آزمائشوں سے بھی گزرنا پڑا۔ جمہوریت کے نام لیوا حکمرانوں کی آمریت کے ظلم بھی سہنا پڑے۔ لیکن نہ تو مجید نظامی کی گردن جھکی اور نہ نوائے وقت کی پیشانی پر کوئی داغ آیا۔ نوائے وقت کا یہ کمال ہے کہ اس نے اپنے آپ کو کسی جماعت یا کسی فرد سے وابستہ کرنے کی بجائے صرف اور صرف پاکستان سے وابستہ کیا۔
بشریٰ رحمان نے کہا کہ مجید نظامی نے اپنے برادر گرامی حمید نظامی کی قوم ساز صحافتی وراثت کو بہت زیادہ وسعت دی ہے۔ حمید نظامی نے نوائے وقت کی 22 سال تک پرورش کی۔ مجید نظامی کو یہ ذمہ داری اٹھائے 50 سال سے زائد عرصہ گزر گیا ہے اور تین ہارٹ بائی پاسز کے باوجود اللہ تعالیٰ نے انہیں چاق و چوبند رکھا ہے۔ اس دوران انہوں نے اپنی نظریاتی صحافتی تحریک کے حوالے سے اپنی سرگرمیوں میں بہت اضافہ کیا ہے۔
تقریب کے سٹیج سیکرٹری شاہد رشید نے جب مجید نظامی کی تقریب سے خطاب کرنے کیلئے کہا تو انہوں نے کہا کہ مجھ سے پہلے ادیب جاودانی اپنے خیالات کا اظہار کریں گے۔ راقم نے اپنے خطاب میں کہا کہ پاکستان کے بعد بھی نوائے وقت کا بے لاگ کردار ہماری تاریخ کا روشن باب ہے۔ جناب حمید نظامی کے انتقال کے بعد دور ثانی کے بانی جناب مجید نظامی نے نہ صرف ان روایات کو پروان چڑھایا بلکہ ادارے کو وسعت دی اسے پروان چڑھایا اور جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کیا اور گذشتہ 50 سالوں سے ہر معاملے میں قوم کی رہنمائی کا فریضہ سرانجام دے رہے ہیں۔ ان کی ذاتی کاوشوں سے ایوان اقبالؒ تعمیر ہوا اور اب ایوان قائداعظمؒ تیزی سے تعمیر اتی مراحل طے کر رہا ہے۔ میںصدق دل سے سمجھتا ہوں کہ وہ ہمارے ملک و قوم کیلئے ایک اثاثے کی حیثیت رکھتے ہیں اور ان کے ہوتے ہوئے کوئی اندرونی یا بیرونی طاقت پاکستان کے اسلامی نظریاتی تشخص کو مجروح نہیں کرسکتی۔ راقم نے کہا کہ 84ءمیں راقم نے اپنے مون ڈائجسٹ میں لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس مولوی مشتاق حسین سے ایک انٹرویو کیا تھا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ یحییٰ بختیار نے بھٹو کا کیس صحیح طور پر نہیں لڑا تھا اگر میں بھٹو کا وکیل ہوتا تو بھٹو بری ہوسکتے تھے اس پر یحییٰ بختیار نے راقم کے خلاف کوئٹہ کی عدالتوں میں دو مقدمات دائر کردیئے اور میں دس سال تک کوئٹہ کی عدالتوں میں تاریخیں بھتگتا رہا بعد ازاں جناب مجید نظامی نے میری یحییٰ بختیار سے صلح کروا کر میری ان سے جان چھڑا دی میں جناب مجید نظامی کا یہ احسان زندگی بھر نہیں بھلا سکتا۔