• news

سات آنکھوں والا دیو

قوموں کی تاریخ میں یا کسی بھی بڑے لیڈر کے بننے میں کچھ واقعات کا عمل دخل ہوتا ہے ۔ اسے ہی شائد فطرت کا کردار کہتے ہیں ۔آئیے الیکشن میں کچھ فیصلہ کرنے سے پہلے مل بیٹھ کر سوچیں کیا ہم میں کوئی ایسا لیڈر ہے جس کی سات آنکھیں ہیں؟ 2007میں12 مئی کو کراچی میں ہونے والی خون کی ہولی یاد آگئی جس میں سینکڑوں لوگ زخمی اور موت کے منہ میں چلے گئے ۔ پرویز مشرف نے اگلے دن کے خطاب میں فرمایا کہ کراچی میں لوگوں نے ©۔۔عوامی طاقت ۔۔کا مظاہرہ کیا۔ لوگوں کے بے گناہ مرنے سے کسی بھی پارٹی کے کسی بھی نام نہادسینئر قیادت نے ہتھیلی پر سورج نہیں رکھا ۔ وقت بہتا گیا ۔ لیڈر بننے کا یہ موقع بھی ہاتھ سے نکل گیا ۔ یہ تو مئی کے حوالے سے ایک دن کی یاد میں ایک خونی واقعہ قلم بند کیا ہے ، آپ بھی جانتے ہیں کہ ایسے واقعات سے پاکستان کی تاریخ بھری پڑی ہے ۔ ذرا غور کیجئے 13 مئی1969کو کوالالمپور میں چائینز اور ملایا لوگوں کے درمیان فسادات کا آغاز ہوا ۔ مہاتیر محمد نے اپنی ہی پارٹی کے وزیرِ اعظم کو خط لکھا کہ یہ سب آپ کے غلط سیاسی لائحہ عمل کی وجہ سے ہوا ہے مہاتیر محمد عارضی طور پرپارٹی سے نکال دئے گئے مگر ملائیشیا کی ترقی میں 1969کا سال ایک اہم سنگ ِ میل سمجھا جا تا ہے ۔ اس دن کا بہا خون رائیگاں نہ گیا۔مہاتیر محمد اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ ہمیں اس خوفناک تجربے سے پتہ چلا کہ نسلی اختلافات اور معاشی ناہمواری ہماری بقا کے لئے کتنا بڑا خطرہ ثابت ہوسکتے ہیں۔ معاشی ترقی اور پائیدار امن کے لئے بہت ضروری ہے کہ ملک میں بسنے والے مختلف نسلوں کے لوگوں کے درمیان پائے جانے والے معاشی فرق کو کیسے کم کیا جائے۔ملایا لوگ جو ملائیشین چائینز کی نسبت غریب کسان تھے ان کی تعلیم اور ترقی کے لئے الگ بجٹ مختص کیا گیا ۔نیشنل آپریشن کونسل بنائی گئی جس کا مقصد ملائیشا کے مختلف نسلی گروہوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے درمیان پائے جانےوالے معاشی فرق کی نشاندہی کرنا تھی۔ اسکے بعد ملائیشیا میں بسنے والے تمام نسلی گروہوں سے نمائندے چن کر ایک national consultative counsilتشکیل دی گئی ۔ جس کا کام تمام گروہوں میں انصاف اور توازن سے قومی دولت کی تقسیم اور ذرائع پر اختیا ر کی یقین دہانی کرنا تھی ۔ اس فعل سے تمام نسلوں اور گروہوں کے لوگوں نے اپنی نسل ، رنگ ، زبان اور مذہب سے اوپر اٹھ کر ملائیشیا کی ترقی میںایک قوم بن کر اپنا آپ جھونک دیا ۔ اور دنیا نے جسے ایشائی معجزے کا نام دیا ۔ مگر دراصل وہ لیڈر کی وہ آنکھ تھی جس نے نسلی فساد کے واقعہ کو بدامنی کا ایک معمولی واقعہ سمجھ کر لواحقین کا وقتی پیسے کی مدد سے ٹال نہیں دیا بلکہ ایک دیر پا حل کی طرف قدم اٹھایا ، پالیسی بنائی ، سوچ بدلی .... زندگی کی نشانی ہے کہ واقعات سے لیڈر جنم لے جا سکتا ہے اور برے حالات سے تبدیلی کی کونپل پھوٹ سکتی ہے ۔
ملا ئشیا وہ ملک ہے جس نے آزادی کے پہلے سال ہی بغیر کسی بیرونی مدد کے اپنے پاﺅں پر چلنا سیکھ لیا تھا ۔ ملائیشیا نے زیادہ سے زیادہ مدد یہ لی کہAmerican peace corps کے ساتھ مل کر اپنے ہونہار طالب علموں کو اعلی تعلیم کے لئے بیرون ِ ملک بھیجا ،ان کا یقین اس چینی کہاوت پر ہے کہ اگر کسی شخص کو مچھلی دے دی جائے تو اس کی صرف ایک دن کی بھوک مٹ سکتی ہے لیکن اس کے مقابلے میں اگر اسے مچھلیاں پکڑنے والی راڈ دے کر یہ تربیت دی جائے کہ مچھلی کا شکار کس طرح کیا جاتا ہے تو وہ ہمیشہ کے لئے خود کفیل ہوسکتا ہے۔موازنے میں پاکستان میں کیا دیکھتے ہیں؟ سستی روٹی پروگرام ، نے نظیر انکم سپورٹ پروگرام ، لیپ ٹاپ کی تقسیم ۔
1960میں ایک امریکی نے کوالالمپور کی ایک عمارت دیکھ کر مہاتیر محمد سے پوچھا کہ اس بلڈنگ کو بنانے کے لئے سرمایہ کہاں سے لیا گیا۔ جب انہوں نے بتایا کہ یہ عمارت ہم نے اپنے سرمایے سے بنائی ہے تو وہ امریکی حیرت زدہ رہ گیا ۔آپ کے لیڈروں نے بھی میڑو سروس شروع کی ہے اور ترکی کی امداد کی کہانیاں آپ کے سامنے ہیں ۔پلاننگ اور دور اندیشی ختم ہے ، جہاں لوگوں کو پینے کا صاف پانی نہیں مل رہا ، گیس نہیں ، بجلی نہیں وہاں 30بلین میڑو کی شو بازی میں لگا دیے گئے ۔ یہ بالکل اسی طرح ہے کہ لڑکی کے پاس نہ تعلیم ہو ، نہ صحت ، نہ عقل و ہنر بس لوگوں کو دکھانے کےلئے اس پر بہت سا سونا لاد دیا جائے جسے وہ گدھے کی طرح ڈھوتی ہوئی اپنے سسرال پہنچ جائے ۔ اور سسرال وہ سونا پکڑ کر لاکر میں رکھ دے اور پھر جب سونے کے بغیر لڑکی کی شخصیت،صحت اور عقل دیکھے تو ماتم کے سوا کوئی اور چارہ نہ رہ جائے۔ آپ کے کون سے رہنما نے بیرونی مدد کے بغیر آپ کو جینے کا پلان دیا ؟غلامی سے نکالنے کی کوشش کی ؟ کسی نے آپ کو بتا یا کہ بیرونی امداد کے بدلے بیرونی طاقتیں ترقی کے نام پر آپ کے تہذیبی ،معاشی اور معاشرتی ڈھانچے کو تبدیل کر نے کی کوشش کرتی ہیں ؟جس دور کو آپ معاشی ترقی کا دور سمجھتے ہیں ، اسی دور کے کپڑے اٹھا کر دیکھیں نیچے آپ کا گلا سڑا بکا ہوا بدن پڑا ہوگا ۔۔ تو لیڈر کب ملا آپ کو ۔؟
ہمارے خستہ حال ملک کو اب ایک سات آنکھوں والے دیو نما لیڈر کی ضرورت ہے جس کی نظر معاشیات، نفسیات، سماجیات، ثقافت، امن،آزادی، بین الاقوامی تعلقات جس میں آپ کا تشخص بھی قائم رہے اور آپ عالمی تنہائی کا بھی شکار نہ ہوں ۔ مجھے ایشیا کے عظیم لیڈر مہاتیر کی یہ بات بہت اعلی لگتی ہے کہ انہوں نے کہا کہ بحیثیت ِ لیڈر میرے لئے سب سے بڑا چیلنج اپنے لوگوں میں پائی جانے والی سستی اور اس غیر ذمہ دارانہ رویے میں تبدیلی تھا ۔دوسری طرف ہم اپنے لیڈروں میں کیا دیکھتے ہیں ۔ کس نے کارکن کے یا اپنے رویے کو تبدیل کرنے کی بات کی ؟ سیاسی جلسوں کے بعدکھانے کی میزوں کو کارکنوں کے ہاتھوں ا لٹتے دیکھ کر آنکھ میں کنکر سا چبھ جاتا ہے ۔اس لئے نہیں کہ بد نظمی ہوگئی ، اس لئے کہ بھوک سب سے بڑی عفریت بن کر کھڑی ہے اور لوگ محنت سے کما کر کھانے کی بجائے شارٹ کٹس کےلئے بھاگے پھر رہے ہیں ۔کس لیڈر نے ان واقعات کا نوٹس لے کر اس کے لئے کوئی تدبیر سوچی ۔؟جو لیڈر ایک جلسے کی کھانے کی میز بھوکے کارکن سے نہیں بچا سکتے وہ اس ملک کی تعمیر میں اس کارکن کو ایک ووٹ سے ذیادہ اور کیا استعمال کر ے گا۔وہ ووٹ جو ان کو پارلیمنٹ میں تو پہنچا دیتا ہے مگر ایک کارکن کے لئے صرف جلسے میں پکنے والی دیگ تک کا پرمٹ اور اس کے نزدیک الیکشن صرف ایک دیگ کے سوا کچھ بھی نہیں۔ مہاتیر محمد نے کہا تھا اگر کسی معیشت کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا ہو تو سب سے پہلے مقامی لوگوں کی ذہنی ترقی پر توجہ دینی چاہئے۔ ملائیشا کو ترقی کے راستے پر گامزن کرنے والے لیڈر کی سوچ بتانا اس لئے ضروری لگا کہ جب آپ نئے پاکستان کا نعرہ لگائیں تو سوچیں کسی لیڈر نے آپ کو نیا پاکستانی ©کا نعرہ دیا ہے، جو مہاتیر محمد کے new malayia © شخص کی طرح ہر قسم کے چیلنج کو قبول کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو ،جو بغیر کسی بیرونی امداد کے مقابلہ کر سکتا ہو، جو تعلیم یافتہ ،نفیس اور منظم ہو ۔محنت، ثابت قدمی، احساسِ برتری اور اعلی اخلاقی اقدار جیسے اوصاف کا حامل ہو ۔ وہی لیڈر آپ کا سات آنکھوں والا دیو ہے۔

ای پیپر-دی نیشن