سیاسی کارکنوں اور معاشرے میں بے چینی
انقلاب روز نہیں آتے بلکہ حالات بنتے ہیں۔ جب محنت کشوں اور متوسط طبقہ اپنے اوپر ہونے والے مظالم کو برداشت کرتا چلا جاتا ہے اور حکمران طبقہ کے خلاف نفرت اور انتقام جمع کرتا رہتا ہے ایک مقام پر جا کر یہ خطرناک صورت اختیار کر لیتا ہے ۔ پاکستان کی تاریخ میں ایوب خان کے آخری دور اور ذوالفقار علی بھٹو کے آخری دور میں ایسے ہی حالات تھے دوبارہ اب ایسے حالات نظر آ رہے ہیں لوگوں میں ہر طرف احساسی محرومی پیدا ہو رہا ہے یہ احساسی محرومی نہ صرف عام لوگوں میں بلکہ بڑی سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کا اپنی سیاسی راہنماﺅں کے خلاف بھی سامنے آ رہا ہے جس کی مثال الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں روزانہ دیکھنے کو ملتی ہے۔ 5، 5 بار مرکز اور صوبوں میں حکومت کرنے والے اور اپنے مشکل وقت میں اپنے کارکنوں کو سنہری اثاثہ اور ماتھے کا جھومر قرار دینے والے اب انکی شکل دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتے۔ سابقہ پانچ سالوں میں مرکز اور صوبے پنجاب میں قربانیاں دینے والے کارکنوں سے جو سلوک کیا گیا وہ واضح نظر آ رہا ہے ایک ممبر قومی اسمبلی خواجہ سعد رفیق نے ایک چینل پر اپنے انٹرویو میں درست کہا تھا کہ کھرا سچا اور مضبوط کارکن مال اسباب نہ ہونے کی وجہ سے صرف کارکن ہی رہ سکتا ہے۔ وہ لیڈر یا اسمبلی میں نہیں پہنچ سکتا نہ مرکزی قیادت کے قریب ہو سکتا ہے کیونکہ خواجہ سعد خود ہی سٹریٹ کے کارکن ہیں ان سے بہتر کارکنوں کی نمائندگی کوئی نہیں کر سکتا۔ مرکزی راہنماﺅں کا کارکنوں کو اہمیت نہ دینا اور معاشرہ میں بے انصافیاں بگاڑ کا باعث بنتی ہیں دیکھا جائے تو ملک کی کثیر آبادی افلاس کی زندگی بسر کر رہی ہے۔ پینے کے لئے صاف پانی اور بجلی کی سہولت سے بھی وہ محروم ہے۔ صحت کی سہولتیں بھی میسر نہیں۔ سیلاب‘ قحط سالی اور بیماریاں نہ صرف ان کو بلکہ ان کے لائیو سٹاک کو بھی بری طرح متاثر کرتی ہیں۔ ناقص غذا‘ ناخواندگی‘ بیماریاں‘ بلند شرح پیدائش، بے روزگاری اور پست آمدنیاں شدید معاشی بحران کی علامتیں ہیں۔ یہ سب کچھ قدرتی وسائل کی کمی کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ ذرائع پیداوار کے ناقص اور غیر موثر استعمال‘ بدعنوانیوں‘ بری حکمرانی اور اشرافیہ کی لوٹ مار کا نتیجہ ہے۔ ملک میں سیاسی استحکام کا فقدان ہے۔ سیاسی قیادت ٹکڑوں میں بٹی ہوئی ہے اور معاشی بحالی کے ایجنڈے پر اتفاق رائے ناپید ہے۔ نظام تعلیم انتہائی فرسودہ اور انحطاط پذیر ہے اور معاشرے میں تقسیم کا باعث بن رہا ہے۔ غیر ترقیاتی اخراجات میں بے لگام اضافہ‘ روز مرہ کے حکومتی امور چلانے کے لئے درکار فنڈز کی کمی‘ لاقانونیت‘ دہشت گردی کے خلاف لڑی جانے والی جنگ‘ ڈرون حملے‘ کراچی میں لسانی جھگڑے‘ مذہب کے نام پر بے رحمانہ خونریزی اور خود کش حملے نہ صرف سماج‘ سیاست اور معیشت پر برے اثرات مرتب کر رہے ہیں بلکہ روزگار کے مواقع‘ کاروباری ماحول اور متوقع بیرونی سرمایہ کاری کو بھی بری طرح متاثر کر رہے ہیں جس کی وجہ سے غربت اور بے روزگاری میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ پچھلی دو دہائیوں میں پاکستان کے بنیادی صنعتی ڈھانچے اور انفراسٹرکچر میں کوئی قابل ذکر اضافہ نہیں ہو سکا۔ ہم کالا باغ ڈیم کی بحث میں الجھ کر رہ گئے ہیں اور زرعی شعبے کی ترقی کے لیے ضروری آبی وسائل میں اضافے کے لیے کچھ بھی نہیں کر پائے۔ بیمار صنعتی اداروں کی تعداد بڑھی ہے اور کئی صنعتی ادارے بند ہو چکے ہیں۔ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنیوالوں کی تعداد 40 فیصد سے تجاوز کر چکی ہے۔ پچھلے دو سالوں میں آنے والے سیلاب سے انفراسٹرکچر کو وسیع پیمانے پر نقصان ہوا ہے۔ انفراسٹرکچر کی تعمیرنو کے لئے کثیر مالی وسائل کی ضرورت ہے لیکن مالیاتی خسارے کی وجہ سے ترقیاتی فنڈز میں کمی کی جا رہی ہے جس کے باعث انفراسٹرکچر مزید شکست دریخت کا شکار ہے۔معیشت کی گنجائش کے مطابق ٹیکس اکٹھا کرنے میں ناکامی کی وجہ سے قرض کا بوجھ متواتر بڑھتا جا رہا ہے اور مالیاتی خسارہ قابو سے باہر ہو رہا ہے۔ طاقتور طبقے نہایت بے شرمی سے ٹیکس چوری کرتے ہیں اور اپنے لئے مراعات بھی حاصل کر لیتے ہیں۔ جو تھوڑا بہت ریونیو اکٹھا ہوتا ہے اسے بھی ملکی اشرافیہ فضول خرچی پر اڑا دیتی ہے۔ سویلین اور خاکی بیورو کریسی‘ کرپٹ اور نااہل سیاستدان‘ مفاد پرست فیوڈل اور حریص کاروباری افراد ملک کے 80 فیصد وسائل پر قابض ہیں لیکن ٹیکس ریونیو میں ان کا حصہ صرف 5 فیصد ہے۔ بے شمار آمدنی اور دولت کے مالک ہیں لیکن ٹیکس ادا کرنے سے پہلو تہی کرتے ہیں۔ موجودہ استحصالی، بے ہودہ ، نا معقول اور غیر منصفانہ ٹیکس نظام غریب اور امیر کے درمیان خلیج کو وسیع کر رہا ہے۔ صاحب ثروت لوگوں پر ٹیکس عائد کرنے کیلئے درکار سیاسی عزم کا فقدان ہے اور غڑبا پر ہر سال بالواسطہ ٹیکسوں کا بوجھ لاد دیا جاتا ہے۔ جن کا زیادہ بوجھ غریب اور محروم طبقات کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔ پچھلے دس سالوں میں بالواسطہ ٹیکس میں اضافہ اور وصولی ٹیکسوں میں کمی ہوئی ہے۔ ملک میں کرپشن کا راج ہے۔ تمام ادارے اس موذی مرض میں مبتلا ہیں۔ سیاسی بدعنوانیوں‘ کرپشن‘ مالیاتی بے ضابطگیوں اور ٹیکس چوری نے ملک کی معیشت کی جڑیں ہلا کر رکھ دی ہیں۔ معیشت اب ایسے مقام پر پہنچ چکی ہے جہاں قرضوں پر انحصار کرنا خود کشی کے مترادف ہو گا۔ لہٰذا ٹیکس ریونیو اور دیگر مالی وسائل میں اضافہ ناگزیر ہے۔ اس مقصد کے لئے زرعی آمدنیوں پر ٹیکس عائد کرنا اور ٹیکس کا دائرہ کار وسیع کرنا ہو گا۔ مراعات یافتہ طبقات سے تمام اعانتیں اور رعایتیں واپس لینا ہوں گی۔ براہ راست ٹیکسوں میں اضافے کے ساتھ ساتھ ٹیکس چوری کا کلچر ختم کرنا ہو گا۔ ٹیکس ایڈمنسٹریشن کی کرپشن پر قابو پانا ہو گا۔ حکومتی اخراجات میں بڑی کمی کرنا ہو گی اور بیورو کریسی کا حکم بھی کم کرنا ہو گا۔ امتیازی قواعد کے ذریعے جرنیلوں‘ ججوں اور سینئر بیورو کریٹ کو کروڑوں مالیت کے شہری پلاٹوں کی الاٹمنٹ بند کر دینی چاہئے۔