دردوں کا درماں کرنے والی جمہوریت!
آئینی مدت کی تکمیل پر جمہوری حکومتوں کے اختتام اور نگران حکومتوں کے قیام کے بعد غیر محسوس انداز سے ایک بہت بڑی تبدیلی رونما ہوئی ہے۔لاقانونیت ،ڈکیتی ،چوری، اغوا اور قتل و غارت گری کے واقعات بڑی حد تک کم ہوچکے ہیں ۔ٹریفک ہمہ وقت رواں دواں رہتی ہے ، ہٹو بچو کا سلسلہ ختم ہوگیا ہے ۔عدلیہ جس طرح آزاد ہونی چاہیئے، ویسے ہی آزاد ہے۔بلوچستان میں علیحدگی پسندوں کی سرگرمیوں میں پہلے جیسی جارحیت نہیںرہی۔ عام شہریوں کے اغوا کے واقعات میں خاطر خواہ کمی ہوئی ہے۔پورے ملک میں مہنگائی کا طوفان جو کہیں تھمنے کا نام نہیں لے رہا تھا،اس میں جمہوری حکومتوں کے جانے اور نگرانوں کے آنے سے ایک ٹھہراﺅ آگیا ہے اگرچہ اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں کمی نہیں ہو ئی مگر روزافزوں اضافے کا سلسلہ رک گیا ہے ۔ان مثبت تبدیلیوں کے پیچھے نگرانوں کا کوئی کمال نہیں بلکہ اس کا تمام تر ” کریڈٹ “کامیابی سے اپنی مدت پوری کرنےوالی حکومتوں کو جاتا ہے۔یہ لوگ گئے تو اپنی ”اہلیت اور صلاحیت “بھی ساتھ لے گئے۔ نگرانوں کے پاس اول توپالیسی سازی کے ا ختیارات نہیں، ان کا کوئی مخصوص ایجنڈہ بھی نہیں ہے ۔اہم بات یہ ہے ان کو تو اپنے آپ کی بھی زیادہ خبر نہیں۔معاملات اللہ کے سہارے چل رہے ہیں ۔بہتری اس لئے نظر آرہی کہ بیوروکریسی پر عدلیہ کی کڑی نظر اور اس پر کسی مفاد پرست گروہ، گروپ یا ٹولے کا ناجائز اور بلا جواز دباﺅ نہیں ہے۔ اجارہ داریاں جمہوریت کا راگ الاپنے والوں کے ساتھ ہی رخصت ہوگئیں۔ کراچی کے حالات جمہوری حکومت کے خاتمے کے بعد قدرے بہتر ہوئے ہیں لیکن دیگر علاقوں کے مقابلے میں بہتری بہت کم ہوئی ۔ اس تفاوت کی وجہ یہ ہے کہ وہاں کے نگران سابق حکومت کا ہی تسلسل ہیں۔پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم سندھ میں پانچ سال حکومت میں اتحادی رہے ۔نگران سیٹ اپ کی تشکیل سے قبل ایم کیو ایم اپوزیشن میں جا بیٹھی ۔یہ ڈرامہ اپنی مرضی کی نگران حکومت لانے کے لئے رچایا گیا۔ یوں سندھ میں پرانی سوچ والے نئے چہرے سامنے آئے جو معاملات کوپرانی ڈگر پر خود کو سامنے لانے والوں کی مرضی سے چلا رہے ہیں۔اگر کراچی میں بھی ایک غیر جانبدار سیٹ اپ آجاتا تو ملک کے دیگر حصوں کی طرح کراچی میں بھی یقینا امن و امان کی صورتحال مزید بہتر ہوچکی ہوتی۔مرکز اور صوبوں میں ، خصوصی طور پر پنجاب میں اگر فعال اور معاملات کو گہرائی سے سمجھنے والے نگران لگائے جاتے تو بہت سے عوامی مسائل حل ہو جاتے ۔بجلی گیس کی قلت کو دور کرناان نگرانوں کیلئے ایک چیلنج تھا۔ انکا اس طرف دھیان ہی نہیں جاتا جسکے باعث یہ بحران شدید ترین صورت اختیار کرتا جارہا ہے۔اجلاسوں کی صدارت کے شوق میں کابینہ بنا دی گئیں۔جس طرح الیکشن کمیشن اور پنجاب کی پارلیمانی کمیٹی کی سامنے نگران وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ کی نامزدگی کا کوئی معیار نہیں تھا اسی طرح انکی تشکیل دی گئی کابینہ کے ارکان بھی کوئی کارکردگی دکھانے سے عاری ہیں۔یوں لگتاہے کہ کابینہ کے ارکان کی قرعہ اندازی کی گئی ہے۔یکم اپریل کو پندرہ رکنی نگران کابینہ کا اعلان کیا گیا تو لوگ اس کو اپریل فول سمجھے کیونکہ نگران وزیر اعظم میر ہزار خان کھوسو نے بڑے وثوق سے کہا تھا کہ کابینہ کے ارکان کی تعداد دس سے بارہ ہوگی لیکن یہ اپریل فول نہیں حقیقت تھی، اگلے روزدو اپریل کو پندرہ وزیروں کے حلف کا انتظام کیا گیا تھاالبتہ اس روز یعنی دو اپریل کو اس وقت اپریل فول والی صورتحال پیدا ہوگئی جب پندرہ میں سے ایک کرسی حلف برداری کی تقریب کے عین موقع پر اٹھوا دی گئی۔اس موقع پر عقدہ کھلا کہ نگران کابینہ میں حلف کیلئے نامزد، ڈاکٹر مشتاق سرکاری ملازم ہیں۔ گورنر سٹیٹ بنک نے سابق مشیر پٹرولیم ڈاکٹر عاصم حسین جو آج کل ایوان صدر میں مالشیئے کے طور پر جانے جاتے ہیں، کو بتایا گیا کہ ڈاکٹر مشتاق سٹیٹ بنک کے ملازم ہیں۔ڈاکٹر مشتاق کا نام کہاں سے آیا اور کس کے کہنے پر کابینہ میں شامل کیا گیا؟ یہ کوئی معمہ نہیں ہے ۔ جب پتہ چلا کہ ڈاکٹر مشتاق سرکاری ملازم ہیں تو فوری طور پر وزیر اعظم کو آگاہ کیا جانا چاہیئے تھا نہ کہ ڈاکٹرعاصم ایوان صدر میں اچھل کود کرتے پھرتے۔نگران وزیر اعظم کی اہلیت ، فیصلہ سازی کی صلاحیت اور جانچ پرکھ کی قابلیت ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے ان کو لکھے گئے خط سے بھی عیاں ہوجاتی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ 2نگران وفاقی وزراءپر کرپشن اور کاروباری بدعنوانیوں کے الزامات ہیں۔ وزیر پٹرولیم سہیل وجاہت نے پٹرول سپلائی کا ٹھیکہ لینے کیلئے کارٹل بنایا، سہیل وجاہت کی کمپنی نے 46ارب کی تیل سپلائی کا ٹھیکہ بغیر شفافیت حاصل کیا۔ وزیر مواصلات اسد اللہ مندوخیل پر این ایچ اے کو جعلی گارنٹیاں دینے کا الزام ہے۔ ٹرانسپیرنسی نے ساتھ ہی تنبیہ بھی کی ہے کہ دونوں وزراءکیخلاف ایکشن نہ ہوا تو نگران حکومت کی ساکھ داﺅ پر لگ جائیگی۔ساکھ تو خیر ان کی پہلے بھی کوئی عرش معلی کے کناروں کو نہیں چھو رہی تھی۔ان کا اصل کام تو شفاف انتخابات کے انعقاد میں الیکشن کمیشن کی معاونت ہے لیکن انکی ترجیحات میں اپنی خواہشات بھی در آئی ہیں ۔بسنت پر ہائی کورٹ کی جانب سے پابندی عائد کی گئی ہے ایسے بھی تہوار اپنے وقت اور موسم میں منائے جائیں تو ہی سہانے دکھائی دیتے ہیں۔ نجم سیٹھی کے پاﺅں تلے نگران وزارت اعلیٰ کا بٹیرہ کیا آیا کہ بے موسما تہوار منانے کے ارادہ اور اعادہ کررہے ہیں۔ نگرانوں کے خواب غفلت میں پڑے رہنے کے باوجود بھی ملکی حالات خصوصی طور پر امن عامہ کی صورتحال بہتر ہورہی ہے اگر یہ اپنے دائرہ اختیار میں رہتے ہوئے عوام کو ریلیف دینے کو اپنی اولین ترجیح بنا لیں تو انکی ساکھ میں واقعی اضافہ ہوگا۔جن لوگوں نے عوام کی مشکلات میں اضافہ کیا وہ اب کس منہ سے ان سے ووٹ مانگنے جائینگے ۔ یہی وجہ ہے کہ انتخابی مہم ابھی تک ٹھنڈی ٹھار ہے۔لوگ ایسی جمہوریت سے نالاں ہیں جو ان کو سکھ کے بجائے دکھ دیتی رہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میںپنجاب پولیس نے ہڑتال کی ، گورنر پنجاب مصطفی کھر نے پولیس کے مطالبات ماننے سے انکار کردیا۔دلچسپ امر یہ ہے کہ پولیس جتنے دن ہڑتال پر رہی بڑے شہروں میں کوئی جرم نہیں ہوا ۔ اب عوام جمہوری حکومت کے خاتمے کے بعد کسی حد تک آسانی محسوس کر رہے ہیں۔اب شائدانکی خواہش ہو کہ ان کو غم دینے والی جمہوریت کہیں اور جابسے ۔