انتخابات‘ قیادت اور قوم کا فرض!
الیکشن کمشن کے شیڈول کے مطابق انتخابی عمل کے دوران آئین کا آرٹیکل 62 اور 63 کہیں جگمگاتا اور کہیں اپنا چہرہ چھپاتا نظر آیا۔ جن قدآور شخصیت کے کاغذات منظور ہوئے اور وہ الیکشن میں حصہ لینے کے اہل قرار پائے ان میں میاں نواز شریف، شہباز شریف، عمران خان، مخدوم امین فہیم، چودھری پرویز الٰہی، جنرل پرویز مشرف، اسفند یار، اسلم رئیسانی جیسے اعلیٰ پائے کے لیڈر شامل ہیں۔ ہم یہ سوال نہیں کرتے کہ کیا ان میں سے کوئی بھی 62 تڑیسٹھ پر پورا اترتا ہے تاہم یہ سوال ہے کہ کیا یہ تمام حضرات تمام انتخابی ضابطوں کو، بمع 62 اور تریسٹھ کے کوالیفائی کرتے ہیں۔ ریٹرننگ افسروں کے پاس اہلیت اور نااہلیت جانچنے کا جو پیمانہ یا قواعد تھے وہ دو جمع دو چار کی طرح کلیئر نہیں تھے۔ یہ کہیں دو جمع 8 اور کہیں دو جمع صفر بھی نظر آئے۔ انتخابی قوانین واضح ہوتے تو مشرف کے دو حلقوں سے کاغذات نامنظور ایک حلقے سے منظور نہ ہوتے۔ چودھری نثار کو این اے 52 سے الیکشن لڑنے کی اجازت دی گئی ہے 53 سے نہیں۔ ریٹرننگ افسروں کے سوالات کو غیر ضروری قرار دے کر لاہور ہائیکورٹ اور الیکشن کمشن نے انہیں غیر ضروری سوالات نہ کرنے کی ہدایت کی تھی۔ اب صدر صاحب نے ریٹرننگ افسروں کے ساتھ الیکشن کمشن کے رویے کو بھی غیر مناسب قرار دیا ہے۔ ریٹرننگ افسر کو امیدوار سے یہ جاننے کیلئے کہ وہ 62، 63 پر پورا اترتا ہے، سوال کرنے کا اختیار ہے۔ وہ اس حوالے سے جو چاہے سوال کرے۔ اس کے ضروری یا غیر ضروری ہونے کا فیصلہ کس نے کرنا ہے؟۔ عدلیہ، الیکشن کمشن، صدر یا حکومت جو بھی تحفظات ظاہر کریں، ہدایات اور احکامات دیں، ریٹرننگ افسر سوالات اپنی صوابدید، فہم اور دانش کے مطابق ہی کرے گا، اسے کوئی ضروری قرار دے یا غیر ضروری، البتہ ریٹرننگ افسر کے اختیارات کو ایک سوال نامہ تھما کر محدود کیا جا سکتا ہے۔ یہ حکومت کی مرضی ہے کہ سوالنامہ مشتہر کرے یا خفیہ رکھے، ہر الیکشن کے موقع پر نیا جاری کرے یا پرانا چلائے، خفیہ رکھے تو کیا ہر ریٹرننگ افسر کے پاس ایک جیسا ہو۔ ویسے عامة الناس موجودہ سلسلے کو جاری رکھنے کے حامی ہیں تاکہ ان کو یہ پتہ چلے کہ وہ جن کے ہاتھوں میں اپنی تقدیر تھمانے چلے ہیں وہ کس کردار کے مالک ، کتنے اہل علم اور کتنی عقل و دانش رکھتے ہیں۔ دوسرے انتخابی مرحلے کی تکمیل کے بعد انتخابی سرگرمیوں میں ہلچل پیدا ہو رہی ہے۔ اپیلیں نمٹائے اور سیاسی جماعتوں کی طرف سے امیدواروں کی حتمی فہرست سامنے آنے کے بعد انتخابی مہم کا سورج سوا نیزے پر ہو گا۔ گو کہ الطاف بھائی نے انتخابات ایک ماہ تک آگے لیجانے کی بات کی ہے۔ عمران خان بھی اس تجویز سے بالواسطہ متفق نظر آتے ہیں۔ نگرانوں کے تو یہ دل کی بات ہے جو کسی اور کے لبوں پر آ گئی ہے لیکن اب ممکن نظر نہیں آتا۔ جسٹس افتخار محمد چودھری کے چیف جسٹس ہوتے ہوئے اگر قیامت بھی ٹوٹ پڑے انتخابات ایک دن کیلئے بھی آگے نہیں جا سکتے۔ آج کے وزیر داخلہ بھی چونکہ ملک میں شاید اسی لئے وہ سابق وزیر داخلہ رحمن ملک کا اوتار نظر آتے ہیں، قوم کو اُسی طرح خوفزدہ کر رہے ہیں کہ فلاں کی جان کو خطرہ ہے۔ جو شخصیات خطرات میں ہیں ان سے بات کریں اور ان کی سکیورٹی کے انتظامات بھی، عوام کو تو خوفزدہ نہ کریں۔ آج یہ سوال زیادہ ہی زیر بحث ہے کہ وزیراعظم کون ہو گا؟ مسلم لیگ ن جیتی تو نواز شریف، پی ٹی آئی سرخرو ہوئی تو عمران خان ہوں گے۔ پیپلز پارٹی کو کامیابی ملی تو ---؟ یہ سوال کوئی نہیں کرتا۔ اس پر شاید خود پیپلز پارٹی کی قیادت بھی زیادہ مغز ماری نہیں کرتی۔ مسلم لیگ ن والے اپنی نجی محفلوں میں یہ کہتے دکھائی دیتے ہیں کہ معاملات کو اگر درست سمت کی طرف لے جانا ہے تو زمامِ اقتدار میاں شہباز شریف کے ہاتھ میں دینا ہو گی یا کم از کم ان کو بجلی پانی اور گیس کی وزارتیں دے دی جائیں گی۔ شہباز شریف بلاشبہ مقابلتاً یا نسبتاً اچھے منظم ہیں۔ شہنشاہِ جذبات بھی، جذبات کی رو میں بہتے اور پھڑ لو، پھڑلوکی کیفیت سے دوچار ہوتے ہیں تو ان کی فیصلہ سازی کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے۔ اندھا دھند معطلیوں کے احکامات ایسی ہی طبیعت کا شاخسانہ ہیں۔ شہباز شریف کی اہلیتیں، قابلیتیں اور صلاحیتیں اپنی جگہ، ملکی حالات کو درست کرنے کا دارو مدار ایک اچھی ٹیم اور سسٹم پر بھی ہے۔ یہ ٹیم شہباز شریف نے ان لوگوں میں سے ہی لینی ہے جوانتخابی عمل سے سامنے آئیں گے :شہباز شریف لاکھ کہتے رہیں وہ جو سائے میں ہر مصلحت کے پلےایسے دستور کو صبحِ بے نور کومیں نہیں مانتا، میں نہیں جانتاوہ جس کو نہیں مانتے اس کو بھی مانتے ہیں اور مجبوراً ہی سہی مصحلتوں سے زنجیر بھی ان کے ہاتھ باندھ دیتی ہے۔ ذوالفقار چیمہ آر پی او گوجرانوالہ تھے۔ کالی اور سفید مونچھوں والوں نے دباﺅ ڈالا۔ ایک نائرہ کی نااہلی پر دوسرے نائرہ کو ایم این اے بنا نے کو کہا گیا ورنہ سیاہ و سفید مونچھیں نیچی ہو جائیں گی۔ چیمہ کو اپنی غیر جانبداری کی مونچھ کا خیال تھا وہ اونچی رہی۔ یہ سیٹ پی پی پی جیت گئی۔ مسلم لیگ ن نے سمجھا اس کی ناک کٹ گئی یوں چیمہ صاحب کا پتہ کاٹ کر ان کو لاہور میں ایک بے ضرر سی پوسٹ دے دی گئی۔ ایک موقع پر سی سی پی او لاہور لگانے کی بات چلی تو کئی سیاستدانوں کو اپنی کشتی ڈولتی محسوس ہوئی، کسی نے میاں صاحب کے پاﺅں پکڑے ،کسی نے ٹھوڑی کو چھوا۔ ان کوآر پی او فیصل آباد کا اضافی چارج دیا گیا تو سیاہ مونچھ اس علاقے کے لوگوں کیلئے سیاہ بختی ثابت ہوئی۔ چند دن بعد شہباز شریف نے یہ اضافی چارج واپس لے لیا۔ اس سے قبل فیصل آباد کو ترقیوںسے ہمکنار کرنے کی کوشش کرنے والے ڈی سی او نسیم صادق کو اس لئے ملتان ٹرانسفر کر دیا گیا تھا کہ وہ میاں صاحب کے چہیتے سیاستدانوں کے ایما پر مصلحت کوشی کیلئے آمادہ نہیں ہوتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ فیصل آبادی سیاستدانوں نے میاں صاحب سے درخواست کی، اپنی حیثیت باور کرائی اور بلیک میل بھی کیا۔ معاشرے میں ایک پٹواری کو سب پہ بھاری سمجھا جاتا ہے۔ جولائی 2011ءکو چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس اعجاز احمد چودھری نے پٹواری کی جبلت کا یوں نقشہ کھینچا کہ یہ پٹواری فرد جاری کرنے کے لئے 15، 15 لاکھ رشوت لے رہے ہیں۔ ساتھ ہی فرمایا کہ وزیر اعلیٰ پٹواریوں کے خلاف کارروائی نہیں کر سکتے تو حکومت چھوڑ دیں۔ ان ریمارکس پر خادم اعلیٰ پر پھڑلو پھڑ لو کا دورہ پڑا۔ ہنگامی طور پر 100 تحصیلدار تلاش کر کے ان علاقوں میں لگا دئیے گئے جہاں پٹواری زیادہ ہی بھاری تھے۔ ان میں ایک جمیل نت واپڈا سے پانچ سال کی ڈیپوٹیشن کے بعد واپڈا سے واپس آئے تو ان کو اوکاڑہ تعینات کر دیا گیا۔ ان کی تعیناتی کے ساتھ ہی اوکاڑہ کے پٹوار خانوں میں ایک بھونچال آیا اور صف ماتم بچھ گئی ۔ آفتاب اقبال کے ابا جی ظفر اقبال کے بقول جمیل نت نے پٹواریوں سے رشوت نہ لینے کا قرآن پر حلف لیا تھا۔ ظفر اقبال صاحب کے ایک صاحبزادے سے ریکوری کی گئی جس پر ناک بھوں چڑھانے کے بجائے انہوں نے نت صاحب خراج تحسین پیش کیا۔ پٹواریوں نے رشوت نہ لینے کی قسم تو کھائی لیکن اپنی خو نہ چھوڑی۔ گھر میں نوبت مٹن ،بٹیر کے بجائے دال سبزی پر آگئی۔بیگمات شوربے میں ڈوئی چلاتیں تو نت نت آوازیں آتی تھیں۔لہٰذا وثیقہ نویسوں اور اشٹام فروشوں کی تحصیلدار کے خلاف ہڑتال کرا دی، دوسری طرف ایک ایک کر کے چاروں ایم پی ایز کو اپنے حضور لائن حاضر کر کے تحصیلدار کا مکو ٹھپنے کی ہدایت کی۔ ایم پی اے حضرات پٹواریوں کے اعتماد پر پورا اُترے اور نت کا تبادلہ پتوکی کرا دیا گیا۔ تبادلے کی خبر پر وکلا اور تاجروں نے احتجاج کیا۔ ڈی سی اور کمشنر ساہیوال بھی کارکردگی سے مطمئن تھے۔ انہوں نے تبادلہ رکوانے کی کوشش کی ، معاملہ چیف سیکرٹری سے خادم اعلیٰ تک پہنچا، وہ پہلے ہی تمام صورتحال سے آگاہ تھے۔ صبح بے نور کو نہ ماننے والے کا مو¿قف تھا کہ تحصیلدار اچھا ہے لیکن مجبوری ہے۔ تبادلے کے 18 دن بعد ریلیز کیا گیا۔ اس دن اوکاڑہ آئے 4ماہ ہوئے تھے۔ پتوکی میں رانا حیات ایم این اے کی صاحبزادہ کی شادی میں نت صاحب کو بھی شامل ہونے کو کہا گیا۔ وہاں سپیکر صاحب سے تعارف کرایا گیا تو انہوں نے فرمایا آپ سے پٹواری بہت تنگ ہیں۔ نت نے پوچھا کہ پبلک کیا کہتی ہے۔ ”پبلک تو بڑی خوش ہے۔“۔۔۔” آپ پبلک کے نمائندے ہیں آپ کو بھی خوش ہونا چاہئے“۔۔۔ ”یہ تو ٹھیک ہے لیکن پٹواری سپیکر ہاﺅس میں آ کر بڑا دباﺅ ڈالتے ہیں۔“ اس مکالمے کے بعد جمیل نت نے بتایا کہ ایک پٹواری نے ہبہ کی فیس 40 ہزار لی جو 5 سو ہے۔ میں نے سائل کو 39 ہزار 5 سو واپس کرا دئیے۔ دوسرے پٹواری نے ایک رجسٹری میں ایک لاکھ رشوت لی وہ بھی واپس کرائی تو بتائیے ایسے پٹواری مجھ سے خوش ہوں گے؟ پتوکی سے بھی ان کو دو ماہ بعد شرقپور بھجوا دیا گیا وہاں پانچ ماہ بھی نہیں ہوئے تھے کہ رائیونڈ آنا پڑا۔ اس تحصیلدار کو نیب کی طرف سے حسن کارکردگی کا سرٹیفکیٹ ملا، خود شہباز شریف نے آئینی مدت کے اختتام سے ہفتہ قبل بہترین کارکردگی کا سرٹیفکیٹ اور 50 ہزار روپے نقد دئیے۔ ذوالفقار چیمہ،نسیم صادق اور جمیل نت ایسے افسر کیا شو کیس کی زینت بنانے کیلئے ہوتے ہیں؟۔ شہباز شریف یقیناً مصلحت کا شکار کم کم ہوتے ہیں، اب الیکشن کا موسم اور ٹکٹوں کی تقسیم کا سماں ہے۔ ٹکٹیں میاں شہباز شریف کے ہاتھ میں ہیں۔ وہ مصلحت کی راہ دکھانے والوں کو جانتے ہیں۔ صورتحال یہ بنی ہوئی ہے کہ مسلم لیگ ن کھمبے اور کھوتے کو بھی ٹکٹ دے گی تو وہ جیت جائے گا۔ شہباز شریف مرکز میں جائیں یا صوبے میں رہیں، اقتدار میں ہوں یا اپوزیشن میں، آج کرنے کا یہ کام ہے کہ صاف اور شفاف کردار کے لوگوں کو امیدوار نامزد کریں، جہاں دیانتدار لیڈر نہیں ہے وہاں ایماندار کارکن کو سامنے لائیں۔ عوام کا بھی فرض ہے کہ ایسے لوگوں کو ووٹ دیں جو پٹواریوں، تھانیداروں کے مفاد کے تحفظ کے بجائے عوام کے حقوق کی نگہبانی کریں جو قیادت کو بلیک میل نہ کر سکیں۔ خدا نے بہترین موقع انتخابات کی صورت میں عوام کو دیا ہے اس کو ضائع نہ کریں۔