عوامی نمائندوں کا کام قانون بنانا ہے‘ ترقیاتی فنڈ لینا نہیں‘ ایک پیسہ بھی غلط استعمال نہیں کیا جا سکتا : چیف جسٹس
اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ + آئی این پی) چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے کہا ہے کہ عوامی نمائندوں کا کام قانون سازی کرنا ہے‘ ترقیاتی فنڈ لینا نہیں‘ قومی خزانے سے ایک پیسہ بھی غلط استعمال نہیں کیا جا سکتا‘ عدالت کو بتایا جائے کہ بلوچستان کے ترقیاتی فنڈز میں کرپشن کے کتنے کیسز نیب، پولیس یا اینٹی کرپشن کو بھیجے گئے‘ این ایف سی ایوارڈ میں بلوچستان کو اتنا پیسہ ملا وہ کہاں گیا، صوبے میں پینے کا پانی اور بخارکی دوائی تک دستیاب نہیں‘ جن کے پیر میں جوتا تک نہیں انہیں حکومتی منصوبوں سے کیا لینا، بلوچستان کے عوام کو دانستہ طور پر محروم کیا گیا، عوامی نمائندوں کو کس طرح ترقیاتی منصوبے دیئے گئے‘ جونیجو دور میں شروع ہونے والی ترقیاتی سکیمیں ابھی تک مکمل نہیں ہوسکیں‘ صوبے میں منصوبوں کا ٹھیکہ دیتے وقت قانون سامنے نہیں رکھا گیا ‘ جو رپورٹ سامنے آئی ہے اس میں مجرمانہ غفلت ہی نظر آئی۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں جسٹس گلزار احمد اور جسٹس خلجی عارف حسین پر مشتمل3 رکنی بنچ نے بلوچستان میں ترقیاتی منصوبوں میں اربوں روپے کی خورد برد سے متعلق کیس کی سماعت کی۔ مقدمہ کی سماعت شروع ہوئی تو عدالت نے چیف سیکرٹری بلوچستان سے 2008ءسے 2013ءتک وفاق کی جانب سے ملنے والے ترقیاتی فنڈز کی تفصیلات طلب کرتے ہوئے خوردبرد میں ملوث افسروں کےخلاف ہونے والی قانونی کارروائی کی تفصیلی رپورٹ طلب کی۔ درخواست گزار سابق رکن اسمبلی عبدالرحیم زیارت وال کے وکیل نے کہا کہ اکثر کیسز میں اداروں کی بجائے ارکان پارلیمنٹ فنڈز میں خورد برد کرتے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ بلوچستان میں لوگ محرومیوں کا شکار ہیں، لوگوں کو پینے کے لئے پانی اور بخار کی دوا دستیاب نہیں، این ایف سی ایوارڈ میں بلوچستان کو اتنا پیسہ ملا ، وہ کہاں گیا، چیف سیکرٹری نیب کو منصوبوں کی تحقیقات کیلئے کہہ سکتے تھے، ایڈیشنل سیکرٹری بلوچستان نے بتایا کہ ترقیاتی منصوبوں کیلئے 25 کروڑ روپے ہر رکن اسمبلی کو دیے جاتے ہیں، چیف جسٹس نے کہا کہ بلوچستان میں اتنا پیسہ لگا ہوتا تو آج وہاں خوشحالی ہونی چاہیے تھی۔ صوبے میں منصوبوں کا ٹھیکہ دیتے وقت قانون سامنے نہیں رکھا گیا اس حوالے سے پیش کی جانے والی رپورٹ میں بھی مجرمانہ غفلت سامنے آئی ہے اس پر ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان نے کہا کہ ملوث افراد کے خلاف کارروائی کی گئی ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ عوامی نمائندوں کو کس طرح ترقیاتی سکیمیں دی جاتی ہیں جبکہ عوامی نمائندوں کا کام تو قانون سازی کرنا ہے۔ عبدالرحیم زیارت وال کے وکیل افتخار گیلانی نے کہا کہ اکثر ترقیاتی سکیموں کے فنڈز اداروں کے بجائے ارکان اسمبلی خود استعمال کرتے ہیں، انہوں نے حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ایک روڈ کی تعمیر کے وقت اس کی لاگت تخمینہ 1.5 ارب لگایا گیا تھا مگر وہ منصوبہ 11 ارب روپے میں مکمل ہوا، نیب اس کی تحقیق کررہا ہے، افتخار گیلانی نے عدالت کو بتایا کہ جن عوامی نمائندوں کے پاس 5 سال قبل کھانا کھانے کے پیسے بھی نہیں تھے اب ان کے پاس 4، 4 لینڈ کروزر ہیں، بلوچستان حکومت کے وکیل خواجہ حارث ایڈووکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ بلوچستان میں ہر رکن کو فنڈ دیئے گئے ہر ادارے میں کمیٹیاں تشکیل دی جاتی ہیں جو ترقیاتی کاموں کی نشاندہی کرتی ہیں، جسٹس افتخار محمد چودھری نے سوال اٹھایاکہ عوامی نمائندوں کا اصل کام تو قانون سازی کرنا ہے نہ کہ ترقیاتی فنڈ لینا۔ این ایف سی ایوارڈ کے تحت صوبہ بلوچستان کو سب سے زیادہ فنڈ ملے لیکن بلوچستان اب بھی سب سے زیادہ ترقی پذیر صوبہ ہے کسی بھی رکن کے نام پر ترقیاتی سکیمیں منظور کی جاتی ہیں ، کیا اس طرح کسی اور پارلیمانی ملک میں ہوتا ہے، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ایم این ایز اور ایم پی ایز کو کس حساب سے کوٹہ دیا جاتا ہے ، کرپشن کو پروموٹ کیا گیا ، چیف جسٹس نے کہا کہ آئین عوام کو یہ حق دیتا ہے کہ وہ اپنے علاقوں میں جاری ترقیاتی سکیموں کے بارے میں حکام سے پوچھیں کہ پیسے کہاں استعمال کئے جا رہے ہیں۔ چیف جسٹس نے مقدمے کی سماعت کے بعد بلوچستان حکومت کو حکم دیا کہ پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام بلوچستان کی سکیموں سے متعلق تفصیلی رپورٹ کے ساتھ ساتھ 1452 سکیموں کا مکمل ڈیٹا بھی عدالت کو فراہم کیا جائے عدالت کو بتایا جائے کہ کس سکیم پر کتنا پیسہ خرچ کیا گیا خوردبرد میں ملوث افسروں، افراد کیخلاف کیا قانونی کارروائی کی جارہی ہے۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ وزیروں نے ساری ترقیاتی سکیمیں اپنے سیکٹر میں منتقل کر لی ہیں۔ آپ ترقیاتی کام ضرور کرائیں لیکن فنڈ کی منصفانہ تقسیم ہونی چاہیے۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے کہا کہ ترقیاتی منصوبوں میں بدعنوانی کی نشاندہی عدالتی کمیٹی نے کی۔ عدالت میں چیف سیکرٹری بلوچستان کا خط پیش کیا جس میں کہاگیا کہ عدالتی حکم کے باعث ترقیاتی کام رک گیا جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ چیف سیکرٹری خط کے ذریعے عدالت پر الزام لگا رہے ہیں۔ بلوچستان حکومت کے وکیل نے کہا کہ چیف سیکرٹری کا خط واپس لیتا ہوں۔ مقدمہ کی سماعت آج پھر ہو گی۔
چیف جسٹس