گیلانی‘ پرویز اشرف دور کے میگا پراجیکٹس بظاہر بدعنوانی نظر آتی ہے : چیف جسٹس
اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت) سپریم کورٹ نے میگا پراجیکٹس میں سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف کے دور حکومت میں 450 اور 200 سے زائدسی این جی سٹیشنوںکے لائسنس دینے کے خلاف ازخود نوٹس کی سماعت کرتے ہوئے وزارت پٹرولیم اور اوگرا سے ذمہ داروں کی نشاندہی کرنے، پابندی کے باوجود غیر قانونی سی این جی لائسنس کے اجرا کی تفصیلات جبکہ وزیراعظم کی جانب سے منظور کردہ 2008-2013ءکے درمےان 3 سمریوں کی نقول اور ریکارڈ 12 اپریل تک عدالت میں پیش کرنے کی ہدایت کی ہے چیف جسٹس نے دوران سماعت کہا کہ بادی النظر میں معاملے میں بدعنوانی نظر آتی ہے مگر قانون کے مطابق ریکارڈ دیکھنے کے بعد ہی فیصلہ کےا جا سکتا ہے، دانستہ مجرمانہ غفلت پر کیس نیب کے حوالے کر دیا جائے گا۔ جسٹس عظمت سعید کا کہنا تھا کہ جس کام کو چھپاےا جائے وہ ضرور قانون کے خلاف ہوتا ہے۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی تو سیکرٹری پٹرولیم عابد سعید نے پیش ہو کر عدالتی ہدایت کے مطابق رپورٹ پیش کی اور بتایا کہ لائسنسوں کا اجرا کا کلی اختیار اوگرا آرڈیننس کے تحت اوگرا کے پاس ہے۔ عدالت کے استفسار پر ایگزیکٹو ڈائریکٹر اوگرا معظم حسین نے بتایا اس وقت ملک بھر میں 3395 سی این جی سٹیشن کام کر رہے ہیں، یہ لائسنس 18 مارچ 2008ءسے قبل کی درخواستوں پر جاری کئے گئے پھر لائسنس کے اجرا پر پابندی عائد کر دی گئی تاہم اس اطلاق انڈر پراسیس منصوبوں پر نہیں ہو گا، وزارت پٹرولیم کی مشاورت سے 1471 لائسنس جاری کئے ان میں آپریشنل اور آپریٹنگ لائسنس کی سال وائز موجودہ تفصلات یہ ہیں، 2008-9ءکے درمےان 656، 2009-10ءمیں 301، 2010-11¿ میں 301، 2011-12ءمیں 64 لائسنس جاری کئے۔ چیف جسٹس نے سیکرٹری پٹرولیم سے وزیراعظم کے کردار بارے استفسار کرتے ہوئے کہا کہ اوگرا بنانے کا مقصد یہ تھا کہ وہ کسی دبا¶ کے بغیر آزادانہ کام کرے یہ وزیر اعظموں کی مداخلت کہاں سے آ گئی۔ سیکرٹری پٹرولیم نے بتایا کہ اوگرا وزارت پٹرولیم کے ماتحت کام نہیں کرتا معاملے پر وزیراعظم کے پاس بہت سی درخواستیں آئی تھیں کہ تمام شرائط پوری کرنے کے باوجود اوگرا لائسنس جاری نہیں کر رہا، اس معاملے کا حل نکالا جائے۔ وزیراعظم سیکرٹریٹ کی جانب سے وزارت کو سمری بھیجی گئی کہ جو شرائط پوری کر چکے ہیں ان کو عبوری لائسنس جاری کئے جائیں، اس سمری پر ناصر محمد کھوسہ کے دستخط ہیں۔ سمری میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ جنہوں نے میٹر لگا لئے ہیں صرف گیس کنکشن دینا باقی ہے ان کو لائسنس جاری کرنے میں ترجیح دی جائے۔ جسٹس شیخ عظمت سعید کے استفسار پر اوگرا کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر نے بتایا کہ اس پابندی کے دوران 1471 لائسنس دئیے گئے مگر یہ وہ لائسنس ہیں جو پائپ لائن میں تھے کوئی نیا لائسنس نہیں دیا گیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ملک میں گیس کی انتہائی کمی ہے اس کے باوجود 1400 لائسنس جاری کئے گئے۔ یہ تو بہت منافع بخش کاروبار بن گیا ہے۔ جب پابندی تھی تو گیس سٹیشن کے میٹر کیسے لگ گئے، اس کا مطلب ہے کہ یہ نیوز آئٹم درست ہے۔ 450 لائسنس دینے تھے ان کیلئے سمری بھجوائی گئی، یہ کوئی راکٹ سائنس نہیں ہر آدمی سمجھ سکتا ہے کہ یہ ان لوگوں کو اکاموڈیٹ کرنا تھا جن کو لائسنس نہیں مل رہے تھے، اس مقصد کے لئے پابندی میں نرمی کی گئی مگر یہ کام قواعد کے خلاف ہے۔ سیکرٹری پٹرولیم نے بتایا کہ ہماری وزارت نے وزارت قانون سے رائے مانگی ہے کہ گیس کی قلت ہے اب اس سمری کی روشنی میں لائسنسوں کے اجرا کا کیا کریں تو اس نے رائے دی کہ پسند ناپسند کی بجائے ایک پالیسی بنا لی جائے، یہ بات وزارت پٹرولیم نے اوگرا کو بتائی۔ اس کی جانب سے جواب دیا گیا کہ جو سٹیشن مکمل ہیں ان کو دئیے جانے چاہئیں کیونکہ وہ سرمایہ کاری کر چکے ہیں جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اگر کوئی بڑی سرمایہ کاری کرتا ہے تو کیا اس کے لئے قانون میں نرمی کر لی جائے گی، قواعد پر عمل کرنا تو ضروری ہے، پالیسی رولز کے مطابق ہوتی ہے رولز کو پالیسی کے مطابق نہیں بنایا جاتا۔ عدالت نے اوگرا کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر سے کہا کہ آپ ہمیں ادھر ادھر نہ گھمائیں سچ بات بتائیں، کیا آپ یہ بیان حلفی سے سکتے ہیں کہ 2008ءکے بعد سے کوئی لائسنس جاری نہیں کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ کوئی نیا لائسنس جاری نہیں کیا گیا تاہم پہلے سے موجود لائسنسوں کو آپریشنل میں تبدیل کیا گیا اور ان کی کل تعداد 525 ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ آپ کی وجہ سے قوم کا اتنا بڑا نقصان ہوا، آپ اب بھی سچ بولنے کو تیار نہیں، توقیر صادق والا معاملہ بھی اسی دوران ہوا۔ پابندی کے دوران جو لائسنس دئیے گئے وہ غیر قانونی تھے عدالت کو اس سے مطلب نہیں کہ کس کو دئیے گئے۔ معظم حسین نے کہا کہ اوگرا کے پاس اس حوالے سے تمام اختیارات ہیں تو چیف جسٹس نے کہا کہ لامحدود اختیارات کسی کے پاس بھی نہیں۔ ہم اس کیس میں شفافیت دیکھیں گے۔ آپ نے جو 525 لائسنس جاری کئے ان سب کی فائلیں لی کر آئیں ابھی دیکھ لیتے ہیں کہ حقیقت کیا ہے کیونکہ پابندی کا مطلب مکمل پابندی ہے کسی بھی قسم کا لائسنس جاری نہیں کیا جا سکتا۔ اوگرا کے وائس چیئرمین صابر حسین نے روسٹرم پر آ کر کہا کہ اوگرا نے 64 مارکیٹنگ لائسنس جاری کئے تھے مگر یہ وزارت پٹرولیم کی ہدایت پر جاری کئے گئے اس کی ذمہ دار وزارت ہے، ہم عدالت سے کوئی بات نہیں چھپا رہے، اب اوگرا میں ایماندارانہ کام ہو رہا ہے یہ توقیر صادق والا اوگرا نہیں۔ سیکرٹری پٹرولیم نے بھی تسلیم کیا کہ 64 لائسنس وزارت کی سمری پر جاری ہوئے تھے۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ جن کو یہ لائسنس دئیے گئے کیا وہ بہت بااثر لوگ تھے تو سیکرٹری نے کہا کہ سب نہیں مگر کچھ لوگ بااثر بھی ہوتے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آج آپ لوگوں پر کوئی دبا¶ نہیں اس موقع سے فائدہ اٹھائیں اور اپنے معاملات کو درست کریں، اس سلسلے میں افسر خود متحرک ہوں، اگر بااثر افراد نے اختیارات کا ناجائز استعمال کیا ہے تو اب آپ کے پاس معاملے کو درست کرنے کا موقع ہے۔ عدالت نے دس منٹ کے لئے سماعت میں وقفہ کر دیا اور اوگرا سے کہا کہ وہ ریکارڈ لے کر آئے۔ وقفہ کے بعد اوگرا کے وکیل سلیمان اکرم راجہ پیش ہو گئے۔ انہوں نے سارے معاملے کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اوگرا کی جانب سے دو قسم کے لائسنس جاری کئے گئے ایک دو سالہ اور دوسرے 15 سالہ مدت والے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت کی یہ رائے ہے کہ بادی النظر میں پابندی کے باوجود لائسنس دئیے گئے اور اب اس کو درست ثابت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ 13 مارچ کو جب حکومت جانے میں چند روز باقی تھے یہ سارا کام کرا لیا گیا، اس کا ذمہ دار کون ہے اس کی نشاندہی کی جائے۔ اوگرا افسر سچ بولیں ورنہ کل چیئرمین نیب کو بلا لیتے ہیں اور معاملہ نیب کے حوالے کر دیتے ہیں۔ بعدازاں عدالت نے اپنے حکم نامے میں لکھوایا کہ عدالتی نوٹس پر سیکرٹری پٹرولیم پیش ہوئے اور جامع جواب پیش کیا، ہم نے سیکرٹری اور ایگزیکٹو ڈائریکٹر اوگرا کو تفصیل سے سنا۔ اوگرا کے وکیل سلیمان اکرم راجہ بھی پیش ہوئے اور استدعا کی کہ کچھ وقت دیا جائے تاکہ اوگرا جامع جواب داخل کرا سکے، دوران سماعت یہ بات سامنے آئی کہ وزیراعظم کی منظوری سے کچھ لائسنسوں کے اجرا کے لئے پابندی میں نرمی کی گئی۔ عدالت نے ہدایت کی کہ اوگرا اور وزارت پٹرولیم ان اٹھارٹیز کی نشاندہی کریں جن کے کہنے پر لائسنس جاری کئے گئے، جن کو لائسنس دئیے گئے ان کی درخواستوں اور 2008ءکے بعد وزیراعظم کی جانب سے بھیجی جانے والی 13-01-2008، 22-9-2011، 13-03-2013 کی سمریوں کی نقول عدالت میں پیش کی جائیں۔ اس دوران تین افراد بھی عدالت میں پیش ہوئے اور کہا کہ تمام شرائط پوری کرنے کے باوجود اوگرا ان کو لائسنس جاری نہیں کر رہا اور دفاتر کے چکر لگا لگا کر وہ تھک چکے ہیں۔ عدالت نے ان سے کہا کہ وہ اس سلسلے میں درخواستیں دے دیں وزارت اور اوگرا سے جواب طلب کیا جائے گا۔ سماعت 12 اپریل تک ملتوی کر دی گئی۔
گیلانی / پرویز اشرف / میگا پراجیکٹس