پاکستان کی نظریاتی سرحدیں ایک اٹل حقیقت ہیں
نظریہ پاکستان کو ان دنوں ہر ایرے غیرے نے تختہ مشق بنا رکھا ہے۔ اسکی ایک بدترین مثال ملاحظہ فرمائیں۔ ایک معاصر اخبار کے ادارتی صفحہ پر شائع ہونے والے کالم میں لکھا گیا ہے کہ ”اپنی ذاتی زندگی و سوچ میں ایک سیکولر ملک کے بانی کی جگہ پر اپک تصوراتی ملک کا یوٹو پیائی بانی، ایک یوٹو پیائی یا تصوراتی نظریہ اور پھر اس نظرئیے کی نظریاتی سرحدیں بھی گھڑ لی گئیں۔“ نظریہ پاکستان کو یوٹو پیائی یا تصوراتی کہنے والے اور پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کو بھی خیالی اور تصوراتی قرار دینے والے دراصل اس حقیقت کو تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں کہ پاکستان اسلامی آئیڈیالوجی کی بنیاد پر معرض وجود میں آیا تھا۔ جو لوگ اپنی نام نہاد جمہوریت پسندی، روشن خیالی، وسیع المشربی اور سیکولر سوچ کا ڈھنڈورا پیٹتے رہتے ہیں وہ یہ ثابت کرنے کی کوشش میں بھی مصروف رہتے ہیں کہ پاکستان کے اجتماعی نظام کو قرآن و سنت کے سانچے میں ڈھالنا قائداعظم کی تعلیمات سے انحراف کے مترادف ہے۔ گویا قائداعظم کی فکر یہ تھی کہ دین کا ریاست کے امور سے کوئی تعلق نہیں ہونا چاہئے۔ اگر ایک شخص کے دل و دماغ مسلمان ہوں اور اسکے اعمال بھی اسلامی تعلیمات کے تابع ہوں تو یہ کیسے ممکن ہے کہ اسکی اجتماعی زندگی اسلام کے مطابق نہ ہو۔ پاکستان مسلمانوں کیلئے انفرادی طور پر کلمہ پڑھنے کی آزادی کیلئے حاصل نہیں کیا گیا تھا‘ قیام پاکستان کا مقصد یہ تھا کہ پاکستان بطور ریاست بھی کلمہ طیبہ کے تقاضے پورے کریگی اور اسکا اجتماعی ڈھانچہ یعنی سیاسی، معاشرتی اور معاشی زندگی بھی اسلام کے مطابق ہو گی۔ علامہ اقبال جب یہ فرماتے ہیں کہ ”اگر ہم چاہتے ہیں کہ اسلام ایک تمدنی قوت کے طور پر زندہ ر ہے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ ایک مخصوص علاقے میں اپنی مرکزیت قائم کرے“ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ علامہ اقبال برصغیر میں اسلامی تمدن کی حفاظت کیلئے مسلمانوں کی ایک آزاد مملکت کا قیام ناگزیر سمجھتے تھے۔ اسی طرح علامہ اقبال نے یہ بھی فرمایا کہ ”اگر اسلامی قانون کو معقول طریق پر سمجھا اور نافذ کیا جائے تو ہر شخص کو کم از کم معمولی معاش کی طرف سے اطمینان ہو سکتا ہے۔ ایک آزاد اسلامی ریاست کی عدم موجودگی میں شریعت اسلامیہ کا نفاذ اس ملک میں محال ہے“ علامہ اقبال کے اس فرمان سے دو حقائق سامنے آتے ہیں کہ علامہ اقبال نے جس آزاد مسلم ریاست کا تصور پیش کیا تھا وہاں وہ اسلامی اصولوں پر مبنی معاشی نظام قائم کرنے کے متمنی تھے اور ایک آزاد اسلامی ریاست کے بغیر وہ اسلامی شریعت کے نفاذ کو ممکن خیال نہیں کرتے تھے۔ علامہ اقبال کا یہ بھی فرمان ہے کہ ”ہر مشکل وقت میں اسلام ہی نے مسلمانوں کی زندگی کو قائم رکھا، مسلمانوں نے اسلام کی حفاظت نہیں کی۔“ علامہ اقبال کے ان فرمودات کا اگر غیر جانبداری سے جائزہ لیا جائے تو قیام پاکستان کا پورا پس منظر ہم آسانی سے سمجھ سکتے ہیں۔ علامہ اقبال نے برصغیر میں ایک آزاد اسلامی ریاست کا مطالبہ اسلئے نہیں کیا تھا کہ قیام پاکستان کے بعد اسلام کا ریاست سے کوئی تعلق نہیں ہو گا۔ بلکہ علامہ اقبال نے مسلمانوں کیلئے ایک الگ اور خودمختار مملکت کا مطالبہ ہی اس لئے کیا تھا کہ مسلمان اپنی اجتماعی زندگی اسلامی قوانین کے مطابق بسر کر سکیں۔ پاکستان مسلمانوں کی معاشی اور معاشرتی فلاح و بہبود یا سماجی انصاف اور معاشی مساوات کا ضامن اسی صورت میں ثابت ہو سکتا ہے جب ہم صحیح معنوں میں یہاں ایک اسلامی معاشرہ تشکیل دینگے۔ یہ اسلامی معاشرہ اگر قرآن و سنت کی صحیح روح کے مطابق تشکیل پا جائے تو یہ یقیناً غیر مسلم اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کی بھی ضمانت فراہم کریگا۔ ایک مثالی اسلامی معاشرے میں غیر مسلم اقلیتوں کے حقوق کی پامالی کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ قصہ مختصر علامہ اقبال کے تصور پاکستان کی بنیاد اسلام اور صرف اسلام ہے۔ اسلام نے ہمیں پاکستان دیا ہے اس لئے پاکستان کی اگر جغرافیائی سرحدیں ایک حقیقت ہیں تو پاکستان کی نظریاتی سرحدیں اس سے بھی بڑی حقیقت ہیں۔ پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کو تصوراتی اور خیالی قرار دینے والے خود احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔ جس طرح علامہ اقبال کے پاکستان کی نظریاتی سرحدوں سے انکار نہیں کیا جا سکتا اسی طرح قائداعظم کا تصور پاکستان بھی قومی اور سیاسی اعتبار سے علامہ اقبال کے نظریات سے مکمل طور پر ہم آہنگ ہے۔ قائداعظم نے فرمایا تھا کہ ”ایک اسلامی حکومت کے تصور کا یہ امتیاز پیش نظر رہنا چاہئے کہ اس میں اطاعت اور وفا کیشی کا مرجع (لوٹنے کی جگہ) خدا کی ذات ہے جس کی تعمیل کا عملی ذریعہ قرآن مجید کے احکام اور اصول ہیں۔ اسلام میں اصلاً نہ کسی بادشاہ کی اطاعت ہے نہ پارلیمنٹ کی، نہ کسی شخص اور ادارے کی۔ قرآن حکیم کے احکام ہی سیاست و معاشرت میں ہماری آزادی کی حدود متعین کرتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں اسلامی حکومت قرآن کے اصول و احکام کی حکومت ہے“ قائداعظم نے یہ بھی فرمایا کہ ”اسلام ہر مسلمان کیلئے ایک ضابطہ ہے جو اس کی حیات، رسوم و رواج بلکہ مسلمانوں کی سیاست اور اقتصادیات وغیرہ پر بھی محیط ہے“
قائداعظم کے درج بالا خیالات پر کیا سیکولرازم کی کوئی ہلکی سی بھی پرچھائیں موجود ہے؟ قائداعظم جس اسلامی حکومت کی بات کرتے ہیں اور قرآن کے اصول و تعلیمات کی حکمرانی کا جو حوالہ دیتے ہیں اور وہ اسلام کو ایک ضابطہ حیات کے طور پر مسلمانوں کی سیاست اور اقتصادیات پر محیط قرار دیتے ہیں تو کیا قائداعظم کی یہ تعلیمات کسی تصوراتی یا خیالی ریاست کیلئے تھیں یا پاکستان کیلئے یقیناً قائداعظم نے ایک اسلامی حکومت کے جس تصور اور نظرئیے کو بیان کیا تھا وہ پاکستان ہی کیلئے تھا۔ قائداعظم نے کہا تھا کہ ”مسلمانوں کی قومیت کی بنیاد کلمہ طیبہ ہے اور جب ہندوستان کا پہلا فرد مسلمان ہوا تھا تو وہ پہلی قوم کا فرد نہیں رہا تھا۔ وہ ایک الگ قوم کا فرد بن گیا تھا۔“ جس ملک کی بنیاد ہی مسلم قومیت ہو اور مسلم قومیت کی اساس صرف کلمہ طیبہ ہے تو کلمہ طیبہ کی بنیاد پر قائم ہونے والے ملک کی نظریاتی سرحدیں کیسے تصوراتی اور خیالی ہو سکتی ہیں۔ علامہ اقبال نے اگر فرمایا تھا کہ....
گر تو می خواہی مسلمان زیستن
نیست ممکن جز بہ قرآن زیستن
تو قائداعظم نے علامہ اقبال کے اس شعر کو اپنے الفاظ میں کچھ اس طرح بیان کیا تھا کہ ”وہ کون سا رشتہ ہے جس میں منسلک ہونے سے تمام مسلمان جسد واحد کی طرح ہیں۔ وہ کون سی چٹان ہے جس پر انکی ملت کی عمارت استوار ہے۔ وہ کون سا لنگر ہے جس سے امت کی کشتی محفوظ کر دی گئی ہے۔ وہ رشتہ، وہ چٹان اور وہ لنگر خدا کی کتاب قرآن مجید ہے۔“ جس قرآن مجید نے ہمیں ایک ملت اور ایک قوم بنایا۔ وہ قرآن مجید ایک اجتماعی نظام کا آئینہ دار ہے۔ ہمارے رسول کریم نے قرآن مجید کے اصول و احکام کو دنیا کی پہلی اسلامی ریاست میں عملی صورت میں بھی کامیابی کے ساتھ پیش کرکے دنیا بھر کو دکھا دیا۔ اب اسلامی حکومت کا معیار قرآن اور سنت رسول ہیں۔ اب اگر قرآن و سنت کے عملی نفاذ کی بات کی جائے تو اسے ایک تصوراتی ریاست کا تصوراتی نظریہ قرار دینا کتنی شرمناک بات ہے۔ اسی طرح پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کو تصوراتی اور خیالی قرار دینا بھی حد درجہ افسوسناک اور اقبال و قائد کے تصور پاکستان کے حوالے سے کنفیوژن پھیلانے کی کوشش ہے۔ پاکستان کی بنیاد انتہائی مضبوط اور غیر متزلزل ہے اور وہ اسلام ہے۔ پاکستان کی اس بنیاد کی نفی کرنے کی ہر کوشش پہلے بھی ناکام ہوئی ہے اور اب بھی ناکام ہو گی۔پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کے منکر پاکستان کی جغرافیائی سرحدوں کے بھی وفادار نہیں ہیں۔ پاکستان کی اسلامی شناخت کے دشمنوں کو پاکستان کا دوست کیسے تسلیم کیا جا سکتا ہے؟