نگران حکومت اور جمہوریت کی تلاش
جمہوریت تو یار لوگوں کے مطابق 5 سال بعد منزل پر پہنچ ہی گئی ہے مگر عوام سے جمہوریت کے ثمرات ابھی ہزاروں میل دور ہیں۔ جمہوری5 سالوں میں جو کچھ ہوا وہ سب پر عیاں ہے بہرحال اب نگرانوں کی حکومت ہے۔ قرآن کی رو سے اقتدار کو آزمائش سے تعبیر کیا گیا ہے۔ حدیث شریف میں ہے کہ قیامت کے روز حکمرانوں سے ان کی رعیت (رعایا) کے بارے میں سوال ہو گا مگر ہمارے ہاں اقتدار کو آسائش اور ”عیاشی“ کے لئے حاصل کیا جاتا ہے۔
کتنی ستم ظریفی ہے کہ پورے ملک میں اب الیکشن کمشن نے تو لوگوں کو مسلمان بنانا شروع کر دیا ہے۔ ریٹرننگ آفیسر کلمے سنتے ہیں۔ مطالعہ پاکستان کے سوالات پوچھتے ہیں ۔ختم نبوت کے بارے عقیدہ بھی پوچھ لیتے ہیں۔ بیویاں کتنی ہیں بچے کتنے ہیں وغیرہ وغیرہ ۔ویسے اگر یہی سوالات الیکشن کمشن، نگران حکمرانوں سے بھی کرتا تو شاید کئی اس امتحان میں فیل ہو جاتے۔ نجم سیٹھی کے بارے میں لوگوں میں ابہام پایا جاتا ہے کہ موصوف سیکولر اور لبرل ہیں۔ اسلام کے حق میں کم ہی بولتے ہیں قائداعظمؒ کے خلاف اکثر بولتے ہیں ویسے سیٹھی صاحب عہدہ سنبھالنے کے فوراً بعد داتا صاحب حاضری دینے گئے تھے ایسے ہی جب مشرف کے بارے میں اس قسم کی باتیں منظر عام پر آئیں تھیں تو موصوف عمرہ کرنے تشریف لے گئے تھے اور واپس آ کر احرام کی حالت میں PTV پر کافی عرصہ تک ان کو دکھایا جاتا رہا تھا۔ ”اقتدار“ کےلئے بھی کیسے کیسے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ جہاں تک سیاسی پارٹیوں کا تعلق ہے انہیں ان باتوں سے کوئی سروکار نہیں کہ کوئی نظریاتی ہے ، قائداعظم کا مخالف ہے یا پاکستان کا، سیکولر ہے یا اسلامی؟ انہیں تو ”اقتدار“ کی ہوس ہے۔ الیکشن کمشن والے اگر انڈیا سے یا امریکہ سے بھی نگران لے آتے ان کی بلا سے ویسے ریٹرننگ آفیسروں کو اسلامیات مطالعہ پاکستان کی بجائے ریاضی کے سوالات زیادہ پوچھنے چاہئیں کہ دو جمع دو کتنے ہوتے ہیں قومی خزانے کو لوٹا کیسے جاتا ہے؟ جائیدادیں کیسے بنائی جاتی ہیں؟ جو ان لوگوں نے بعد میں کرنا ہے۔ ہماری نظر میں تو امیدواروں سے کلمے سننا تضحیک کے مترادف ہے۔ ایک مفکر کا قول ہے کہ سارے برے کام نیت اچھی کے ساتھ ہی کئے جاتے ہیں۔ کلمے سنا کر بھی تو ”نیت“ خراب ہو سکتی ہے۔ شادی جو شخص تین کلمے یا قرآنی آیات مولوی صاحب کو سنا کر کرتا ہے بعد میں اسی بیوی کو مارتا ہے یا اس کے حقوق ادا نہیں کرتا تو اس میں کلموں کا تو قصور نہیں ہے۔
نگران حکمرانوں کو اپنی حدود میں رہنا چاہئے ان کا کام صرف اور صرف منصفانہ الیکشن کرانا ہے۔ اب نجم سیٹھی بسنت منانے کی تیاری کر رہے ہیں۔ ہائیکورٹ نے اسے بند کیا تھا۔ سیٹھی صاحب اب شاید یہ سمجھتے ہوں کہ پہلے جو ”چڑیا“ مجھے خبریں لا کر دیتی تھی اب جبکہ ”چڑیا“ خود ہی اقتدار میں ہے اور وہ ”چڑیا“ میرا کیا بگاڑ لے گی۔
ہمیں تو تلاش ہے صرف اس جمہوریت کی جس کی نظر میں امیرو غریب، شاہ و گدا سب برابر ہوں کسی کو فوقیت حاصل نہ ہو۔ جس میں وجہ تخلیق کائنات آپ بھی عام مسلمانوں کے ساتھ خندق کھود رہے تھے ۔جس میں صحابہؓ جب بھوک کی وجہ سے پیٹ پر پتھر با ندھ کر آپ کے پاس آئیں تو آپ انہیں بتائیں کہ یہ دیکھو میں نے بھی دو پتھر باندھ رکھے ہیں۔ ایسی تابناک جمہوریت جس میں خلیفہ وقت عمر فاروق کو جب علم ہو کہ فلاں کے گھر میں آٹا نہیں تو خود آٹا اپنے کندھے پر اٹھا کر دے آئیں۔ جمہوریت تو وہ تھی کہ خلیفہ وقت سے ایک عام آدمی سوال کرتا ہے کہ جناب ایک کرتے کا کپڑا آپ کو ملا تھا پورا سوٹ کیسے بن گیا تو خلیفہ وقت وضاحت کریں کہ میرے بیٹے کو جو ملا تھا اس نے وہ بھی مجھے دے دیا۔ حقیقی جمہوریت تو یہ تھی کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز سرکاری کام کرنے کے لئے سرکار کا دیا استعمال کرتے اور جب ذاتی کام کرتے تو اپنا دیا استعمال ہوتا۔
ہمیں نفرت ہے ایسی جمہوریت سے جس میں غریب اور اس کے بچے بھوک سے مر جائیں اور ان کا حکمران دولت کے انبار رکھتا ہو۔ جس میں تھانے بکتے ہیں۔ صرف ایک ایم این اے یا ایم پی اے پورے تھانے پر قابض ہو غریب کا مقدمہ بھی درج نہ ہو اور وہ انصاف کے حصول کےلئے تھانے کچہریوں کے چکر کاٹ کاٹ کر خود ہی دنیا سے رخصت ہو جائے۔ نفرت ہے ایسی جمہوریت سے جس میں حکمرانوں کی اولادیں بیرون ممالک تعلیم حاصل کریں اور عام شہری کے بچے تعلیم تو درکنار روزی روٹی کےلئے بھی کوڑے کے ڈھیر سے کاغذ چنتے پھریں ایسی نام نہاد جمہوریت جس میں حکومتی رکن پندرہ بیس پولیس ملازمین کی حفاظت میں لمبی چوڑی گاڑیوں میں دندناتے پھریں اور عوام کو سفر کی سہولت بھی میسر نہ ہو۔ حکمران طبقہ محلات میں رہے اور غریب عوام لوڈ شیڈنگ گیس کی بندش سے ہر وقت دوچار ہوں۔ سابقہ 5 سال بھی جمہوری دور ہی تھا۔ ملک کی تباہی جس طریقے سے کی گئی اور ان جمہوریت کے علمبرداروں نے جس بے رحمی سے ملک کا ستیاناس کیا اس کا ذکر کرنا ہی محال ہے۔ اب پھر جمہوریت کی تلاش میں الیکشن کمشن اور نگران حکومت شب و روز سرگرداں ہے۔ اگر آپ کو بھی کہیں حقیقی جمہوریت مل جائے تو ہمیں بھی ضروری اطلاع کیجئے۔ لوگ تو عہدوں کےلئے ضمیر کیا سب کچھ داﺅ پر لگا دیتے ہیں مگر جن میں غیرت ایمانی و خودداری ہو وہ اپنے اصولوں پر کبھی بھی سمجھوتہ نہیں کرتے۔ میدان صحافت کے ”اقبال“‘ اور ”قائد“ اس کی زندہ و تابندہ مثال ہیں۔