ایازا میرکانظریہ پاکستان
مسلم لیگ ن کے امیدوار ایاز امیر جو این اے 60سے حصہ لے رہے ہےں ان کے کاغذات نامزدگی مسترد کردیے گئے ہیں۔ نظریہ پاکستان کے متعلق مضمون پر ایاز امیر کے کاغذات نامزدگی مسترد ہوئے ہےں۔ خود اےاز امےر کا کہنا ہے کہ اردشےرکاﺅس جی پر کالم کا غلط مطلب اخذ کرتے ہوئے ان کے کاغذات کو مسترد کر دےا گےاہے۔
اردشےرکاﺅس جی اپنے وقت کے بڑے دبنگ اور جوشےلے قسم کے کالم نگار تھے۔ ہم بھی ان کے کالم بڑے شوق سے پڑھا کرتے تھے۔ کےونکہ ان کا تعلق پارسی قبیلے سے تھا۔ اس مےں کوئی شک نہےں کہ پارسی لوگوں کی معاملہ فہمی اور ذہانت مسلم ہوتی ہے۔ اصل بات ےہ ہے کہ ہمارے مذہب اسلام نے ہمےں اےک آئےڈےل کمےونٹی بنانے کا درس دےا ہے جس کی عملی تصوےر پارسےوں مےں نظرآتی ہے۔ پچھلے دنوں ہمےں معلوم ہوا کہ ڈاکٹر جاوےداقبال کی تحقےق کے مطابق نماز اور روزے کا لفظ بھی ہم نے پارسےوں سے لےا ہے۔ بعض صحافی حضرات کاکہنا ہے کہ کاﺅس جی تو اےک بزنس مےن تھے کالم نگاری تو وہ اےک مشغلے کے طور پر کےا کرتے تھے۔
بہرحال اےازامےر ہمےں زےادہ عزےز ہےں اس لےے نہےں کہ وہ اےک پڑھے لکھے کالم نگار ہےں۔ کےونکہ ہمارے کالم نگاروں کی فوج مےں پڑھے لکھے تو بہت سارے مل جائےں گے ۔لےکن دےکھنے مےں آےا ہے کہ پڑھائی لکھائی آپکے وےژن پر اثرانداز نہےں ہوتی۔ ہوسکتا ہے کہ وےژن کی افزائش کیلئے تربےت کی ضرورت پڑتی ہو۔ ہمارے خےال مےں اےازامےر بڑے وےژن والے بندے ہےں۔ صحافت اور پارلےمنٹ دونوں جگہوں پر اےسا بندہ خال خال ہی ملتا ہے۔ اےسے مےں کوئی بھی عام شہری جس کا نام بابرسلےم بھی ہو سکتا ہے اور وہ اپنی ذہنی معےار کے مطابق اےازامےر پر اعتراضات لگاسکتا ہے کہ انھوں نے اپنے مختلف کالموں مےں شراب پےنے کی آزادی ، نظرےہ پاکستان اور اسلامی اقدار کے منافی تحرےرےں لکھی ہےں جو آرٹےکل 62اور 63 کے تحت امےدوار کونااہل کرنے کے لےے کافی ہےں۔ ہمےں اےسی صورتِ حال اس لےے بھی درپےش آتی رہتی ہے کہ ہمارے ہاں اعتراز لگانے والے کی قابلےت کو جانچنے کا کوئی معےار پےشِ نظر رکھا ہی نہےں جاتا۔
اےازامےر نے اردشےرکاﺅس جی پر انگلش مےں اےک کالم لکھا تھا ، اس کالم کے اردو ترجمے سے غلط مطلب اخذ کےا گےا ہے۔ ےہ پہلے کاغذات ہےں جو کالم لکھنے پر مسترد ہوئے ہےں۔ اےازصاحب کا مذکورہ کالم اےک کثےرالاشاعت اخبار مےں شائع ہوا تھا اگر اس مےں کوئی اےسی قابل اعتراز بات ہوتی تو بہت پہلے اس پر واوےلاکےا جاچکا ہوتا۔ دوسرے اس کالم مےں بہت ساری اےسی باتےں تھےں جو رےٹرننگ آفےسر کی سمجھ سے بالاتر تھےں۔ جب انھوں نے رےٹرننگ آفےسر کو انگرےزی اخبار مےں شائع شدہ اپنا کالم پڑھ کر سناےا تو انھےں سمجھ نہےں آئی۔ اس کے باوجود جج صاحب نے ان پر فتویٰ جاری کردےا۔اب تک کی ہماری معلومات کے مطابق تو صرف مولوی حضرات ہی فتوعےٰ جاری کرنے مےں اپنا ثانی نہےں رکھتے تھے۔ لےکن اب اس مےں رےٹرننگ آفےسر بھی شامل ہوگئے ہےں۔ دراصل ہم لوگ اجتماعی طور پر فتویٰ کے انداز سے اس قدر متاثر ہےں کہ ہمارے بڑے اپنے سے چھوٹوں کو نصیحت بھی فتویٰ کے طورپر ہی کرتے نظرآتے ہےں۔ پہلے زمانوں کے جمہوری الےکشن مےں تمام سٹ اپ اپنی مرضی کا اور منظورِ نظر ہوا کرتا تھا لےکن پہلی بار الےکشن کمےشن کو بااختےار کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور اسے سپرےم کورٹ کی مکمل حماےت بھی حاصل ہے۔ اےسے مےں بے چارے رےٹرننگ آفےسر کا قصورصرف اتنارہ جاتا ہے کہ اسے زندگی مےں پہلی بار اتنے اختےارات کا منہ دےکھنے کا شرف حاصل ہواہے۔ےہ بالکل اےسا ہی ہے جےسے کسی شرےف آدمی کو جو زندگی بھر کسی عورت سے نہ ملا ہو، تو جب اس کی شادی کر دی جائے تو اس کے لےے ےہ تعےن کرنا مشکل ہو جائے گا کہ اسے اپنی عورت کے پاس دن مےں کتنی بار جانا چاہےے۔ بالکل اسی طرح رےٹرننگ آفےسروں کو بھی اختےارات پہلی بار نصےب ہوئے ہےں اب انھےں سمجھ نہےں آرہی کہ وہ انھےں استعمال کےسے کرےں۔ہم اےاز امےرصاحب سے اےک درخواست اور کرتے چلےں کہ کسی بھی رےٹرننگ آفےسر مےں اتنی قابلےت ہوہی نہےں سکتی کہ وہ آپکے کالم کے معےار کو جانچنے اور پرکھنے کی صلاحےت بھی رکھتا ہو۔ اےاز صاحب جےسا کہ آپ جانتے ہےں کہ ہمارے وطنِ عزےز کی پارلےمنٹ جعلی ڈگری کے حامل لوگوں سے بھری پڑی ہے۔ اےسے لوگوں کو چےک آﺅٹ کرتے ہوئے اچانک اگر کوئی پڑھا لکھا شخص رےٹرننگ آفےسر کے سامنے آجائے تو اسے غلطی کرنے کی رعائےت ہونی چاہےے۔ اےازامےر صاحب سے ہم مکمل اتفاق کرتے ہےں کہ اگر 77 ءمےں مارشل لا نہ لگتا تو کراچی دوبئی بن چکا ہوتا اور انتہاپسندی اور تنگ نظری کی قوتوں کو سراُٹھانے کا موقع نہ ملتا۔اس کے علاوہ اےاز صاحب کا ےہ فرمانا بھی بالکل درست ہے کہ پاکستان مےں مروج اسلام برِ صغےرکا اسلام ہے۔ اسے انتہاپسندانہ نظرےات سے کوئی سروکارنہےں ہے۔ ہمارا اسلام وہ ہے جسے حضرت علی ہجوےریؒ، حضرت معےن الدےن چشتیؒ اورحضرت نظام الدےن اولےاؒ کی انسان دوستی اور روحانی اور اخلاقی عظمت نے پھےلاےا۔
اےازبھائی !ہمارا دےن تو بہت سادہ اور عام فہم بات کہتا ہے
”کہہ دےجئے! اگرتم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو مےرا اتباع کرو“گوےا اتباع کو محبت سے مشروط کردےاگےا۔ محبت ہے تو اتباع مفےد ہے۔ محبت نہےں تو اتباع بے فائدہ ہے۔ اگر اللہ کی محبت ہو تو اتباع محمدﷺ کی باری آتی ہے۔ غور کرنے کی بات ہے کہ اگر محبوب مشترک ہو تو عاشقوں کا قافلہ، اجنبےت کی ساری دےوارےں توڑ کر آشنائی اور اخوت کے مضبوط رشتے مےں بندھ جاتا ہے۔ لےکن ےہ کےا ہو رہا ہے۔ آپ کو بھی اللہ سے محبت ہے ، مجھے بھی اللہ سے محبت ہو، ہمارا محبوب تو اےک ہو اور ہم آپس مےں جھگڑ بھی رہے ہوں۔ قتل وغارت بھی کر رہے ہوں۔اس کا اےک ہی مطلب ہے کہ ےہ جھگڑنے والے اور قتل کرنے والے ہم نہےں ہمارے بھےس مےں کوئی اور ہےں۔اسی لےے جب اےاز صاحب ےہ کہتے ہےں کہ انتہاپسند قوتوں نے ہماری جڑوں کو کھوکھلاکر دےا ہے۔ تو ہمےں ان سے اختلاف ہوتا ہے۔ وہ اس لےے کہ ہم سمجھتے ہےں کہ انتہاپسند قوتےں تو صرف آلہ کار ہوتی ہےں ۔ لےکن جب اےازامےر صاحب ےہ فرماتے ہےں کہ سی آئی اے کی پشت پناہی سے وجود مےں آنے والی انتہاپسندی کی قوتےں جن کو ضیاءدور مےں ہمارے معاشرے مےں پنجے پھےلانے کا موقع مل گےا اس کا جنوبی اےشےا کے اسلامی کلچر سے کوئی سروکار نہےں۔ تو گوےا ہمارے اس خےال کی تصدےق اےازامےر صاحب ،خود ہی کر دےتے ہےں ۔ہم سمجھتے ہےں کہ جس طرح پارلےمنٹ کا جعلی ڈگری والوں کے وجود سے پاک ہونا ضروری ہے بالکل اسی طرح ہماری اسمبلےوں مےں اےاز امےر جےسے پڑھے لکھے دانشور اور بڑا وےژن رکھنے والی شخصےت بھی بہت لازمی ہے۔ ان کے دم سے ہی اسمبلی کی عزت مےں اضافہ ہوگا۔ ہمےں اُمےد ہے کہ اےازصاحب اس فےصلے کے خلاف اپےل کرےں گے اور فےصلہ اُن کے حق مےں ہوجائے گا۔