مشرف نے ڈرون حملوں کا پنڈورا باکس کھول دیا
امریکی ٹی وی CNN کو انٹرویو دیتے ہوئے سابق صدر پرویز مشرف نے امریکہ کو ڈرون حملوں کی اجازت دینے کا اعتراف کرتے ہوئے جو انکشافات کئے ہیں وہ عین اس موقع پرجبکہ اگلے ساریخ ساز عام انتخابات کے انعقاد پر ایک ماہ سے بھی کم عرصہ رہ گیا ہے ایک ایسا خطرناک پنڈورا باکس کا ڈھکناکھولنے کے مترادف ہے جو بہت سے پردہ نشینوں کے سروں سے چادر گھسیٹ کر ان کو آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کی زد میں لانے کی ایک آخری کوشش کے مترادف ہے۔
سابق صدر پرویز مشرف پر آئین توڑنے کے علاوہ جس کے بارے میں سپریم کورٹ آف پاکستان پہلے سے ہی اپنے فیصلے سنا چکی ہے وہ نواب اکبر بگٹی قتل اور اسلام آباد میں جامعہ حفصہ لال مسجد میں مارے جانیوالے کئی خواتین بوڑھے بزرگوں اور بچوں کی موت کے ذمہ دار قرار دیئے جاتے ہیں۔ اسکے علاوہ وہ سابق وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے سلسلہ میں بھی عدالتوں کو درکار ہیں۔ چنانچہ ایک طرف وہ ان سنگین مقدمات کی بناءپر عبوری ضمانت پرہیں اور دوسری طرف انہوں نے اپنی جلاوطنی ختم کر کے پاکستان واپس آ کر بحیثیت صدر آل پاکستان مسلم لیگ قومی اسمبلی کے تین حلقوں سے انتخابات کیلئے بھی کاغذات داخل کئے تھے۔ جن میں صرف ایک حلقہ انتخاب چترال سے انکے کاغذات نامزدگی مقامی ریٹرننگ آفیسر نے منظور کئے ہیں جس کے خلاف کئی اپیلیں 16 اپریل کو سماعت کیلئے منظور ہوچکی ہیں۔ جبکہ باقی دو حلقے یعنی کراچی اور اسلام آباد سے ان کے کاغذات مسترد ہو چکے ہیں اور انہیں 16 اپریل کو ان کے خلاف اپیلوں کی سماعت کے موقع پر عدالت نے ذاتی طور پر حاضر ہونے کا حکم صادر فرمایا ہے۔ قانونی حلقے خدشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ ان کیخلاف اپیلیں منظور ہونے اور عبوری ضمانت میں مزید وسعت نہ ملنے پر انکے سنگین مقدمات میں عدالتوں کو درکار ہونے کے باعث انکے گرفتار ہونے کے امکانات کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ اس پس منظر میں سابق صدر کا یہ سوچنا کہ اگر سزاوار ٹھہرانا ہی فی الحال مقدر میں لکھا ہے تو ان کو یقین کامل ہے کہ مقدمات کی سماعت کے دوران چک شہزاد اسلام آباد میں واقع ان کی رہائش گاہ کو ”سب جیل“ قرار دے دیا جائیگا جس دورانیہ میں وہ اپنی سیاسی زندگی کی ایک نئی تاریخ رقم کرینگے کہ پاک فوج کے ایک سربراہ نے وہ سابق سربراہ ہی کیوں نہ ہو جیل جانے کا سیاسی تمغہ بھی حاصل کر لیا ہے جو جیل سے باہر آنے کے بعد انکے کام آ سکتا ہے۔ لیکن اکیلا جیل میں جانے کی بجائے وہ اپنے بہت سے مخالفین کو بھی عوام کی نگاہوں میں ننگا کرنے کا بھی لطف اٹھانا چاہتے ہیں۔ جس کیلئے سابق صدر نے ڈرون حملوں کے محرکات کا پنڈورا باکس کھولنے کیلئے موجودہ وقت کا انتخاب کیا ہے ورنہ ڈرون حملوں کے بارے میں جس حقیقت حال کو وہ آج بیان کر رہے ہیں اس کا انکشاف انہوں نے اپنے دورے حکومت یا پاکستان واپس لوٹنے سے قبل اپنی جلاوطنی کے دوران جگہ جگہ اپنے لیکچر اور دیگر تقریبات میں خطابات کے دوران انہوں نے کیوں نہیں کیا۔
آج جبکہ وہ اوپر بیان کردہ سنگین مقدمات کی گرفت میں ہیں انتخابات میں ان کے کاغذات نامزدگی نہ منظور ہونے کی زد میں ہیں اور اگر ان کو کسی حلقہ سے انتخابات میں حصہ لینے کی قانون و آئینی اجازت مل بھی گئی تو انکی کامیابی مخدوش نظر آتی ہے۔ وہ اپنے مخالف سیاستدانوں کو عوام کی نظروں میںگرانے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کرنا چاہتے۔ انہوں نے امریکہ کو ڈرون حملوں کی اجازت دینے کا اعتراف تو کر لیا ہے لیکن اپنے جرم کی نوعیت اور سنگینی کو DILUTE کرتے ہوئے اپنی دی گئی خفیہ اجازت کو کئی دیگر پابندیوں سے مشروط کر دیا ہے۔ مثلاً انکے مطابق امریکہ کو DRONE STRIKE کی اجازت صرف اسی صورت میں دی گئی تھی جبکہ ٹارگٹ بالکل تنہا ہو اور اسکی ہلاکت سے اردگرد کسی کی جان یا پراپرٹی کی تباہی کا امکان نہ ہو۔
سابق صدر کے CNN کو دیئے گئے انٹرویو میں کہا گیا ہے کہ ان کا ڈرون حملوں کی اجازت کا فیصلہ کرنے میں حکومت کے اہم ترین ارکان بشمول وزیراعظم‘ کابینہ کے اہم اراکین افواج پاکستان اور مختلف انٹیلی جنس ایجنسیوں کے سربراہان سبھی شامل تھے۔ پرویز مشرف نے اعتراف کیا ہے کہ 2004ءمیں طالبان لیڈر نیک محمد کو DRONE STRIKE کے ذریعے ہی مارا گیا تھا۔ اس موقع پر یہ بات توجہ طلب ہے کہ موجودہ تازہ ترین انکشاف سے قبل جنرل مشرف اوردیگر پاکستانی رہنما امریکہ کے ساتھ ڈرون حملوں کے کسی معاہدے سے ہمیشہ انکار کرتے رہے ہیں ان حملوں کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق پاکستانی سرزمین پر اب تک 351 ڈرون حملوں میں 3308 افراد مارے جاچکے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے حالیہ 5 سالہ دورہ حکومت میں 3 ہزار سے زائد افراد لقمہ اجل بنے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر یہ حملے حکومت پاکستان کی اجازت سے ہوئے ہیں تو امریکہ کے علاوہ حکومت پاکستان کی طرف سے کیا ہر وہ شخص جس نے ان حملوں کی اجازت دی تھی قانون کی نظر میں ان اموات کا کہاں تک ذمہ دار ہے۔ مزید یہ کہ وہ عہدیدار جو ڈرون حملوں کی خفیہ اجازت دینے میں شریک تھا اور بظاہر غلط بیانی کرتے ہوئے ان حملوں سے نہ صرف اپنی لاعلمی کا اظہار کرتا رہا بلکہ جھوٹ بول کر امریکہ سے احتجاج کرتے ہوئے اپنی عوام سے دھوکہ دہی کا مرتکب نہیں ہوا؟
کیا ایسے لوگ آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کی زد میں نہیں آتے اس کا فیصلہ چیف الیکشن کمشنر اور چیف جسٹس آف پاکستان کو فوری از خود نوٹس لیتے ہوئے انصاف کے تقاضے پورے کرنے چاہئے۔