جب سیاست بنی تجارت
وطن عزیز میں ان دنوں‘ انتخابات کی آمد آمد ہے تو ملک بھر میں ایک عجب سی کھلبلی مچی ہوئی ہے۔ کچھ ایسے مناظر بھی دیکھنے کو مل رہے ہیں کہ جیسے کہیں خیرات میں نیاز بانٹی جا رہی ہو‘ میرا حصہ‘ میری ماں کا حصہ‘ میرے باپ کا حصہ‘ بھائی کا حصہ‘ بہن کا حصہ وغیرہ وغیرہ۔
اور یہ مناظر ملک میں موجود مختلف سیاسی پارٹیوں کی طرف سے اسمبلیوں کیلئے ٹکٹ بانٹنے میں نظر آرہے ہیں کہ ہر طالع آزما سیاست دان کسی نہ کسی صورت اسمبلی میں پہنچ کر اس بہتی گنگا سے فیض یاب ہونے کیلئے بے قرار ہے اور جب معاملہ ہو۔ ایک انار‘ صد بیمار‘ کا تو بے شمار یہ بیمار سیاست‘ ”انار“ کے حصول کیلئے کیا کیا جتن کرتے نظر نہیں آرہے۔ ایک پارٹی سے فیض یاب نہ ہو سکے‘ تو دوسری کا رخ کر لیا‘ وہاں سے بھی مراد بر نہ آئی‘ تو تیسری کی طرف لڑھک گئے‘ علیٰ ہذا لقیاس یہی کوشش رہی کہ کسی نہ کسی طور اسمبلی میں پہنچ جائیں‘ تو پشتیں سنور جائیں اس دھینگا مشتی میں کچھ تو ایسے پرامیدوار بھی واقع ہوئے جو کہ انہی کی خواہش کے اظہار کیلئے بجلی کے کھمبوں پر چڑھ دوڑے۔
کیا سوچا کبھی آپ نے ایسا کیوں ہو رہا ہے۔ کیا اسمبلیوں میں جاکر وہ ملک و قوم کی خدمت کرنے کیلئے اس قدر مرے جا رہے ہیں‘ کیا وہ کسی قومی نظریے کی آبیاری کیلئے‘ پارٹیوں پہ پارٹیاں بدلتے نظر آتے ہیں؟۔ یا ملک میں آئین کی رکھوالی اور جمہوریت کی پاسداری کا کوئی غم انہیں کھائے چلا جا رہا ہے؟۔ ہرگز ایسا نہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ہمارے ہاں ان سیاست دانوں نے سیاست کو تجارت بنا لیا۔ جو اب سراسر ایک منافع بخش کاروبار بن چکا ہے۔ بالکل اس طرح‘ جیسے ایک سو لگا¶ ہزار کما¶ اور یہاں تو معاملہ‘ سینکڑوں ہزاروں کا نہیں‘ کروڑوں اربوں کا ہے‘ آپ ہی خدا لگتی کہیے کہ وہ کون احمق ہو گا جو کروڑوں روپیہ خرچ کرکے اسمبلی میں آئے گا اور خالی ہاتھ واپس لوٹ جائے گا۔ ملک میں فوجی آمروں کی حکومتوں کے آنے سے پہلے ایسا کبھی ہوتا رہا ہے کہ ملک سے بے لوث محبت کرنے والے کچھ لوگ ملک و قوم کی خدمت کرنے کے جذبے سے سرشار‘ پہلے سے خرچ کرکے‘ اسمبلیوں میں آتے جاتے رہے اور یہ خرچ بھی اس وقت قابل برداشت حد تک ہوا کرتا تھا۔
اسمبلیوں کو مال بنانے کا ذریعہ‘ پے در پے آنے والی انہی فوجی حکومتوں نے ہی بنایا کہ انہیں اپنی بنائی ہوئی ان اسمبلیوں میں ایسے مہرے درکار تھے‘ جو انکی حکومتوں کو قائم رکھنے کیلئے مددگار ثابت ہو سکیں اور انہوں نے ان نام نہاد اسمبلیوں کو پرکشش بنانے کیلئے اپنی طرف سے ممبران کو طرح طرح کی جائز ناجائز مراعات دے کر‘ سیاست میں بدعنوانیوں کو رواج دیا اور پھر غلط بخشیوں کے اس کھیل میں جنرل ضیاءالحق نے تو اپنے دور حکومت میں حد ہی کردی کہ انہوں نے ملک بھر میں ہونے والے ترقیاتی کاموں کیلئے مخصوص اربوں‘ روپوں کے فنڈز‘ انہی ممبران کے حوالے کر دئیے اور یوں ان اسمبلیوں کو انکے لئے سونے کی کانیں بنا دیا۔ ان ممبروں نے ان تمام چھوٹے بڑے ترقیاتی کاموں کیلئے انکے عطا کردہ فنڈز میں اپنے حصے کی کمشن لینا اپنا حق بنا لیا بلکہ یہاں تک کہ بڑے بڑے ٹھیکوں میں بالواسطہ یا بلاواسطہ اپنے آپ کو حصہ دار بنا لیا اور اس طرح سیاست کے اس کاروبار میں چند سالوں میں کروڑوں کا مال بنانے میں کامیاب ہوئے۔ جنرل پرویز مشرف نے اپنے دور حکومت میں اس کرپشن کو اور جلا دی کہ انہوں نے اسمبلیوں میں ایک معقول تعداد میں مخصوص سیٹوں پر خواتین کا نامزدگیوں کے ذریعے اضافہ کر دیا۔ ان کا یہ اقدام بظاہر خوش کن نظر آیا کہ انہوں نے اسمبلیوں میں خواتین کی تعداد بڑھا دی۔ لیکن یہاں خرابی یہ ہوئی کہ یہ خواتین جوکہ براہ راست کسی بھی حلقے سے منتخب ہو کر نہیں آئیں وہ ان ترقیاتی فنڈز کو استعمال کرنے میں کسی حلقے کی پابندی نہ تھیں نہ کسی حلقہ کے ووٹروں کے آگے جوابدہ‘ لہٰذا انہوں نے اسے شیر مادر سمجھ کر خوب اڑایا۔ مزید یہ کہ ترقیاتی فنڈز کو ووٹروں کو خریدنے کیلئے کھلے عام بھی استعمال کیا گیا۔
دنیا بھر میں جہاں کہیں بھی پارلیمانی طرز حکومت رائج ہے وہاں کہیں بھی ایسا نہیں ہوتا کہ پارلیمنٹ کے ممبروں سے ترقیاتی کام کروائے جائیں یا ترقیاتی فنڈز انکے حوالے کر دئیے جائیں۔ یہ بدعت صرف ہمارے ہاں ہی رائج ہو چکی ہے۔ جو اب ایک بیماری بن چکی ہے۔ پارلیمانی حکومتوں میں پارلیمنٹ کا کام ملک میں قانون سازی اور آئین کی رکھوالی ہی ہوتا ہے۔ اور آئین کے مطابق انتخابات کے ذریعے حکومتیں بنانا اور قائم رکھنا ہوتا ہے۔ وہاں ترقیاتی کام‘ بلدیاتی یا سرکاری ادارے انجام دیتے ہیں۔ یہ الٹی گنگا صرف ہمارے ہاں ہی بہتی نظر آتی ہے ۔کہنے کو تو ہمارے ہاں بھی یہ جمہوریت ہے اور یہاں پارلیمانی نظام حکومت رائج ہے لیکن ہمارے ہاں اسمبلیوں میں ممبران کی توجہ قانون سازی سے زیادہ ترقیاتی کاموں اور انکے فنڈز پر ہی رہتی ہے اور اب ان کی آنکھیں اس کرپشن سے اس قدر چندھیا گئی ہیں کہ اس کے آگے انہیں کچھ نظر ہی نہیں آتا۔ قانون سازی جیسے بورنگ بکھیڑوں میں پڑنا‘ اکثر ممبروں کی ترجیح یا بساط میں نہیں ہوتا ۔وہ اسمبلیوں میں صرف اقتدار میں اپنا حصہ وصول کرنے جاتے ہیں اور اس کاروبار میں اپنی سرمایہ کاری کو بمع ایک بڑا منافع واپس لانے کی تگ و دو میں لگے رہتے ہیں۔ یہ بیماری اب ہماری اسمبلیوں میں اس قدر سرائت کر چکی ہے کہ اس کا علاج‘ شاید ہی کوئی آنے والی حکومت کر سکے کہ جن کے منہ کو یہ خون لگ چکا ہے وہ کیونکر اس سے چھٹکارا حاصل کر سکتے ہیں۔ کہنے کو تو اب بہت سی پارٹیاں‘ اقتدار میں آکر‘ ایسی تمام کرپشنز کا صفایا کرنے کا دعویٰ کر رہی ہیں۔ جن میں عمران خان کی پارٹی تحریک انصاف پیش پیش ہے۔ لیکن دیکھنا یہ ہے کہ ایسا‘ کیسے اور کیونکر ہو پائے گا۔ یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ ایک شاعر نے تو اس معاملہ میں کچھ ایسے ہی کہہ رکھا ہے کہ ....ع
چھٹتی نہیں یہ کافر منہ سے لگی ہوئی