پاکستان کیوں کیسے اور کس لئے؟ .... (۳)
ان تمام غداران ابن غدارانِ پاکستان کی خدمت میں عرض ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اس ملک کے قیام کیلئے جس اسلامی مہینہ کا انتخاب فرمایا وہ رمضان المبارک کا مقدس مہینہ تھا اور جس رات کا انتخاب فرمایا وہ سب سے مقدس رات لیلة القدر کی رات تھی یہ سب اتفاقات نہیں مشیت ایزدی کے اس پاک سرزمین پر رحمتوں اور برکتوں کے نزول کے سدا بہار اشارے ہیں اس لئے پاکستان کے وجود کو تاریخی غلطی، قائداعظم اور مسلمانوں کو غلط قرار دینے والے”انجمن عاشقان امریکہ“‘ اور ”انجمن محبان انڈیا“ کے وفادار کارکنوں سے گزارش ہے کہ پاکستان کی غلطی کا داغ اپنے سینے پر سجا کر پوری زندگی منافقوں کی طرح یہاں گزارنے کے بجائے اپنی مزعومہ جنت امریکہ اور ہندوستان ہجرت فرما لیں تاکہ ان دانشوروں کو انکے دماغی کوڑے دان اور نظریاتی دال چاول کا بھاﺅ معلوم ہو جائے۔ اس ملک کی تمام مراعات سے حدر درجہ اولیٰ مستفید ہونے والے اور اپنے زعم VVIP بن کر گھومنے والوں کو جس وقت امریکہ کے ہوائی اڈوں پر استقبال ان کے کپڑے اتار کر اور ہندوستان میں انکے کپڑے پھاڑ کر ہوا تویہاں دانش کے نام پر شیخیاں بگھارنے والوں کو اپنی ہضم نہ ہونیوالی عزت کی قدر اور وقعت کا اندازہ چند لمحوں میں ہو جائیگا۔ رہی بات کہ پاکستان میں کون سا نظام ہونا چاہئے تو جس طرح آج اگر امریکہ، برطانیہ میں مسلمان اسلامی حکومت قائم کرنے کا اعلان کر کے امریکہ کو ”اسلامی جمہوریہ امریکہ“ اور برطانیہ کو” مسلم ری پبلک آف برطانیہ“ بنانے کا اعلان کر دیں تو مغرب کے جملہ فیض یافتہ گان ان مسلمانوں کو سمجھانے اور بجھانے کےلئے ”حکمت و دانش“ کا سیلاب اور طوفان برپا کر کے رکھ دینگے۔ ہماری بھی ان داناﺅں کی خدمت میں عرض ہے کہ یہ ”اسلامی جمہوریہ پاکستان“ ہے۔ جس طرح امریکہ و برطانیہ میں اسلام کا نفاذ اور مسلم حکومت کا نعرہ آپ کو غیر متعلق و غیر معقول لگے گا اس سے بھی زیادہ غیر معقول بلکہ نامعقول بات یہ ہے کہ پاکستان میں آپ اسلام کے علاوہ کسی درآمدی ”ازم“ کے نفاذ کےلئے اپنے احمقانہ اخلاص سے ابنائے وطن اہل اسلام کا رخ بیت اللہ اور مدینہ المنورہ سے واشنگٹن اور ....ماسکو کی طرف پھیرنے کی سعی غیر مشکور فرماتے رہیں۔
پاکستان کا نام پاکستان کی 98 فیصد مسلم اکثریت پر مشتمل آبادی، پاکستان کا اسلامی دستور، پاکستان کی مسلح افواج کا ماٹو، ”ایمان، تقویٰ، جہاد فی سبیل اللہ“ یہ سب کچھ اس حقیقت کی غماض ہے کہ پاکستان اسلام ہی کا فیض ہے۔ پاکستان کا ہلالی پرچم، اسلامی ماہ و سال اور ہجری کلینڈر کا استعارہ ہے جبکہ پرچم میں سبز رنگ کی نسبت گنبد خضریٰ اور حضور ختمی المرتبت کے ساتھ مضبوط تعلق کی واضح علامت ہے۔ یہ علیحدہ بحث و حقیقت ہے کہ پاکستان کو لوٹنے اور اس ملک کی فکری، اخلاقی، آئینی، قانونی اور مالی بحران اور تباہی کے دہانے تک پہنچانے والی نام نہاد اشرافیہ نے چور مچائے شور کے مصداق روز اول سے شریعت اور اسلام کے نام کو خوفناک انداز میں پیش کرنے کا قابل مذمت کارنامہ انجام دیا ہے تاکہ لوگ نفاذ اسلام، نفاذ شریعت ، نظام مصطفی کا نام سنتے ہی کپکپانا شروع کر دیں۔ جس کا لازمی نتیجہ اسلام سے دوری اور کفر سے قربت کی صورت میں نکلتا ہے یعنی لوگ پاکستان کی بنیاد لا الہ الا اللہ کے بجائے اسکی بنیاد سیکولرازم اور جمہوریت میں تلاش کرنا شروع کر دیں۔
قائداعظم، محمد رسول اللہ کا پاکستان
لادینیت عین اسلام کی ضد ہے۔ لادینیت اور ایمان کسی بندہ مومن کے دل میں جمع نہیں ہو سکتے۔ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جو زندگی کے ہر شعبہ میں ہدایت فراہم کرتا ہے۔ یہ محض چند مذہبی رسومات و عبادات کا مجموعہ نہیں بلکہ اللہ کا دین ہے جو حالت جنین سے لیکر لحد تک اللہ اور اسکے رسولﷺ کی تعلیمات کیمطابق ہر انفرادی و اجتماعی امر میں ہدایت فراہم کرتا ہے۔ وہ معاشرہ جو ایسے افراد سے مل کر بنا ہو جو توحید و رسالت، وحی الہی یعنی قرآن مجید اور عقیدہ آخرت پر ایمان رکھتے ہوں وہ اس معاشرے سے یکسر مختلف ہوگا جہاں ان ارکان ایمان کی جگہ آزادی (Freedom)، مساوات (Equality)، عقل پرستی (Rationalism) اور انسان پرستی (Humanism) پر ایمان لایا جاتا ہو۔
عقیدہ توحید و رسالت و آخرت، وحی پر ایمان وہ بنیادی عقائد ہیں جو کسی معاشرے کے ہر نظام زندگی پر مکمل طور پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ وہ ریاست جہاں اللہ پر ایمان نہ ہو، رسول کی کوئی جگہ نہ ہو، وحی کے بجائے عقل کی بنیاد پر اچھائی اور برائی کا فیصلہ کیا جاتا ہو اور زندگی کا نصب العین محض زیادہ سے زیادہ نفسانی خواہشات کی تکمیل ہو اس معاشرے میں پروان چڑھنے والا نظام معیشت، نظام عدل، نظام تعلیم و تربیت، نظام سیاست اور طرز معاشرت اس ریاست سے یکسر مختلف ہوگا جہاں دنیا کی امتحان گاہ، غیر مستقل و فانی اور آخرت کی کھیتی ہونے پر ایمان لایا جاتا ہو۔ جہاں آزادی کا مطلب انسان کو انسان اور نفس کی غلامی سے آزاد کرکے اللہ کی عبدیت میں لانا ہو۔ جہاں تمام انسان برابر ہوں مگر حق و باطل، اسلام و کفر، اندھے اور بینا، ظلمت ونور کو مساوی قرار نہ دیا جاتا ہو۔ جہاں عقل وحی کے تابع ہو اور زندگی کے ہر شعبہ میں ہدایات فراہم کی جاتی ہوں۔ اقبال نے کیا خوب فرمایا تھا ....
اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی
یورپ میں ریاست سے مذہب کی علیحدگی کے ساتھ جب مذہب کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینکنے کا عمل شروع ہوا (جس کے نتیجے میں تاحال کروڑوں انسان مارے جا چکے ہیں) تو اپنے زوال کے دور سے گزرنے والے اسلامی ممالک بھی اس ”روشن خیالی“ اور ”جدت پسندی“ کی تحریک سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ (جاری)