دہشت گردی‘ اقربا پروری‘ کرپشن کا سامنا ہے‘ کوئی قانون سے بالاتر نہیں : چیف جسٹس
کراچی (نوائے وقت نیوز + اے پی اے + ثناءنیوز) چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے کہا ہے کہ ملکی تاریخ فوجی بغاوتوں کے باعث داغدار ہے۔ جمہوریت ابھی عدم استحکام کا شکار ہے۔ بدقسمتی سے ہماری تاریخ آئین شکنی کے واقعات سے بھری پڑی ہے۔ حکومتوں کی برطرفی کے باعث غیر ریاستی عناصر فعال ہوئے۔ ملک میں امن اور ہم آہنگی کیلئے اداروں کومل کر کام کرنا ہو گا۔ ملک کو دہشت گردی، اقربا پروری اور کرپشن کا سامنا ہے۔ آئین کا تحفظ سپریم کورٹ کی آئینی ذمہ داری ہے۔ سرکاری حکام کی طرف سے اختیارات سے تجاوز کو روکنا عدلیہ کا فرض ہے۔ پاک فضائیہ وار کالج کے وفد سے خطاب کرتے چیف جسٹس نے کہا کہ آئین کا تحفظ سپریم کورٹ کا تحفظ کیا۔ قانون کا اطلاق سب پر یکساں ہو گا کوئی بھی ادارہ قانون سے بالاتر نہیں۔ سپریم کورٹ قانون کی بالادستی کیلئے کام جاری رکھے گا۔ چیک اینڈ بیلنس نظام کو یقینی بنانے سے جمہوریت مضبوط ہو گی۔ آئین نے ریاست کے ہر ادارے کے کردار اور طاقت کا تعین کر دیا ہے۔ قانون سب کے لئے برابر ہے کوئی بھی اس سے بالاتر نہیں کوئی بھی شخص کسی بھی وقت عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا سکتا ہے سب تسلیم کرتے ہیں کہ پاکستان ایئرفورس دنیا کی بہترین فورسز میں سے ایک ہے۔ قائداعظمؒ کے الفاظ ہیں ”مضبوط ایئرفورس کے بغیر ملک جارح کے رحم و کرم پر ہوتا ہے“۔ جوڈیشل پالیسی کامیاب رہی جوڈیشل پالیسی میں بہتری کیلئے فیڈ بیک لے رہے ہیں۔ جوڈیشل پالیسی تمام سٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے مرتب کی گئی۔ عدالتی نظرثانی کا مقصد حکومتی عہدیداروں کو غلط کام سے روکنا ہے۔ عدالتیں دستور سے متصادم قوانین کالعدم قرار دے سکتی ہیں۔ سپریم کورٹ یہ حق حاصل ہے کہ وہ بغیر کسی درخواست کے عوامی مفاد میں ازخود کارروائی کر سکتی ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان کی تاریخ میں کئی بار آئین سے تجاوز کیا گیا اور جمہوریت کو عدم استحکام کا شکار کیا گیا۔ چار بار فوجی بغاوتیں ہوئیں اور جمہوری طور پر منتخب حکومتوں کو برطرف کیا گیا جس سے جمہوری نظام کو نقصان پہنچا۔ آئین نے ہر ادارے کا کردار متعین کر دیا ہے۔ آئین کا تحفظ سپریم کورٹ کی ذمہ داری ہے، سپریم کورٹ سب کی حدود کا احترام کرتی ہے، ملک میں ہم آہنگی کیلئے تمام اداروں کو مل کر کام کرنا ہو گا۔ تمام ادارے اختلافات بھلا کر اور متحد ہو کر ان چیلنجز کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ آئین کے آرٹیکل 245 کے تحت فوج سول معاملات میں مداخلت کر سکتی ہے۔ جوڈیشل پالیسی کامیاب رہی ہے۔ عدالتی نظرثانی کا مقصد حکومتی عہدیداروں کوغلط کام سے روکنا ہے، سپریم کورٹ بغیر کسی درخواست کے عوامی مفاد میں اپنا یہ اختیار استعمال کر سکتی ہے۔ عدالت عالیہ جوڈیشل ریویو کا اختیار تب استعمال کرتی ہے جب حکومتی اداروں میں آئین و قانون کی خلاف ورزی یا نا انصافی ہو رہی ہو۔ چیف جسٹس نے پاک فضائیہ کے شہیدوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان ایئرفورس دنیا کی بہترین ایئرفورس ہے، کوئی قوم اپنے قومی ہیرو کو نہیں بھلا سکتی۔ ہمیں راشد منہاس اور ایم ایم عالم جیسے بہادر ہیروو¿ں پر فخر ہے جنہوں نے ملک و قوم کے لئے جان کا نذرانہ پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ چیک اینڈ بیلنس کے کردار کو یقینی بنانے سے جمہوریت مضبوط ہو گی، آئین کا تحفظ سپریم کورٹ کی ذمہ داری ہے۔ قانون سب کے لئے برابر ہے، کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں۔ ملک میں ہم آہنگی کیلئے تمام اداروں کو مل کر کام کرنا ہو گا۔ آئین میں تمام اداروں کے کام اور اختیارات بتا دئیے گئے ہیں سپریم کورٹ سب کی حدود کا احترام کرتی ہے۔ چیف جسٹس نے اس موقع پر کہا کہ عدالتوں پر مقدمات کا جو بوجھ ہے اس کو کم کرنے کےلئے ہم نے جوڈیشل پالیسی بنائی جو اپنے مقاصد کے حصول میں کامیاب رہی ہے۔ مقدمات کے فیصلے جلد کئے جا رہے ہیں، جوڈیشل پالیسی تمام سٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے بنائی گئی تھی۔ ملکی استحکام کے لئے تمام اداروں کو مل کر کام کرنا ہو گا۔ عدلیہ نے تمام مقدمات کے فیصلے قانون کے مطابق کئے اندرون اور بیرون ملک سفارش پر تعینایتوں کا جائزہ لیں گے۔ سب تسلیم کرتے ہیں کہ پاکستانی ایئرفورس دنیا کی بہترین فورسز میں سے ایک ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمارے پائلٹس کی شاندار مہارت نے دشمن کو پاکستان سے ہمیشہ دور رکھا۔ چیف جسٹس نے ایئروار کالج کے وفد سے کہا کہ ان کے سپریم کورٹ کے دورہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہیں علم کی طلب ہے، وہ عدلیہ کا احترام کرتے اور آئین کی سربلندی پر تعین رکھتے ہیں۔ میں شرکا کو آئین اہم نکات کے بارے میں بتانا چاہتا ہوں آئین ملک کا سپریم قانون ہے، آئین کے تمام ادارے، ایگزیکٹو، مقننہ اور عدلیہ آئین کی تخلیق ہیں تمام اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ آئین کا تحفظ یقینی بنائیں آئین نے ریاست کے تمام اداروں کے کردار اور طاقت کا تعین کر دیا ہے اختیارات کی اس تقسیم کا مقصد ملک میں چیک اینڈ بیلنس کا نظام قائم کر کے جمہوریت کو مضبوط بنانا ہے۔ سپریم کورٹ کا قیام 1956ءکے آئین کے تحت عمل میں آیا۔ 1962ءکے آئین میں بھی سپریم کورٹ کے نام اور اختیارات کو برقرار رکھا گیا۔ 1972ءکے عبوری آئین میں اس وقت کے موجود عدالتی نظام کو برقرار رکھا گیا اور کسی قسم کی مداخلت نہیں کی گئی۔ موجودہ سپریم کورٹ 1973ءکے آئین کے مطابق کام کر رہی ہے۔ سپریم کورٹ ایک ایلیٹ کورٹ ہے۔ یہ تنازعات کے فیصلوں کا حتمی ادارہ ہے۔ سپریم کورٹ آئین کی محافظ ہے سپریم کورٹ ایلیٹ اور ایڈوائزی اختیارات کا استعمال کرتی ہے یہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے تنازعات کو حل کرنے کا بھی کام کرتی ہے۔ سپریم کورٹ بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ کرتے ہوئے کسی بھی قانون کو کالعدم قرار دے سکتی ہے سپریم کورٹ ایلیٹ کورٹ ہونے کی حیثیت سے ہائی کورٹ اور دیگر ایڈمنسٹریٹو ٹربیونلز کے فیصلوں کے خلاف اپیلوں کی سماعت کرتی ہے۔ عدالت ایڈوائزی اختیارات کا بھی استعمال کرتی ہے۔ جب صدر عوامی نوعیت کا کوئی معاملہ سپریم کورٹ بھیجے ہیں تو عدالت اس پر رائے دیتی ہے۔ سپریم کورٹ اپنے سابقہ فیصلوں پر نظرثانی کا اختیار بھی رکھتی ہے۔ عدالتی نظرثانی کا مقصد حکومتی عہدیداروں کو غلط کام سے روکنا ہے۔ آئین نے ریاست کے ہر ادارے کے کردار اور طاقت کا تعین کر دیا ہے، ان کے کام اور اختیارت بتا دئیے ہیں۔ آئین سپریم کورٹ کو آرٹیکل 184(3) اور ہائیکورٹس کو آرٹیکل 199 کے تحت عدالتی نظرثانی کا اختیار کیا ہے۔ آرٹیکل 37(d) کے تحت عوام کو بیرونی جارحیت کیخلاف ماضی میں دفاعی قوتوں کے کردار کو مدنظر رکھتے ہوئے مجھے یقین ہے کہ جب بھی انہیں ملکی دفاع کیلئے پکارا گیا وہ قوم کی توقعات پوری کرینگی آپ کو قومی تحفظ اور سلامتی کیلئے خلوص اور لگن سے کام کرنا ہے، مسلح افواج کے افسر ہونے کی حیثیت سے آپ کے کندھوں پر بھاری ذمہ داری ڈالی گئی ہے اور آپ نے حب الوطنی اور اعلیٰ اخلاقی و پیشہ ورانہ معیار کو برقرار رکھنا ہے اسی طرح ہی آپ اندرونی اور بیرونی خطرات سے اپنے ملک کا دفاع کر سکیں گے۔ قانون کی حکمرانی جو کسی بھی جمہوری ادارے کا بنیادی عنصر ہے تمام قومی اداروں کے مشترکہ عزم اور تعاون سے ہی ممکن ہو سکتی ہے قائداعظم محمد علی جناحؒ نے 11 اگست 1947ءکو آئین ساز اسمبلی سے اپنے صدارتی خطبے میں کہا تھا کہ اب اگر ہم پاکستان کو ایک خوشحال عظیم ریاست بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں چاہئے عوام کی فلاح و بہبود پر توجہ دیں اور خاص طور پر نادار اور غریب طبقوں پر توجہ دینا ہو گی اگر آپ تعاون کے ساتھ ماضی کو فراموس اور غلطیوں کو نظرانداز کرتے ہوئے کام کرینگے تو یقیناً کامیاب بھی ہونگے۔ قائدؒ کے تصور کو آگے بڑھانے کیلئے ہمیں قانون کی حکمرانی اور بنیادی حقوق کا احترام یقینی بنانا ہو گا جو کسی بھی جمہوری حکومت کے بنیادی عناصر ہیں جمہوری نظم ونسق کے دوران اقتصادی ترقی امن و سلامتی کو فروغ ملتا ہے۔ تمام اداروں کو پاکستان کو ایک حقیقی جمہوری ریاست بنانے کیلئے اپنے اختلافات کو بھلانا اور مل کر کام کرنا ہوگا۔ مسلح افواج کے افسروں کا پاکستان میں جمہوری حکمرانی اور ہم آہنگی کے فروغ میں اہم کردار ہے آپ سب آئین کے بنیادی خدوخال کا مطالعہ کریں اور اعلیٰ عدالتوں کی طرف سے کی گئی آئینی تشریحات کو پڑھیں تاکہ آپ آئینی تاریخ سے واقف ہوں اور ہر ادارے میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔