تیرے ملنے کا کچھ گماں سا ہے
آجکل سیاسی معاملات کی بجائے کسی اور حوالے سے کالم لکھنا ایسے ہی ہے کہ آدمی یہ کہے کہ الیکشن نہیںہونا چاہئے۔ میں نہیں کہتا مگر یہ کہتا ہوں کہ ابھی الیکشن نہیں ہونگے۔اتنی سیاسی افراتفری نفسانفسی میں بھی ادبی سرگرمیاں ہو رہی ہیں۔ تو یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ لوگ سیاست کے علاوہ بھی کچھ سوچتے ہیں اور چاہتے ہیں۔ ادب و شعر سے وابستہ لوگ بھی کالم لکھتے ہیں۔ کچھ تو کالموں سے کئی کام لیتے ہیں۔ ایک کام یہ بھی ہے کہ وہ مزاح نگار بن گئے ہیں۔ سیاستدانوں کے لئے میں نے کالم لکھنا تھا۔ ایک ٹکٹ میں سوسو مزے۔ اب ایک ٹکٹ میں دو دو مزے والی بات پرانی ہو گئی ہے۔ کچھ لکھنے والے ایک کالم سے سوسو کام لیتے ہیں۔ سفیر بننا تو روٹین کی بات ہو گئی ہے بہت صحافی سفیر بن گئے ہیں۔ کسی ادارے کا چیئرمین بن جانا بھی بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔لمحہ¿ موجود کی بات بڑے محقق اور پروفیسر دوست ڈاکٹر طاہر تونسوی نے آغاز کی تھی ، میں یہ کہہ رہا ہوں کہ لمحہ موجود میں برصغیر کا سب سے بڑا نقاد ڈاکٹر سلیم اختر ہے۔ لمحہ¿ موجود والے بے لوث دوست ڈاکٹر طاہر تونسوی کو اس تقریب میں بلایا ہی نہ گیا تھا۔ ڈاکٹر سلیم اختر ادب کے عظیم استادوں میں سے ہیں۔ بہت نامور افسانہ نگار بھی ہیں۔ ان کو ایک آرٹس کونسل کی طرف سے کمال فن ایوارڈ دیا گیا ہے۔ حیرت ہے کہ ایوارڈ دینے والے ادارے کا چیئرمین اسے اپنا کمال سمجھتا ہے۔ یہ اعزاز تو اس صاحب کمال شخص کا ہے جس نے زندگی میں سو سے زیادہ کتابیں لکھی ہیں اور اس کی کسی کتاب کی تقریب نہیں ہوئی۔ یہ اچھی روایت ہے کہ انہیں ایک لاکھ روپے اور سونے کا تمغہ دیا گیا۔ صوفیہ بیدار نے بہت اعلیٰ نظم پڑھی اور یاسر پیرزادہ نے بہت اچھی گفتگو کی۔ ظفر اقبال سعادت سعید اور محمد سعید شیخ نے تقریر کی۔ ایک ایوارڈ بہت خوبصورت ادیبہ شاعرہ کالم نگار رابعہ رحمان کو اردو عالمی تحریک لندن کی طرف سے شریعت اکیڈیمی نے الحمرا ہال میں دیا۔ نظامت اکیڈمی کے صدر شفیق مراد نے کی اردو عالمی تحریک کے صدر ڈاکٹر عبدالغفار اعظم ہیں۔ ولایت فاروقی بھی سٹیج سنبھالے رہے۔ رابعہ رحمان کو یہ بین الاقوامی ایوارڈ ان کی کتاب ”سجدہ¿ بے نیاز“ پر دیا گیا۔ جس کا نام قرة العین حیدر ایوارڈ ہے۔ یہ ساری تخلیقی ادبی برادری کا اعزاز ہے۔ میں نے اس کے حوالے سے گفتگو کی”سجدہ بے نیاز“ میں راولپنڈی میں دھماکے کے نتیجے میں مسجد کے اندر شہید ہونے والوں کے لواحقین سے بات چیت کو تخلیقی انداز میں قلمبند کیا گیا ہے۔ اس میں خون اور آنسو، رل مل گئے ہیں۔ ان کے امتزاج سے بنی ہوئی روشنائی میں قلم ڈبو کے رابعہ رحمان نے لکھا ہے۔ درد کے دریا میں خون اور آنسو ایک ہی شے ہوتے ہیں۔
نماز عشق ادا ہوتی ہے تلواروں کے سائے میں
پنڈی کینٹ کی اس مسجد میں نماز پڑھنے والے زیادہ تر فوجی جوان اور افسران ان کے بچے تھے۔ اس کتاب کا نام”سجدہ¿ بے نیاز“ کتنا با معنی ہے۔ سجدہ ہوتا ہی بے نیاز ہے
وہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے۔۔۔ ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات
اس تقریب میں خواتین شاعروں کی بڑی تعداد موجود تھی۔ تسنیم کوثر اور ڈاکٹر صغرا صدف کے علاوہ بھی شاعرات تھیں۔ یہاں معروف شاعرہ ایم زیڈ کنول کو شریعت اکیڈیمی کی طرف سے شفیق مراد نے گوہر انمول ایوارڈ دیا۔ایم زیڈ کنول کے تازہ شعری مجموعہ ”کائنات مٹھی میں“ کی تقریب پذیرائی الحمرا ادبی بیٹھک میں ہوئی۔ صدارت کی ذمہ داری مجھے دی گئی ۔کنول کی بہن ڈاکٹر ثروت زہرا سیتل ....اور عشرت جبیں ارادت نے شاندار گھریلو اسلوب میں مضمون پڑھے۔ اس کے بھانجے شاہروز اور حبیب نے بھی معصومانہ انداز میں بات کی۔ عباس مرزا اور اقبال راہی نے نظمیں پڑھیں میں نے کہا کہ آجکل شعر و ادب اور کالم نگاری کو مٹھی گرم کرنے کےلئے زیادہ تر استعمال کیا جا رہا ہے۔ ایم ایڈ کنول پوری کائنات کو اپنی مٹھی میں لے کر آ گئی ہے۔ یہ ایک صوفی کی واردات ہے۔ تخلیقی معرکہ آرائی تصوف کے ذوق کے بغیر نہیں ہو سکتی۔ معروف شاعر اسلم سعیدی اور جینوئن سیاح اور ادیب مقصود چغتائی نے کمپیئرنگ کی۔ سیاح اور مسافر میں فرق ہوتا ہے۔ ایک بھرپور بارونق تقریب لندن سے آئے ہوئے شاعر ڈاکٹر نذیر کے منفرد شعری مجموعے ”تیرے ملنے کا کچھ گماں سا ہے“ کی تقریب بھی میری صدارت میں ہوئی۔ پنجابی انسٹی ٹیوٹ کی اس تقریب کےلئے معروف شاعرہ کالم نگار اور کمپیئر انسٹی ٹیوٹ کی ڈائریکٹر ڈاکٹر صغریٰ صدف نے تقریر کی۔ جاوید اقبال کارٹونسٹ رخسانہ نور ڈاکٹر اختر شمار حسین مجروح ڈاکٹر جواز جعفری شفیق مراد نے گفتگو کی۔ میں نے کہا کہ گمان کچھ اور شے ہے گمان سا کچھ اور کیفیت سے ۔ کچھ کہنے اور کچھ نہ کہنے کے درمیان ڈاکٹر نذیر نے شاعری کرنے کی کوشش کی ہے۔ وہ اعلیٰ درجے کے ڈاکٹر بھی ہیں۔ عمر بھر لندن میں رہے ہیں مگر پینڈو کے پینڈو ہیں۔ پینڈو تو میں بھی ہوں اور اس پر فخر کرتا ہوں مگر پینڈو لگتا نہیں ہوں۔ نذیر صاحب نہ تو ڈاکٹر لگتے ہیں نہ شاعر لگتے ہیں۔ سنا ہے وہ آرتھوپیڈک ڈاکٹر ہیں اور ہڈیوں کا علاج کرتے ہیں۔ ہم نے ان کی شاعری پڑھ کر شاعر ان کو مان لیا ہے۔ اب انہیں ڈاکٹر ماننے کےلئے اپنی ہڈیاں تڑوانی پڑیں گی۔ گھڑ سواری ان کا مشغلہ ہے۔ تخیل کے گھوڑے کو قابو کرنا زیادہ مشکل ہے۔ دونوں مشکل کام ڈاکٹر صاحب نے آسان کئے ہیں۔ شاعری بھی شہسواری ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ وہ پولو کھیلتے ہیں۔ گھوڑوں پر بیٹھ کر ہاکی کھیلنا بہت سنسنی خیز کھیل ہے مگر شاعری انہوں نے بہت دھیمے انداز میں میٹھے سروں میں کی ہے۔ آئندہ اور زیادہ اچھے کام کرنے کےلئے ان کو اونٹ پر بیٹھ کر ہاکی کھیلنے کی کوشش کرنا چاہئے ان کی ایک اور بات جو مجھے اچھی لگی کہ ان کے پاس اللہ کا دیا ہوا سب کچھ ہے۔ دولت ہے اب دل کی دولت بھی مل گئی ہے۔ سب کچھ ٹھیک ہونے کے باوجود ایک تڑپ نظر نہ آنے والی بے قراری سی ان کے اندر تھی جو شاعری کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے۔ بے قراری اصل متاع ہے۔ مینوں لگ گئی بے اختیاری اس کے بعد اختیار کی کوئی اہمیت نہیں رہتی ڈاکٹر نذیر کی صاحبزادی نازیہ بی بی نے سب خواتین و حضرات کا خاص طور پر ڈاکٹر صغریٰ صدف کا شکریا ادا کیا کہ انہوں نے اپنے ادارے کو زندہ کر دیا ہے۔ تقریبات میں لوگ اپنے ذوق و شوق کی تکمیل کرتے ہیں سب دوستوں کا شکریہ ادا کیا۔