• news

قبائلی علاقوں میں جے یو آئی (ف) کی بالادستی ختم، دیگر جماعتیں سر اٹھا رہی ہیں: بی بی سی

لندن (این این آئی) جمعیت علمائے اسلام (ف) کی قبائلی علاقوں میں بالادستی کم ہو گئی ہے، قوت تقسیم ہوتی جا رہی ہے، لوگ مختلف سیاسی پارٹیوں کا ساتھ دے رہے ہیں۔ بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق قبائلی علاقوں میں پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں پولیٹیکل پارٹیز ایکٹ 2011ء لاگو کیا گیا تاہم اس کے باوجود بھی سیکولر پارٹیوں کی قیادت کھلے عام سیاسی سرگرمیوں میں حصہ نہیں لے سکتی تھی۔ یہ پہلی دفعہ ہے کہ قبائلی علاقوں میں امیدوار سیاسی بنیاد پر الیکشن لڑ رہے ہیں۔ جنوبی وزیرستان کا حلقہ این اے 41 جمعیت علمائے اسلام (ف) کا مضبوط گڑھ سمجھا جاتا تھا تاہم اب وہاں سابق ایم این اے اور جمعیت کے امیدوار مولانا عبدالمالک اتنے مضبوط امیدوار نہیں جتنے پہلے دور میں دکھائی دیتے تھے۔ رپورٹ کے مطابق 2002ءکے الیکشن میں مولانا عبدالمالک ایک آزاد امیدوار کی حیثیت سے کامیاب ہوئے تھے، ان کی سیاسی وابستگی جمعیت علمائے اسلام (ف) سے تھی اس لیے وہ جیتنے کے بعد جمعیت علمائے اسلام (ف) میں شامل ہو گئے اسی طرح 2008ءکے انتخابات بھی مولانا عبدالمالک ہی دوبارہ کامیاب ہو گئے۔ الیکشن 2013ءکے لئے جمعیت علمائے اسلام (ف) نے ایک دفعہ پھر مولانا عبدالمالک کو ٹکٹ دیا۔ مقامی لوگوں نے بتایا کہ پچھلے دو انتخابات میں مولانا عبدالمالک کو جتوانے میں طالبان کے مولانا نذیر گروپ کا کافی عمل دخل تھا تاہم اس دفعہ ان کو ملا نذیر گروپ کے طالبان کی حمایت حاصل نہیں اور عوام کی اکثریت بھی ان کے خلاف ہے۔ ملا نذیر گروپ کے سربراہ صلاح الدین ایوبی نے چند دن پہلے تمام امیدواروں کو بتایا تھا کہ وہ الیکشن مہم کے دوران غیر جانبدار رہیں گے۔ مولانا عبدالمالک کے علاوہ جمعیت علمائے اسلام (ف)کے دیگر ناراض ارکان میں سے تین آزاد حیثیت سے انتخابات لڑ رہے ہیں، جس کی وجہ سے جمعیت علمائے اسلام (ف) کی ووٹ بنک تقسیم ہونے کا خدشہ ہے۔ وانا سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق گذشتہ چند ہفتوں میں مولانا عبدالمالک کے خلاف دو بار احتجاجی مظاہرے ہوئے۔ 

ای پیپر-دی نیشن