چیئرمین پی سی بی بناتے وقت کوالیفکیشن نہیں صدر سے دوستی دیکھی جاتی ہے : مواحد حسین سید
لاہور (وقت نیوز) کرکٹ کے تاریخ داں اور تجزیہ کار مواحد حسین سید نے کہا کہ پی سی بی کا چیئرمین بناتے وقت اس کی صدر سے دوستی اور تعلقات کو دیکھا جاتا ہے یہ نہیں دیکھا جاتا کہ اس کی کوالی فیکیشن کیا ہے وقت نیوز کے پروگرام ”گیم بیٹ“ میں سوالوں کے جواب دیتے انہوں نے کہا کہ یہی حال ہاکی کا ہو چکا ہے 1971ءسے لیکر 1994ءتک پاکستان نے ہاکی کے چار ورلڈ کپ جیتے لیکن اب چین، کینیڈا سے ہارے ہیں ہماری فارمنس ختم ہو گئی ہے وہی بابے جو فیل ہو تے ہیں انہیں سلیکٹرز لگا دیا جاتا ہے کھیلوں میں زیادہ پیسہ آنے کی وجہ سے کرپشن ہو رہی ہے۔ پاکستانی ٹیم ایک سو سکور بھی نہ کر سکی لیکن کوئی ری ایکشن نہیں ہوا اس دوران سپلٹ فکمنگ اور مس ہینڈلنگ بھی ہوئی ان معاملات پر توجہ دینی چاہئے۔ سلیکٹرز نہیں بلکہ دیکھیں کہ ڈائریکٹرز کون ہیں انہوں نے کہا کہ فضل محمود 1961ءمیں انڈیا ٹیم لیکر گیا لیکن ان کے خلاف ایک منفی رپورٹ گئی جہانگیر خان ٹیم منیجر تھے انہوں نے فضل محمود سے کپتانی واپس لے لی۔ پاکستان کو بیٹنگ پر توجہ دینے کی ضرورت ہے لیکن یہ تب تک ممکن نہیں جب تک پی سی بی کی ترجیحات تبدیل نہیں ہوں گی انہوں نے کہا کہ پاکستان میں وزیر صحت اسے لگا دیا جاتا ہے جس نے کبھی میڈیکل چیک اپ نہیں کیا ہوتا وزیر خزانہ کو فنانس کا پتہ نہیں میڈیا میں اس چیز کو اجاگر کیا جائے کہ ٹیم میرٹ پر سلیکٹ ہو اور سیاست کا عمل دخل نہ ہو ۔سابق چیئرمین پی سی بی خالد محمود نے کہا کہ پاکستان میں اچھے کھلاڑیوں کو مواقع نہیں مل رہے۔ یہ ماننا پڑے گا کہ ہم جاوید میانداد، انضمام الحق اور وسیم اکرم کے بغیر کھیل رہے ہیں۔ جو کھلاڑی اب کھیل رہے ہیں ان پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ گورنمنٹ کالج اور اسلامیہ کالج کا تاریخی معرکہ اعصاب شکن ہوتا تھا۔ سکول، کلب اور فرسٹ کلاس کرکٹ کے بغیر انٹرنیشنل سطح پر کھیلنا مشکل ہے۔ انہوں نے کہا کہ مواحد حسین سید سے اتفاق کرتا ہوں کہ سلیکٹرز کے ساتھ ڈائریکٹرز کو بھی دیکھیں، کوالٹی کرکٹ نہیں ہو رہی۔ انہوں نے کہا کہ کرکٹ کے سابقہ دور کا حالیہ بے حیائی اور بے شرمی کے دور سے کوئی مقابلہ نہیں۔