ہم خیالوں کی سیٹ ایڈجسٹمنٹ کیلئے کوششیں‘ نوازشریف نے انکار کیوں کیا !
فیصل آباد (احمد جمال نظامی سے) مسلم لیگ (ضیاءالحق گروپ) کے سربراہ سابق وفاقی وزیر محمداعجاز الحق نے کہاہے کہ اگر مسلم لیگیوں کااتحاد ہو جاتا تو الیکشن 2013کے انتخابی نتائج الیکشن فروری1997ءجیسے ہوتے۔1997 کے انتخابات ہی وہ انتخابات تھے جب میاں نوازشریف کی قیادت میں مسلم لیگ ن نے پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت حاصل کی تھی۔ مسلم لیگ ن کے علاوہ صرف مسلم لیگ فنکشنل ایک ایسی مسلم لیگ ہے جس کی عوام میں اور وہ بھی زیادہ تر صوبہ سندھ کے عوام میں خاطر خواہ پذیرائی موجود ہے اور وہاں پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کے امیدواروںکے خلاف دس سیاسی جماعتوں کے اتحاد میں مسلم لیگ فنکشنل اور مسلم لیگ ن دونوں شامل ہیں۔ محمد اعجاز الحق کی مسلم لیگ ضیا‘ چوہدری حامد ناصر چٹھہ کی مسلم لیگ جونیجو اور سابق وفاقی وزیر شیخ رشید کی عوامی مسلم لیگ تینوں تانگہ پارٹیاں ہیں جن میں سے صرف عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید کے قومی اسمبلی میں پہنچنے کے امکانات ہیں اور وہ بھی اس لئے کہ پی پی 55راولپنڈی میں مسلم لیگ ن کے امیدوار شکیل اعوان اپنے حلقہ میں کچھ زیادہ فعال امیدوار نہیں رہے اور دوسرے شیخ رشید کو اس حلقہ میںتحریک انصاف کی حمایت حاصل ہے۔شیخ رشید کو ان کے آبائی حلقہ کے علاوہ اگر کسی حلقہ انتخاب میں تھوڑی بہت پذیرائی حاصل ہے تو وہ این اے56 ہے جہاں مسلم لیگ ن کے حنیف عباسی کے مقابلہ میں تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان خود الیکشن لڑ رہے ہیں لہذا عمران خان اور شیخ رشید راولپنڈی میں مشترکہ انتخابی جلسہ منعقد کرکے کسی حد تک انتخابی ماحول کو اپنے حق میں تبدیل کرسکتے ہیں۔ مسلم لیگ ن‘ راولپنڈی اور اسلام آباد کے انتخابی حلقوںمیںبھی یقینا ایک فعال سیاسی جماعت ہے۔ محمد اعجاز الحق اور مسلم لیگ ق کا ہم خیال گروپ مسلم لیگ ن کی عوامی مقبولیت سے فائدہ اٹھا کر میاں نوازشریف سے قومی اسمبلی اورپنجاب اسمبلی کے کم ازکم 20اور 40امیدواروں کی ہم خیال گروپ کے امیدواروں کے طورپر نامزدگی کرانا چاہتا تھا اور اسی قسم کے عزائم محمداعجاز الحق کے تھے۔ میاں نواز شریف نے نہ تو ہم خیالوں سے کوئی باقاعدہ معاہدہ کیا اور نہ ہی مسلم لیگ ضیاءکو اپنے ساتھ اتحاد میں شامل کیا لیکن فیصلہ کن مرحلے پر یہ دونوں مسلم لیگی تانگہ پارٹیاں‘ مسلم لیگ ن کے سربراہ کے نزدیک انتخابی اتحاد کے قابل نہیں رہیں کہ سیاسی جماعتوںکو ”سیٹ ایڈجسٹمنٹ“ میں دی جانے والی نشستیں الیکشن سے پہلے مخالف سیاسی قوتوں کی جھولی میں ڈالنے کے مترادف تھا۔ میاںنوازشریف ‘اعجاز الحق اور ہمایوں اختر دونوں کے لئے نرم گوشہ رکھتے ہیں حالانکہ ان دونوں نے مشرف کے ٹیک اوور اور میاں نواز شریف کے گرفتار ہوجانے پر ان کاساتھ چھوڑ دیا تھا۔ وہ دونوں پرویز مشرف کے دور اقتدار کاحصہ رہے لیکن اس کے باوجود وہ مسلم لیگ ن میں باقاعدہ مراجعت اختیار کرلیتے تو انہیں پارٹی ٹکٹ مل جاتا۔اعجاز الحق کو ہارون آباد سے تحریک انصاف کے افضل سندھو کے مقابلے میں شیر کے انتخابی نشان پرالیکشن لڑنے کاموقع مل جاتا اور ہمایوں اختر کولاہور سے باہر بھی حلقہءانتخاب سے جیسے انہوں نے این اے79سمندری فیصل آباد سے بھی اپنا نام امیدواروں کی فہرست میں دے رکھا تھا ۔ انہیں مسلم لیگ ن کاٹکٹ مل جاتا لیکن سندھ کے سابق وزیراعلیٰ ڈاکٹر ارباب رحیم جو ہم خیالوں کے چیئرمین تھے۔ انہوں نے جاتی عمرمیں میاںنوازشریف سے ملاقات کرکے مسلم لیگ ن کے ساتھ ”سیٹ ایڈجسٹ منٹ “کی بجائے ہم خیالوںکے مسلم لیگ ن میں ادغام کی بات کی ۔ میاں نوازشریف نے انہیں مشورہ دیا کہ وہ سندھ میں ان کے گروپ کومسلم لیگ ن میں مدغم کرنے کو تیار ہیں۔ ہمایوں اختر خان کو لاہور سے قومی اسمبلی کی کسی نشست سے پارٹی امیدوار کے طورپر سامنے نہیں لاسکتے اور باقی رہے چوہدری حامد ناصر چٹھہ تو مسلم لیگ ن انہیں ان کے آبائی حلقہ انتخاب سے بھی پارٹی ٹکٹ نہیں دے سکتے وہاں ان کے متوقع امیدوارو وہی ہیں جنہوں نے الیکشن 2008میں چوہدری حامد ناصر چٹھہ کو شکست دی تھی۔ دراصل میاں نوازشریف نے ایک مرحلے پر یہ فیصلہ کرلیاتھا کہ وہ اپنے سابق رکن قومی اسمبلی کو سینٹ کاامیدوار بنانے کاوعدہ کرکے حامد ناصر چٹھہ کو ایڈجسٹ منٹ دے دیں گے لیکن ہمایوں اختر ‘ حامد ناصرچٹھہ اور صوبہ خیبر پی کے میںسلیم سیف اللہ‘ مسلم لیگ ن کے ساتھ اتحاد کی زیادہ قیمت وصول کرنا چاہتے تھے وہ اپنے علاوہ کئی دوسرے افراد کوبھی مشترکہ امیدواروں کے طورپر مسلم لیگ ن کے ساتھ ان کی ایڈجسٹمنٹ کرانا چاہتے تھے۔ اس میں ہم خیال گروپ کی یہ چال بھی شامل تھی کہ الیکشن جیتنے کے بعد وہ حکومت سازی کے مرحلہ میں تحریک انصاف یا پیپلزپارٹی کے ساتھ بھی جاسکتے تھے۔ پیپلزپارٹی کے ساتھ چوہدری حامد ناصرچٹھہ کی پرانی یاد تھی۔ بینظیر بھٹو الیکشن 1993ءکے بعد دوسری مرتبہ وزیراعظم بنیں تو حامدناصر چٹھہ نے پنجاب میں اپنی پارٹی کے میاںمنظور احمد وٹو کو کولیشن گورنمنٹ کا وزیراعلیٰ بنوایاتھا حالانکہ میاں منظور احمد وٹو کے ساتھ ایک درجن سے زیادہ رکن پنجاب اسمبلی موجود نہیں تھے۔ وہ جوڑ توڑ کے ماہر تھے۔ آزاد ارکان پنجاب اسمبلی کو اپنے گروپ میںشامل کرکے انہوں نے اپنے گروپ کی تعداد پندرہ بیس تک بڑھا لی تھی۔ خود حامد ناصر چٹھہ نے مرکز میں کوئی وفاقی وزارت قبول نہیں کی تھی لیکن عملی طورپروہ اس زمانے میں ملک کے ڈپٹی پرائم منسٹر تھے بلکہ آصف علی زرداری کے ڈپٹی پرائم منسٹر چوہدری پرویز الٰہی کے مقابلے میں وہ وزیراعظم بینظیر بھٹو کے کئی گنازیادہ طاقت ور حلیف تھے اور ایک مرحلے پر مشرف انہیں مسلم لیگ ق کا سربرا ہ دیکھنا چاہتے تھے اور اس سے بھی اگلہ مرحلہ یہ تھا جب ہم خیالوں نے پرویز مشرف کی سربراہی میں ایک مسلم لیگی دھڑا بنانے کی کوشش کی تھی۔ اس زمانے میں مشرف کے وفاقی وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری اور انکے ایک پیش رو خود میاں نوازشریف کے وزیر خارجہ گوہر ایوب خان بھی ہم خیالوں میں شامل تھے۔ خورشید محمود قصوری نے اس سلسلہ میں لندن میں مشرف کے ساتھ مذاکرات بھی کرلئے تھے۔ بعض حلقوں کاخیال ہے کہ خورشید محمود قصوری‘ پرویز مشرف کے اشارے پر تحریک انصاف میں شامل ہوئے تھے تاکہ وقت آنے پر خورشید قصوری مشرف کو عمران خان کے نزدیک کرسکتے لیکن تحریک انصاف کی اعلیٰ قیادت مسلم لیگ ن کے سابق مرکزی لیڈر مخدوم جاوید ہاشمی کی شمولیت کی وجہ سے مشرف کیلئے عمران خان کی پارٹی میں اپنے لئے نرم گوشہ تلاش کرنا ناممکن ہوگیا۔ کہاجاتاہے کہ ایک سپر طاقت کی طرف سے تحریک انصاف کو آل پاکستان مسلم لیگ کو انتخابی اتحاد میں شامل کرنے پر کہاجارہاہے اوریقین دہانی کرائی جارہی ہے کہ اگر عمران خان وزیر اعظم بن کر مشرف کو ملک کا صدر بنانے پر آمادہ ہوجائےں تو انہیں 11مئی کے انتخابات میں ”غیبی امداد“میسر آسکتی ہے۔ عمران خان مشرف کو ”اون “کرنے کاسیاسی جوا کھیلنے پرآمادہ نہیں ہیں اور یہ سپر طاقت اب ایک دوسرے قابل احترام ملک کے حکمرانوں کے ذریعے مسلم لیگ ن کی اعلیٰ قیادت کو پرویز مشرف کے لئے نرم گوشہ اختیار کرنے کےلئے قائل کررہی ہے مگر مشرف کے حق میں کوئی قائل نہیں ہو رہا۔ تاہم ہم خیالوں میں سے گوہر ایوب خان نے زیادہ دانشمندی کا مظاہر ہ کیاتھا۔ انہوں نے براہ راست مسلم لیگ ن میں شمولیت اختیار کرلی تھی لہذا مسلم لیگ ن نے ان کے بیٹے عمر ایوب خان کو قومی اسمبلی کے لئے پارٹی ٹکٹ دےکر گوہر ایوب خان کو مسلم لیگ ن سے رخصت ہو کر انکے مسلم لیگ ق میں شامل ہونے کو معاف کردیاہے۔ سندھ سے ڈاکٹر ارباب رحیم کو مسلم لیگ ن میں شمولیت کاگرین سگنل مل چکاہے اور اگر ان کی پیپلزمسلم لیگ نے 11مئی کے الیکشن میں اپنا الگ تشخص قائم بھی رکھا تو وہ اس الیکشن کے بعد اپنی پارٹی سمیت مسلم لیگ ن میں شامل ہوجائیں گے۔ باقی رہی مسلم لیگ ق تو وہ عملاًآصف علی زرداری کی پیپلزپارٹی کاحصہ بن چکی ہے اور پیپلزپارٹی کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ میںجیالے چوہدری ظہور الٰہی مرحوم کے وارثوں کو بالکل بھی گھاس نہیں ڈالنا چاہتے۔ خیال ہے کہ 12مئی کو ق لیگ ملک کے سیاسی افق سے مکمل طورپر ختم ہو جائے گی۔