• news

تمام ادارے امیدواروں کی تفصیلات آج ہر صورت پیش کر دیں: ہائیکورٹ کا حکم

لاہور(وقائع نگار خصوصی) لاہور ہائی کورٹ کے فل بنچ نے آرٹیکل62 اور 63 پر عمل درآمد کے لیے دائر درخواستوں پرنیب اور ایف بی آر سمیت دیگر اداروں کو امیدواروں کی تفصیلات پیش کرنے کی قطعی مہلت دیتے ہوئے سماعت آج17اپریل تک ملتوی کر دی۔ مسٹر جسٹس اعجازالاحسن، مسٹر جسٹس سید منصور علی شاہ اور مسٹر جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی پر مشتمل تین رکنی بنچ نے گزشتہ روز کیس کی سماعت کی۔ گزشتہ روز بھی عدالتی حکم کے باوجود الیکشن ٹریبونلز میں اپیلیں دائر کرنے والے امیدواروں کا ریکارڈ پیش نہ کیا گیا جس پر فاضل عدالت نے اظہار برہمی کرتے ہوئے ہدایت کی کہ آج 17اپریل تک ریکارڈ ہر صورت پیش کیا جائے۔گزشتہ روز درخواست گذار کے وکیل محمد اظہر صدیق ایڈووکیٹ نے عدالت میں آئین کے آرٹیکل 62(1)(d)، 62(1)(e)، 62(1)(f)، 62(1)(g) پر اپنی بحث کا آغاز کرتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ اِس آئینی درخواست کے دو مقاصد ہیں ایک تو سیاست عبادت ہے یعنی ممبران پارلیمنٹ عوامی نمائندگان ہیں اور عوامی نمائندگان نے خدمت کے جذبے سے آگے آنا ہے اگر جھوٹا، فریبی، جعلی ڈگری، دوہری شہریت والا پارلیمنٹ میں آئے گا تو وہ اِس عہدے کا ناجائز استعمال کرےگا۔ اِسی طرح اگر ایک ممبر کروڑوں روپے خرچ کرکے ممبر پارلیمنٹ بنے گا تو اُس کا مقصد صرف ذات کو مدِ نظر رکھنا ہے نہ کہ عوامی مفاد کو۔ اِس آئینی درخواست کا دوسرا مقصد یہ ہے کہ الیکشن کمشن آئین کے آرٹیکل 218(3) کے تحت اپنی آئینی ذمہ داری پوری کرنے میں ناکام ہو چکا ہے اور کئی نادہندگان، جعلی ڈگری والے، دوہری شہریت والے، کاغذاتِ نامزدگی کے مراحل سے گزر گئے ریٹرننگ آفیسر کے پاس کسی طرح کا بھی ڈیٹا وقت پر نہ پہنچا اور آئین کے آرٹیکل 63(1)(n) اور 63(1)(o) کے تحت کسی بھی امیدوار کو اُس کی بیوی یا کفالت میں رہنے والے نے بیس لاکھ روپے سے زائد قرض ایک سال قبل نہیں دیا۔ ریٹرننگ آفیسر اِن آئینی دفعات کو نافذ کرنے میں ناکام رہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے سٹیٹ بینک آف پاکستان سے اِن حالات پر تفصیلات طلب نہیں کیں۔ بلکہ کاغذاتِ نامزدگی جمع کروانے کے بعد سیکشن 12(3) کے تحت حکم امتناعی حاصل کر لیا۔ سیکشن 14(3-A) کے تحت اگر وہ ادائیگیاں کر دیں ہیں تو ریٹرننگ آفیسر نے وہ کاغذاتِ نامزدگی منظور کر لیتے ہیں۔ یہ دفعات آئین سے متصادم ہیںدینِ اسلام ایک مکمل دین اور ضابطہ حیات ہے اور آئین کے دیباچہ آرٹیکل 2، 2-A، 20، 31، 227 کے تحت قران اور سنت پر عملدرآمد کرنا ہے اور اِس کے خلاف کوئی بھی قانون نہیں بن سکتا۔ مذہب کے علاوہ بھی پوری دنیا میں معاشرتی اقدار ایک اہم کردار ادا کرتی ہیں۔مسٹر جسٹس اعجازالاحسن نے استفسار کیا کہ ابھی کیا کیا جائے۔ کیا کوئی اقدار مقرر کی جائیں؟ اِس پر درخواست گذار نے عدالت کو بتایا کہ کاغذاتِ نامزدگی کے مراحل تو تقریباµ ختم ہونے کو ہیں یہ آنے والے الیکشن میں اِس کو استعمال کیا جائےگا اور جہاں تک قرض نادہندہ، ٹیکسز اور بل نادہندہ، دوہری شہریت، نیب سزا یافتہ وغیرہ کا تعلق ہے تو ان کے کیسز کو ابھی دیکھنا ہے۔ مسٹر جسٹس سید منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ اِس نظام کو بہتر کیسے کیا جائے الیکشن کمیشن نے ایسا کوئی طریقہِ کار وضح نہیں کیا اور اچھا کردار اور دیگر وجوہات کیسے طے کی جائیں گی؟ محمد اظہر صدیق ایڈووکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ دینی اقدار وہی ہیں جو معاشرے نے مقرر کئے ہیں اور یہ الزام لگانا کہ آئین کے آرٹیکل 62 کو دینی رنگ دینے کی کوشش کی گئی ہے غلط ہے۔

ای پیپر-دی نیشن