• news

کراچی میں نوگوایریاز موجود ہیں‘ سندھ پولیس کی سپریم کورٹ میں رپورٹ

اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت+ ایجنسیاں) چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے کہا ہے لگتا ہے کراچی میں اب کوئی اور بڑی چھتری پولیس پر اثرانداز ہو رہی ہے، آنکھیں بند کرنے سے کام نہیں چلے گا، سندھ حکومت بتا دے کس کو بلانا ہے، آرڈر کر دیں گے۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں 5رکنی لارجر بنچ کراچی بدامنی عملدرآمد کیس کی سماعت کر رہا ہے، سندھ پولیس نے سپریم کورٹ میں رپورٹ جمع کرائی ہے، کراچی میں کل 106تھانے ہیں اور 7تھانوں کی حدود میں جزوی نوگوایریاز موجود ہیں، چیف جسٹس نے استفسار کیا ان پولیس سٹیشنز کے نام بتائیں جن کی حدود میں نوگوایریاز ہیں، کسی علاقے میں ایک بھی نوگوایریا نہیں ہونا چاہئے، سندھ حکومت کے وکیل شاہ خاور نے ان تھانوں کی تفصیل سے آگاہ کیا جہاں نوگوایریا ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا گذشتہ سماعت پر ڈی آئی جی ذوالفقار نے کہا تھا سیاسی چھتری نہیں، لگتا ہے اب کوئی اور بڑی چھتری پولیس پر اثرانداز ہو رہی ہے، عدالت میں ایم کیو ایم رابطہ کمیٹی کی ڈپٹی کنونیئر نسرین جلیل کا چیف جسٹس کو لکھا گیا خط پڑھ کر سنایا گیا جس میں کہا گیا ہے طالبان نے کراچی میں مضبوط ٹھکانے بنا رکھے ہیں۔ وہ بھتہ خوری اور بینک ڈکیتیوں میں ملوث ہیں، طالبان نے کراچی میں متوازی عدالتی نظام بھی بنا رکھا ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے یہ وہی پولیس ہے جو پانچ سال سے تھی، نگران سیٹ اپ تو اب آیا ہے، عدالت میں ایس ایچ او تھانہ چاکیواڑہ کا بیان حلفی بھی پڑھ کر سنایا گیا جس میں کہا گیا ہے پولیس اور رینجرز کارروائی کرتی ہے تو مزاحمت کا سامنا ہوتا ہے، جرائم پیشہ افراد کو پیپلزپارٹی کی حمایت حاصل ہے، چاکیواڑہ میں کرفیو لگاکر آپریشن کیا جائے تو علاقہ کلیئر ہو سکتا ہے، کلاکوٹ تھانہ کے ایس ایچ او کا کہنا تھا 35فیصد علاقہ جرائم پیشہ افراد سے متاثر ہے، لیاری کے جرائم پیشہ افراد کو بھی پیپلزپارٹی کی حمایت حاصل ہے، چیف جسٹس نے کہا پولیس اپنے منہ سے مان رہی ہے 35فیصد نوگوایریا ہے، جرائم پیشہ افراد کو سیاسی لوگوں کی پشت پناہی ہے تو پولیس کیوں ہاتھ نہیں ڈالتی، آئی جی پولیس چاہیں تو شام تک علاقہ کلیئر ہو سکتا ہے۔ این این آئی کے مطابق سپریم کورٹ نے ایک بار پھر ٹارگٹ کلنگ کے تمام ملزمان کی گرفتاری کا حکم دیتے ہوئے کہا لگتا ہے کراچی میں اب کوئی اور بڑی چھتری پولیس پر اثرانداز ہو رہی ہے۔ کسی بھی علاقے میں نوگوایریا نہیں ہونا چاہئے، ایس ایچ او کا بیان پیپلزپارٹی کے خلاف بیان حلفی ہے، ہم نے پن پوائنٹ کر دیا ہے سب کچھ سیاسی طور پر ہو رہا ہے، پولیس سیاسی لوگوں پر کیوں ہاتھ نہیں ڈالتی؟ نمائندہ نوائے وقت کے مطابق سپریم کورٹ نے پولیس کی کارکردگی پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی رپورٹ کو شرمناک قرار دیا اور اثرورسوخ پر رہا کئے گئے ”بلیک لسٹ“ ملزموں کو آج تک گرفتار کرنے کا حکم دیا، دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے جب 115اور 47افراد کے ٹارگٹ کلرز جنہوں نے اقبال جرم بھی کیا ہو کو ضمانت پر رہا کیا جائے گا تو کراچی کے حالات سنگین حد تک خراب ہوں گے، پولیس میں تمام چہرے وہی ہیں تبدیلی کے بغیر حالات بہتر نہیں ہو سکتے، پولیس کہتی ہے 60فیصد پولیس ٹھیک اور 40فیصد پر سیاسی اثر ہے تو یہ 40فیصد خرابی ضرور پیدا کریں گے، کسی کو ڈر خوف محسوس ہوتا ہے تو وہ نوکری چھوڑ دے تاکہ کسی بہتر شخص کو آنے کا موقع ملے جس کے خلاف عدالت کارروائی کا حکم دیتی ہے اسے زیادہ بڑے عہدے پر لگا دیا جاتا ہے، کسی کو غلط فیصلے کرکے آرام سے گھر جانے نہیں دیں گے جن پولیس افسران نے کمزور مقدمات بناکر ملزمان کو چھوڑا ان کے خلاف بھی کارروائی ہو گی، سیاسی چھتری کے نیچے کسی کو پناہ نہیں ملے گی، نگران حکومت کو آئے ہوئے بھی ایک ماہ سے زیادہ ہو گیا مگر حالات کنٹرول میں نہیں آئے، 7پولیس افسران نے سچ بول کر پہل تو کی آئی جی کو تمام آپریشن کی نگراین خود کرنا ہو گی، تھانوں کے ایس ایچ او نے سیاسی دباﺅ کا اعتراف کیا، آئی جی چاہیں تو شام تک تمام علاقے کلیئر ہو سکتے ہیں، پولیس سیاسی لوگوں پر ہاتھ کیوں نہیں ڈالتی۔ جسٹس اعجاز احمد چودھری نے کہا شہادتیں چھپا کر ملزموں کو تحفظ دیکر آپ لوگ اللہ کو کیا جواب دیں گے، کیا مقتول کسی کے ماں باپ اور بچے نہیں تھے؟ آئی جی صاحب آپ گڈ گورننس اور امن و امان کے ذمہ دار ہو۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کسی کو اتنا ڈر خوف ہے تو وہ نوکری چھوڑ کر گھر جائے، خوف سے لرزتے ہوئے نوکری کی ضرورت نہیں، کراچی کے قبرستان بے گناہوں سے بھر گئے، 115اور 47افراد کے ٹارگٹ کلر کو ضمانت پر چھوڑ دیا جاتا ہے، عدالت ایک ایک کیس منگوا کر دیکھے گی۔ بی بی سی کے مطابق پولیس رپورٹ کے مطابق سات تھانوں کی حدود میں واقع نوگوایریاز میں سندھی، بلوچی، پنجابی اور پشتون آباد ہیں۔

ای پیپر-دی نیشن