• news

قومی مفادات

معلوم نہیں اس پیاری دھرتی کی مٹی میں کیا خرابی ہے کہ اسکی کوکھ سے جنم لینے والے سیاستدان سب کچھ ہیں مگر وہ کچھ نہیں جو کچھ انہیں ہونا چاہیے۔ ایک آدھ انسان کو چھوڑ کر باقی سب نے وہ کچھ کیا جو کچھ انہیں نہیں کرنا چاہیے اور وہ کچھ بالکل نہ کیا جو کچھ انہیں کرنا چاہیے تھا‘ نتیجتاً اس پیارے وطن کا حلیہ بگاڑ دیا۔ اپنے نکتے کی وضاحت کیلئے دو تاریخی مثالیں پیش کر رہا ہوں۔سر محمد شفیع تحریک پاکستان کے عظیم راہنما تھے۔ پیشے کے لحاظ سے تو وہ ایک کامیاب وکیل تھے لیکن سیاسی طور پر بھی بہت مخلص اور بلند مرتبہ شخصیت کے حامل تھے۔ یہ وہ شخص تھے جن کی تجویز پر 1906 ءمیں قائم ہونیوالی مسلم پارٹی کا نام مسلم لیگ رکھا گیا۔ پنجاب میں بھی مسلم لیگ قائم کرنے کا سہرا انہی کے سر ہے۔ قائداعظم کی طرح پر امن سیاست کے حامی تھے۔ اپنے نقطہ نظر کی وضاحت کرنا بھی خوب جانتے تھے۔ انگریزوں اور ہندو لیڈروں سے بھی بہت اچھے تعلقات تھے۔ وہ برٹش ہند ایمپائر کی سنٹرل ایگزیکٹو کونسل کے ممبر بھی رہے اور اس عہدے پر رہ کر مسلمانوں کے حقوق کیلئے بہت کام کیا لیکن انہیں ہمیشہ دو باتوں کا بہت افسوس رہا۔ اول یہ کہ مسلمان نے علم کے حصول میں کبھی دلچسپی نہ لی نہ ہی ہمارے راہنماﺅں نے اس سلسلے میں کوئی کامیاب کوششیں کیں سوائے سر سید احمد خان کے اور فقط ایک آدمی زیادہ کچھ حاصل نہیں کر سکتا جبکہ دیگر مذاہب کے لوگ علم کی بدولت حکمرانوں کے بہت قریب ہو گئے اور وہ زندگی کے ہر میدان میں مسلمانوں سے کہیں زیادہ آگے نکل گئے۔ اس پستی کیلئے وہ اپنے خود غرض مسلمان راہنماﺅں کو ذمہ دار ٹھہراتے اور دوسرا یہ کہ مسلمان راہنما خصوصاً فیوڈل لارڈز اپنی قوم سے مخلص نہ تھے۔ انکی سیاست ہمیشہ ذاتی مفادات کے حصول کے اردگرد گھومتی۔ اس سلسلے میں ہمیشہ وہ دکھ سے دوستوں کو بتاتے کہ ایک دفعہ وہ پنجاب کے انگریز گورنر کو ملنے گئے۔ جب سب باتیں ہو چکیں تو گورنر نے بتایا:”مسٹر شفیع مجھے سمجھ نہیں آتی کہ مسلمان راہنما خود غرض کیوں ہیں؟میرے پاس ہندو۔ سکھ۔ عیسائی اور بقیہ تمام مذاہب کے لوگ آتے ہیں۔ سب اپنے علاقے اور اپنے لوگوں کی بھلائی کیلئے منصوبے پیش کرتے ہیں۔ مجھے ان کی مدد کرکے خوشی ہوتی ہے لیکن مسلمان لیڈرز جتنے بھی آتے ہیں آج تک ان میں سے کسی نے بھی علاقے یا قومی بھلائی کی بات نہیں کی۔ یہ تمام لوگ ہر وقت کوئی نہ کوئی ذاتی مفاد حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں“سر محمد شفیع نے بتایا کہ وہ شرم سے مزید کچھ نہ کہہ سکا۔ بعد میں یہ واقعہ انکی بیٹی نے اپنی سوانح عمری میں بھی لکھا۔ ایک آدھ لیڈرایسا کرے تو کوئی بات نہیں لیکن بحیثیت قوم جب لیڈرز ذاتی مفادات کو قومی مفادات پر ترجیح دینے لگیں تو اسے قومی بد قسمتی اور قومی المیہ ہی کہا جا سکتا ہے۔ مزید بدقسمتی کہ یہ روایت آج تک جاری ہے۔دوسرے واقعے کا تعلق1969سے ہے جب مغربی پاکستان ون یونٹ تھا۔ ملک میں یحییٰ خان کا مارشل لاءتھا اور لیفٹیننٹ جنرل عتیق الرحمن (مرحوم) مغربی پاکستان کے گورنر تھے۔ مرحوم فوج میں سخت ڈسپلن۔ قانون کی پاسداری اور ایماندار ی کیلئے مشہور تھے۔ پرائیویٹ زندگی میں وہ کھلے ذہن کے مالک تھے۔ مرحوم نے یہ واقعہ کئی ایک نجی محفلوں میںبھی سنایا اور بعد میں اپنی سوانح عمری میں بھی درج کیا۔ مرحوم کا اعتراض تھا کہ ہم تو عام گنہگار لوگ ہیں لیکن پھر بھی قومی مفادات کو زک پہنچانے سے ڈرتے ہیں لیکن جب بڑے بڑے سیاستدان خصوصاً جب وہ عالم دین بھی ہوں اور عوام کے مذہبی راہنما بھی۔ پھر وہ قانون شکنی کرکے ذاتی مفادات حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ اسلام او ر قرآن کو اپنے مقاصد کے حصول کیلئے استعمال کریں تو یقینا بہت افسوس ہوتا ہے۔ اگر مذہبی راہنما بھی ایسے ہوں تو پھر بھلا قوم کی صحیح راہنمائی کون کریگا؟ جنرل صاحب کے الفاظ میں واقعہ یوں ہے:”ایک دن صوبہ سرحد کی ایک بہت ہی معزز دینی اور سیاسی شخصیت نے مجھ سے رابطہ کرکے ملاقات کا وقت مانگا۔ میں نے اسے چند دنوں کے بعد کا وقت دیا لیکن میں دل میں بہت پریشان تھا کہ بھلا میں دینی شخصیت سے کیا بات کرونگا کیونکہ میرا دینی علم تو زیادہ نہیں تھا۔ بہرحال وقت مقررہ پر مولانا صاحب تشریف لائے۔ انکی خاطر مدارت کی گئی۔ جب چائے سے فارغ ہوئے تو میں نے ڈرتے ڈرتے تشریف لانے کا مقصد پوچھا“مولانا صاحب نے فرمایا: ”کوئی خاص بات نہیں۔ بس ذرا ایجوکیشن سیکرٹری کو فون کر دیں“”کس لئے؟“ میں نے پوچھامولاناصاحب نے بتایا کہ ”دراصل میٹرک کے امتحان میں ایک ممتحن نے خواہ مخواہ میرے ایک عزیز پر نقل کا الزام لگادیا ہے۔ کیس اوپر چلا گیا ہے۔ بس سیکرٹری صاحب کو بتادیں کہ وہ اسے ختم کر دیں۔ ورنہ خواہ مخواہ بچے کا مستقبل خراب ہو جائے گا“میں نے مولانا صاحب سے پوچھا ”کیا نقل کرنا جرم نہیں؟ قرآن کریم کا جرم کے بارے میں کیا حکم ہے؟“”جواب میں مولانا صاحب نے قرآن کریم کی ایک لمبی آیت مبارکہ سنائی۔ میں نے مولانا صاحب سے اس کا مطلب پوچھا تو مولانا صاحب نے فرمایا: اللہ تعالیٰ معاف کرنے اور درگزر کرنے کا حکم دیتا ہے“ واقعہ تو بہت معمولی سا ہے لیکن یہ اس دور کی بات ہے جب سیاست شرافت کی حدود کے اندر تھی۔ آجکل کے ماحول میں تو اسے شاید غیر قانونی بھی نہ کہا جائے۔ اب تو اربوں کھربوں کی کرپشن اور پاکستان توڑنے والوں تک کو کوئی نہیں پوچھتالیکن معاشرے کی تباہی کیلئے تو ایسی معمولی باتیں ہی کافی ہوتی ہیں۔ معزز قارئین باقی نتیجہ آپ خود اخذ کر لیں۔ ون یونٹ ٹوٹنے کے بعد یہ معزز ہستی صوبہ سرحدکے اہم عہدے پر فائز رہی اور اب ماشاءاللہ اس انکے فرزند ارجمند بھی دین اور سیاست کے درخشندہ ستارے ہیں۔ خدا انہیں سلامت رکھے۔ یہ دو تاریخی واقعات کا حوالہ دینے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ جب لیڈرز ذاتی مفادات پر قومی مفادات قربان کرنا شروع کر دیں تو قوم کو انکی گردن پکڑنی چاہیے۔ میں نے اپنے پچھلے کالم میں لکھا تھا کہ سیاستدان اپنے مقاصد کے حصول کیلئے بہت ذہین ہیں۔ ”یہ وہ سیلابی ریلا ہیں جو اپنے ساتھ تمام رکاوٹیں بہا کر لے جاتے ہیں“ قوم نے دیکھا کہ کچھ دن پہلے سخت سکروٹنی کا بڑا چرچا تھا۔ قوم کو امید تھی کہ جعلی ڈگری والے۔ ٹیکس چور۔ نادہندہ۔ بھتہ خور۔ قرضے معاف کرانے والے اور کرپٹ لوگ نا اہل ہوجائینگے لیکن پوری قوم نے دیکھا کہ یہ شاطر لوگ تمام رکاوٹیں عبور کرکے اپنی تمامتر کرپشن کیساتھ ”صادق اور امین“ بن کر اب ہمارے سامنے موجود ہیں۔یہ لوگ اب ”شخصیات “کی نہیں ”نظام “کی باتیں کرتے ہیں۔دودھ اور شہد کی نہریں بہا دینے کے وعدے کر رہے ہیں۔ معزز قارئین ! وقت کا تقاضا ہے کہ اس وقت ہمیں مل کر ایسے لوگوں کا راستہ روکنا ہوگا۔ اب قومی مفادات کا تحفظ عوام کو کرنا ہوگا۔مسلمان ایک ہی سوراخ سے دو بار نہیں ڈساجاتا۔ہمارا صحیح فیصلہ ملک کی قسمت بدل سکتا ہے ورنہ اندھیروں سے چھٹکارا ممکن نہ ہوگا۔

سکندر خان بلوچ

سکندر خان بلوچ

ای پیپر-دی نیشن