• news

جمعرات ‘ 7 جمادی الثانی 1434ھ ‘ 18 اپریل2013 ئ

نگران حکومت نے اخراجات پورے کرنے کیلئے سوا 9 ارب سے زائد کا قرضہ لے لیا۔ ابھی تو سابقہ حکومت کے رونے ہی پورے نہیں ہوئے تھے کہ نگرانوں نے نیا چَن چڑھا دیا۔ نگران حکومت نے 29 مارچ سے لیکر 15 اپریل یعنی صرف 18 دنوں میں سوا 9 ارب ”ڈکارنے“ کا بندوبست کرلیا۔ نگران حکومت کی یہ صورتحال دیکھ کر یوں کہنا پڑ رہا ہے کہ راجہ پرویز اشرف اور یوسف رضا گیلانی کی حکومت تو ”فرشتوں“ کی حکومت تھی۔ کفن چور کے بیٹے کی عادتوں کو دیکھ کر لوگوں نے کہا تھا یار اس سے اچھا تو اس کا باپ ہی تھا وہ کفن چوری کر کے لاشوں کو لحد میں دوبارہ رکھ تو دیتا تھا لیکن اس کا بیٹا کفن چوری کے ساتھ ساتھ لاشوں کی بے حرمتی بھی کر رہا ہے۔ آج یہی حال اس قوم کا ہے، پہلے یہ سابقہ حکومت کے قرضوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے تھے نگران حکومت آنے پر سُکھ کا سانس لیا تھا لیکن اب ہر کوئی پکار رہا ہے کہ جناب وہ جیسے بھی تھے ان سے اچھے تھے۔ اگر نگرانوں کو خدانخواستہ لمبا وقت مل گیا تو پہلے والوں نے صرف قوم کو گروی رکھا تھا یہ بیچ بھی ڈالیں گے حالانکہ ابھی نہ وزراءکی فوج ظفر موج ہے نہ ہی ترقیاتی منصوبوں کیلئے خزانے کا منہ کھولا گیا ہے۔ اگر یہ سارا پنڈورا بکس کھلا ہوتا تو یقین جانیے آج قوم کا ایک ایک فرد بِک چکا ہوتا۔ شاعر نے کہا تھا .... رہنے دے میرے دکھ سے ذرا بے خبر مجھے جا زندگی! تو اور پریشاں نہ کر مجھے ٭۔٭۔٭۔٭۔٭ایس ایچ اوز میں لیپ ٹاپ کی تقسیم کے باوجود ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ نہ ہو سکا۔ ایس ایچ اوز میں لیپ ٹاپ کی ”بندر بانٹ“ ہوئی ہے۔ صاف ظاہر ہے وہ تھانے کی بجائے سرکار کے گھر میں ہونگے۔ بیچارہ عملہ ایس ایچ او کو کیسے کہے گا کہ جناب لیپ ٹاپ تھانوں میں رکھیں تاکہ ریکارڈ لوڈ کیا جا سکے۔ پولیس والے 50 روپے تک رشوت پر مان جاتے ہیں لیپ ٹاپ تو پھر بھی ہزاروں کا ہو گا۔ عنقریب خبریں آنا شروع ہو جائیں گی کہ فلاں تھانے سے لیپ ٹاپ چوری ہو گیا اور یوں ایس ایچ اوز اسے ہڑپ کر جائینگے۔ پولیس تو اب تھانوں میں بند ہو کر بیٹھی رہتی ہے مجال ہے فون کرنے کے باوجود جائے وقوعہ پر پہنچ جائے لیکن گزشتہ روز ایک جھوٹی کال نے پولیس کو ”ماموں“بنا دیا، ون فائیو پرکال سے پولیس کی ایسی دوڑیں لگیں جیسے مخبری ہونے پر چوروں کی لگتی ہیں۔ گزشتہ روز ہی ہزاروں روپے کی ڈکیتیاں ہوئیں تو پولیس مطلع کرنے کے باوجود جائے واردات پر وقت سے نہیں پہنچ سکی کیونکہ انہیں پیشگی پتہ ہو گا کہ یہ ہونا ہے یہ نہیں۔ لہٰذا جو ڈکیتی پولیس کی اجازت کے بغیر کے ہوگی‘ وہاں ڈکتیوں کا بھاگنا سکرپٹ کا حصہ بنے گا اور جو واردات پولیس کے ”اجازت نامے“ کے ساتھ ڈالی گئی ہو‘ وہاں فون کال پر اطلاع ملنے کے باوجود پولیس کا کیا کام ہے کہ وہ جائے وقوعہ پر پہنچ کر ڈاکوﺅں کی گردن ناپے۔ ٭۔٭۔٭۔٭۔٭شیری رحمان کا نام دنیا کی بااثر خواتین کی فہرست میں شامل۔ شیری امریکہ میں سفیر تعینات ہونے کے بعد ویسے ہی ”بااثر“ ہو چکی تھیں‘ اکثر معاملات تو ان سے پوچھے بغیر چلتے ہی نہیں تھے۔ اسکی وجہ ان کا امریکہ میں سفیر ہونا ہی تھا۔ اب بڑے گھر سے جو بھی پرچی آئیگی‘ اس پر عمل ہو گا لیکن لانے والی تو شیری ہی ہونگی اس لئے وہ مزید بااثر ہو جائیں گی۔ اگر وہ امریکہ کے علاوہ کسی ”نکے“ اور ”غریب“ ملک میں تعینات ہوتیں تو آج بااثر ہوتیں اور نہ یہ ”ویمن ان ورلڈ فاﺅنڈیشن“ کو ان کا نام یاد نہ ہوتا۔ بہرحال جیسے بھی ہے‘ پاکستانی ہیں‘ وہ نہ صرف دنیا میں بااثر خاتوں ہیں بلکہ اپنے گھر میں بھی وہ بااثر بن گئی ہیں۔ ان کا جادو آج سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ وہ اصول کی پکی اور کام کی دھنی ہیں‘ اسی لئے آج وہ ”بڑے گھر“ میں تعینات ہیں۔ وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ یقینی طور پر اگر صنف نازک کا وجود نہ ہوتا تو دنیا آج اداس اور غمگین ہوتی۔ یہ صرف شیری رحمان ہی بااثر نہیں ہیں‘ اکثر گھر میں خواتین بااثر ہوتی ہیں‘ انکی مرضی کے بغیر تو ”سرتاج“ بھی فیصلہ نہیں کر پاتے۔ شادی کرنے سے پہلے پہلے تو اکثر خواتین بااثر ہوتی ہیں لیکن شادی کے بعد کچھ شوہروں کے تیور بدل جاتے ہیں اور پھر نوبت باایں جارسید ....شادی نہ ہوئی تھی تو بہت اس پر فدا تھا اب بچوں کی ماں کیلئے جلاد ہے شوہرہو سامنے محبوبہ تو ریشم کی طرح نرمبیگم ہو مقابل میں تو فولاد ہے شوہرایسے ایسے مقامات میں پھر شوہر بااثر ہوجاتے ہیں لیکن یہ کوئی 100 میں سے 5 افراد ہوتے ہیں۔٭۔٭۔٭۔٭۔٭افسروں ملازمین کے تبادلے پنجاب حکومت کو 2 کروڑ میں پڑ گئے۔ اکھاڑ پچھاڑ میں تو بہت کچھ ہو جاتا ہے اس بنا پر شاید سابق حکومت نے ہر کسی کو اسکی سیٹ پر باندھے رکھا۔ اصرار کے باوجود انکے تبادلے نہیں کئے گئے۔ پنجاب کے 36 اضلاع میں تعینات اسسٹنٹ کمشنرز سے لیکر پٹواریوں اور گرداوروں تک کسی کو شہر بدر کیا، کسی کو ضلع بدر، تو کسی کو صوبہ بدر بھی کر دیا گیا، کچھ ملک بدر بھی ہوئے ہیں یعنی سفارت خانوں میں تعینات ہو گئے‘ اب ان میں شادی شدہ ملازم کو دوسرے شہر تبادلے پر بنیادی تنخواہ کا ایک اضافی الاﺅنس دیا گیا اور اسکے علاوہ سامان کی ترسیل کے بھی اخراجات دئیے گئے جبکہ غیر شادی شدہ کو بھی آدھی تنخواہ ملی اور یوں اکھاڑپچھاڑ میں پیسے کی بھی بندر بانٹ ہو گی۔ سیٹھی کے کام چنیوٹی سیٹھوں والے ہیں۔ آپ سرکاری ملازمین کو اضافی تنخواہ دینگے تو غریب کا کیا قصور ہے آپ اسے بھی تو کچھ مراعات دیں، بڑے ملازمین کے پیٹ بھی بھرے ہوتے ہیں اور اکاﺅنٹ بھی جبکہ پیٹوں پر پتھر غریب عوام نے ہی باندھ رکھے ہوتے ہیں۔ مجید لاہوری نے شاعر مشرق کے اشعار کی پیروڈی یوں کی ہے .... اُٹھو میری دنیا کے غریبوں کو مٹا دو کاخِ اُمراءکے درو دیوار سجا دو جناب کہیں اس پیروڈی کو حقیقت کے قالب میں ڈھالنے کا پروگرام تو نہیں۔

ای پیپر-دی نیشن