بنگلہ دیش کی موجودہ صورتحال اور بھارت
نصیر الدین سید .....
بنگلہ دیش میں خانہ جنگی پر ساری دنیا سراپا احتجاج-- دنیا کی حکومتیں، غیر حکومتی ادارے، این جی اوز، UNO ، او آئی سی، ہیومن رائٹس ، ہیومن واچ اور مسلم سکالرز آرگنائزیشن سب کے سب تشویش میں مبتلا ہیں اور اس خواہش کا اظہار کررہے ہیں کہ بنگلہ دیش میں خانہ جنگی ختم ہو۔ حکومت بات چیت کا راستہ اپنائے تاکہ بنگلہ دیشی عوام امن و سکون سے اپنی زندگی گزار سکے اور ملک ترقی کرے۔لیکن نہ تو حکومت اس بات پر تیار نظر آتی ہے اور نہ ہی اپوزیشن احتجاج ختم کرنے پر آمادہ ہے، جسے Point of no returnکہتے ہیں۔بنگلہ دیشن 2013ءانتخابات کا سال ہے۔عوامی لیگ حکومت نے انتخابات میں کامیابی کے لئے نئی حکمت عملی ترتیب دی ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ حکومت War Crimes ایشو کو زندہ کرکے مسلم رہنماﺅں کو سزائے موت دلانے اور اس پر عملدرآمد کرنے کیلئے بنگلہ دیش میں ایک شورش برپا کرنا، 1970-71ءکی آزادی جنگ کے جذبے کو بیدار کرکے اسی آڑ میں الیکشن میںکامیابی کی کوشش کرنا ہے۔ حکومتی بدانتظامی، ٹینڈر بازی، بھتہ وصولی، امن و امان کی خراب صورتحال، بھارت نوازی، بنگلہ دیش کو بھارتی طفیلی بنانے کی کوشش، دریائے پدما(Pudma)پر ورلڈ بنک کی مدد سے بنائے جانیوالے پل کو رشوت کی نظر کرنے اور بھارت کو Seven Sister States کیلئے عوامی خواہش کے برعکس بنگلہ دیش کے اندر سے زمینی، سمندری اور فضائی راستے فراہم کرنے جیسے مسائل کا سامنا ہے۔عوامی لیگ حکومت ایک مشکل صورتحال سے دوچار ہے۔ اگرWar Crimes Tribunal کے ذریعے نظر بند رہنماﺅں جن میں پروفیسر غلام اعظم، مطیع الرحمن نظامی، BNPکے صلاح الدین قادر چوہدری اورعبدالعلیم سمیت دس رہنماﺅں کو سزائے موت دے دی گئی تو حالات مزید خراب ہوسکتے ہیں۔ علامہ سعیدی کی سزا کے خلاف عوامی احتجاج حکومت اور دنیا کی آنکھیں کھولنے کیلئے کافی ہے۔ بنگلہ دیش میں جرمن سفیر Dr. Albrecht نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ ان رہنماﺅں کو سزا دینے کی صورت میں حالات مزیدخراب ہوسکتے ہیں۔بنگلہ دیش کے18پارٹی اتحادنے حکومت کو خبردار کیا ہے کہ انکے رہنماﺅں کا عدالتی قتل کیا گیا توعوام خاموش تماشائی بن کر نہیں رہیں گے اور خوفناک صورتحال کی تمام تر ذمہ داری حکومت پر ہوگی۔عوامی لیگ حکومت کی کوشش ہے کہ متحدہ حزب اختلاف کی پارٹی BNP اور جماعت اسلامی کے درمیان غلط فہمی پیدا کردی جائے تاکہ الیکشن میں یہ مدمقابل آجائیں اور عوامی لیگ کو آسانی سے الیکشن میں کامیابی حاصل ہوجائے، لیکن اس حکمت عملی کی ناکامی نے حکومت کومزید جارحانہ رویے پر مجبور کیا ہے۔ BNPکے مرکزی دفتر میں چھاپہ مار کر145سے رہنماﺅں اور کارکنوں کو گرفتار کرکے جیلوں میں بھیج دیا۔حکومتی رویہ سے لگتا ہے کہ وہ بات چیت پر تیار نہیں۔عوامی لیگ کے رہنما، وزراءاور اراکین اسمبلی جماعت اسلامی پرپابندی لگانے کی باتیں کررہے ہیں۔ خود وزیر اعظم محترمہ حسینہ واجدکئی مرتبہ کہہ چکی ہیں کہ بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کو کام کرنے کا کوئی حق نہیں لیکن عوامی لیگ کے قانونی ماہرین کے مطابق جماعت اسلامی پر پابندی لگانا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے۔ موجودہ صورتحال میںبنگلہ دیش میں جماعت اسلامی پرپابندی لگ بھی جائے تو اس کا فائدہ BNP کو ہوگا۔جماعت اسلامی کے ووٹرز الیکشن ہونے کی صورت میں BNPکو ووٹ دینگے ۔امریکہ، برطانیہ سمیت ساری دنیا کو اس بات پر یقین ہے کہ الیکشن ہونے کی صورت میں BNP اور جماعت اسلامی کا اتحاد بھاری اکثریت سے بنگلہ دیش میں کامیابی حاصل کریگا۔ اس صورت میں بنگلہ دیش میں ایک خود مختار حکومت ہوگی جو عوام کی خواہشات کے برعکس کوئی فیصلہ نہیں کریگی ۔بنگلہ دیش میں عوامی لیگ کے ہارنے کی صورت میں ہندوستان کو بہت سے سٹریٹیجک چیلنجزکا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ بنگلہ دیش کے ساتھ تقریباً تین ہزار کلومیٹر بارڈر کوSealکرکے Secureکرنا ہوگا۔بنگلہ دیش اور Seven Sister States کے بارڈر کو بھی Sealکرنا ہوگا۔ بنگلہ دیش میں بھارت نواز حکومت ہونے کی وجہ سے مشرقی سرحد Secureہے۔ہندوستان کے سات صوبوں میں علیحدگی کی تحریک عروج پر ہے۔ ان صوبوں کے نام Arunachal Pradesh, Assam, Manipur, Nagaland, Meghalayaاور Tripura ہیں۔ان سات صوبوں میں سے صرف ایک صوبے کے ساتھ بھارت کا 20کلومیٹر کا بارڈر لگتا ہے جبکہ باقی تمام صوبوں کے بارڈرز چین، برما اور بنگلہ دیش کے ساتھ لگتے ہیں۔ بنگلہ دیش کے اندر سے ان صوبوں میں پہنچنا ہندوستان کیلئے بہت آسان ہے۔عوامی لیگ کی سربراہ حسینہ واجد نے2012ءمیں بھارت کے ساتھ یہ معاہدہ کیا ہے ، جس میں بنگلہ دیش سے ان صوبوں(States)کیلئے Multiple Entry/Exit دینا شامل ہے۔ ہندوستان نے اس مقصد کیلئے حکومت بنگلہ دیش کو ایک بلین ڈالر قرض دیا ہے تاکہ بنگلہ دیش کے اندر اپنی مرضی کی Road Infrastructure, Raliway Line اور جہاز رانی کی سہولت حاصل کرسکے اور بنگلہ دیش کے اندر Multiple Enty/Exit Routeتعمیر کیا جاسکے۔ بنگلہ دیش کی2بندرگاہوںچٹا گانگ اور کھلنہ کو اپنے کنٹرول میں کرسکے۔یہ سہولیات ملنے کی صورت میں ہندوستان کو ان سات صوبوں میں علیحدگی کی تحریک کو کچلنے میں مدد ملے گی۔ ہندوستان کو دوسرا بڑا نقصان یہ ہوگا کہ Bay of Bengalکو کنٹرول کرنے کا بھارتی خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکے گا جس پر چین بھی نظریں لگائے بیٹھا ہے۔ہندوستان کو معقول تعداد میں مشرقی سرحدوں پر فوج تعینات کرنا پڑے گی۔ اس وقت بنگلہ دیش میں فرینڈلی گورنمنٹ ہونے کی وجہ سے ہندوستان نے اپنی فوج کا ایک بڑا حصہ مغربی سرحد پر پاکستان کے ساتھ Deployکررکھا ہے۔پاکستان کے سکیورٹی ادارے یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ ہندوستان کو مشرقی سرحد پر Engage کئے بغیر مغربی سرحد پر دباﺅ کو کم نہیں کیا جاسکتا اور وہ یقینا اس سلسلے میں دفاع وطن سے غافل نہیں ہو ں گے۔مسلم دنیا کی سکیورٹی کے ذمہ داران کا یکساں مو¿قف اس بات کا واضح ثبوت ہے۔یورپ، برطانیہ اور امریکہ بھی بنگلہ دیش کے حوالے سے یہی مو¿قف ہے جو ایک بہت بڑی کامیابی ہے۔War Crimes Tribunalکے ایشوز پر بنگلہ دیش تنہا کھڑا ہے۔ ہندوستان کے سواساری دنیا Fair Trialپر زور دے رہی ہے۔سب بنگلہ دیش کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے بات چیت کے ذریعے مسئلہ کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے پر زور دے رہے ہیں۔آج بھی بنگلہ دیش کی صورتحال پر ہندوستان کی کڑی نظر ہے کہ کہیں اس کے کئے پر پانی نہ پھر جائے۔