بات اکتوبر 99ءسے شروع ہوتی ہے فوجی بغاوت میں اعلیٰ فوجی کمان،سیاستدان عدلیہ سبھی شامل ہیں: بی بی سی ‘فوجی سربراہ کو محفوظ رکھنا فوج کی انا کا مسئلہ ہوتا ہے
لندن + اسلام آباد (اے پی اے) برطانوی میڈیا کے مطابق اگر پرویز مشرف کے خلاف عدالتی کارروائی کا مقصد قانون کی بالادستی قائم کرنا ہے تو بات ججوں کو حبس بے جا میں رکھنے یا بینظیر بھٹو کے قتل سے نہیں بلکہ اکتوبر 1999ءکی فوجی بغاوت سے شروع ہوتی ہے۔ فوجی بغاوت کہیں بھی اور کبھی کسی ایک شخص کی خواہش یا مرضی کا معاملہ نہیں ہوتا۔ اس میں فوج کی اعلیٰ کمان، وہ عدلیہ جو فوجی بغاوتوں کو قانونی سہارا فراہم کرتی ہے اور وہ سیاستدان جو ہر ایسے موقع پر لپک کر فوجی آمروں کی گود میں جا بیٹھتے ہیں، سبھی شامل ہوتے ہیں۔ قانون کی بالادستی صرف اور صرف ان سب کے اجتماعی احتساب سے ہی قائم ہو سکتی ہے۔ بی بی سی کے مطابق فرض کیجیے کہ پرویز مشرف عدالت سے گھر جانے کی بجائے خود کو پولیس کے حوالے کر دیتے اور انہیں لے جا کر تھانے میں بند کر دیا جاتا۔ ایسی صورتحال میں وہ کتنی دیر جی پاتے؟ بی بی سی کے مطابق ہر طرح کا شدت پسند، خواہ وہ بلوچ ہو، طالبان ہو یا القاعدہ وہ مشرف کے خون کا پیاسا ہے۔ ان کی سیاست میں ہمیشہ سے خود فریبی کا عنصر بھلے نمایاں رہا ہو مگر انہیں درپیش خطرات حقیقی ہیں۔ پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت میں انا پرستی کی تاریخی جنگ کو ملحوظ خاطر رکھا جائے تو خواہ کوئی فوجی سربراہ کتنا بھی ناپسندیدہ کیوں نہ ہو جائے، اس کا ہر لحاظ سے تحفظ اور خاص طور پر سیاستدانوں سے اس کو محفوظ رکھنا فوج کی انا کا مسئلہ ہوتا ہے۔ سیاستدانوں، سکیورٹی اداروں اور عدالتوں کو فیصلہ کرنا ہو گا کہ وہ پرویز مشرف سے چاہتے کیا ہیں اور موجودہ صورتحال میں ممکن کیا ہے۔ پرویز مشرف کی پاکستان واپسی سے پیدا ہونے والی صورتحال نہ تو کوئی مزاحیہ خاکہ ہے نہ سکول کے زمانے کی چھیڑ چھاڑ۔ قانون کی بالادستی صرف اور صرف سب کے اجتماعی احتساب سے ہی قائم ہو سکتی ہے اور اگر ایسا ممکن نہیں تو بچگانہ چپت بازی کے اس کھیل میں جو لوگ اس وقت سابق فوجی صدر کی بھاگ دوڑ سے محظوظ ہو رہے ہیں وہی شاید کل عدالتوں پر فقرے کس رہے ہوں۔