• news
  • image

ہفتہ ‘ 9 جمادی الثانی 1434ھ ‘ 20 اپریل2013 ئ

”کمانڈو“ پرویز مشرف کی کمرہ عدالت میں حالت غیر، بار بار پسینہ پونچھتے رہے۔
مشرف کا قول ہے ....
”میں ڈرتا ورتا کسی سے نہیں“
لیکن اب ان کا سر چکرا رہا ہے اور حواس باختہ ہو کر دیواروں سے ٹکریں مار رہے ہیں۔ انکے چہرے کو دیکھ کر یوں معلوم ہوتا ہے جیسے دنیا جہاں کی محرومیاں انہی کی قسمت میں لکھی ہوئی ہیں۔ وکلاءکے بقول گزشتہ روز مشرف عدالت سے یوں بھاگے جیسے گیدڑ شیر کو دیکھ کر بھاگتا ہے۔ یہ مکافاتِ عمل ہے۔ جیسا کرو گے ویسا بھرو گے۔ مشرف سے قبل بھی بڑے بڑے آمروں کو انکے کئے کی سزا ملی۔ ہلاکو خان نے 16 لاکھ عراقی قتل کئے لیکن اس کا پاﺅں گھوڑے کی رکاب میں پھنس گیا تھا اور اس نے زمین پر گھسٹ گھسٹ کر دم توڑا۔ چنگیز خان نے 6500 کلو میٹر علاقہ فتح کیا اور 84 لاکھ افراد قتل کئے لیکن اس کا انجام اس قدر ہولناک ہوا کہ وہ گھوڑے کے ٹاپوں تلے آکر روندا گیا۔ روڈلف ہیس ہٹلر کا نائب تھا 17 اگست 1987ءکو جیل میں خودکشی کی، حکومت نے لاش دفن کر دی لیکن عوام کے غم و غصہ کی وجہ سے 2005 میں حکومت نے قبر پر لوگوں کے آنے کی پابندی لگا دی اور لاش نکال کر جلا دی۔ چلی کے بادشاہ پنوشے نے بھی اپنے کئے کی سزا بھگتی۔ آج مشرف بھی اسی دور سے گزر رہے ہیں، جوتے مارے جا رہے ہیں، وکلا عدالت میں کرسیاں مارنے لگتے ہیں، پرانے ساتھی ساتھ چھوڑ چکے ہیں اور تو اور اصحاب (قاف) بھی آج مشرف سے منہ موڑ چکے ہیں۔ مظلوموں کا خون رنگ لا رہا ہے۔ بینظیر قتل کیس کے مدعی سانحہ 12 اکتوبر کے متاثرین بیشک این آر او کے تحت خاموش بیٹھے رہیں لیکن قدرت کی بے آواز لاٹھی اب برس کر رہے گی۔ چند فیشن ایبل خواتین مشرف کی حمایت میں احتجاج کر رہی ہیں جبکہ کرائے کے چند مرد بھی کیمروں کے سامنے آ دھمکتے ہیں لیکن حقیقت میں مشرف (ق) لیگ اور ایم کیو ایم سے یوں شکوہ کر رہے ہیں ....
مرے ساتھ جتنے بھی لوگ ہیں سبھی خام ہیں
نہ یہ عین ہیں نہ یہ غین ہیں نہ یہ لام ہیں
میں صدر تھا تو ہر اک ہاتھ میں پھول تھے
مگر اب کہیں نہ دعائیں ہیں نہ سلام ہیں
٭۔٭۔٭۔٭۔٭
این اے 105 سے آزاد امیدوار خواجہ سرا¿ زاہد عرف ریشم پرویز الٰہی کے حق میں دستبردار !
چھوٹے چودھری صاحب نے تو بڑا معرکہ مار لیا۔ اب وہ کہہ سکتے ہیں کہ احمد مختار کے مقابلے میں میری پوزیشن مستحکم ہو گئی ہے۔ اصل راز سے پردہ تو ابھی تک نہیں اُٹھا کہ خواجہ سرا¿ کو کس چیز کی آفر کی گئی تو وہ دستبردار ہوئی یا ہُوا۔ سکھر کے خواجہ سرا¿ صنم فقیر نے بڑی وزنی بات کہی ہے کہ ہمارے بچے ہیں نہ ہی خاندان‘ اس لئے ہم کرپٹ نہیں ہو سکتے۔ گجرات کی ریشم نے اس بنا پر پرویز الٰہی کے حق میں دستبرداری اختیار کرلی ہے کیونکہ چودھری صاحب کے کافی بچے ہیں۔ وہ ان کا پیٹ پال لیں۔ ویسے تو ان کا اپنا بزنس بھی ہے لیکن پیسے سے آج تک پیٹ بھرا ہے‘ جو ان کا بھر جائیگا۔ اب تو مونس الٰہی بھی کماﺅ پتر بن چکا ہے۔ چودھریوں کو آگے بڑھ کر خواجہ سرا¿ ریشم کا شکریہ ادا کرنا چاہیے جس نے انکی کامیابی کو یقینی بنایا ۔ خواجہ سرا¿ بھی میدان میں خواہ مخواہ آ دھمکے، لگتا ہے انہوں نے مشتاق یوسفی صاحب کا قول پڑھ رکھا ہو گا کہ ”کوئی تیمار دار آئے یا نہ آئے، انسان کو بیمار پڑ جانا چاہئے۔ اسی طرح نوحہ خواں ہو یا نہ ہو مقررہ وقت پر مر بھی جانا چاہئے، سو جو ارادہ کر لیا اس پر پورا اُترنا چاہئے۔“ خواجہ سرا¿ کا کوئی ووٹ تھا یا نہیں لیکن وہ الیکشن میں کھڑا ہو گیا، اگر پہلے ہی وہ پلان بناتا کہ چوہدری برادران ایک خواجہ سرا¿ کی منتیں کیسے کریں گے، مجھے کوئی پوچھے گا بھی یا نہیں تو اس نے یہ حسرتیں دل میں ہی لیکر لحد میں اتر جانا تھا۔ ہمارے ہاں باعزت طریقے سے مشہور ہونا ہُنر نہیں بلکہ ایک حادثہ ہے جس کیلئے انسان کو عمر بھر ریاضت کرنا پڑتی ہے۔ چھوٹی موٹی عزت تو ہم کسرِ شان سمجھتے ہیں اس لئے کسی بڑے معرکے پر بازوں کی طرح آنکھیں جمائے رکھتے ہیں۔
ہر انسان کی کوشش ہوتی ہے کہ اس کا نام اونچا ہو اور لوگ اسے ہمیشہ آنکھوں پر بٹھائے رکھے۔ گرو سیاستدان تو فنِ مشہوری سے واقف ہیں بہت کم لیڈر ایسے گزرے ہیں جنہیں صحیح وقت پر مرنے کی سعادت نصیب ہوئی۔ ہر سیاسی لیڈر خواہ وہ کتنا ہی گیا گزرا کیوں نہ ہو، ایک وقت ضرور آتا ہے جب وہ سوچتا ہے کہ مجھے اب مر جانا چاہئے یا اپنے سیاسی دشمنوں کو رشوت دے کر اپنے آپ کو شہید کروا لینا چاہئے تاکہ حلقے کے عوام ہر سال نہ سہی ‘ ہر الیکشن پر دھوم دھام سے اس کا عرس ضرور منایا کریں گے کیونکہ جناب شہرت جو چاہئے ہوتی ہے۔ اب بھی کافی لوگ صرف کمپنی کی مشہوری کیلئے الیکشن میں چھلانگ لگائے ہوئے ہیں، کچھ تو غریب عزت بچانے کیلئے بغلوں کے نیچے سے دیکھ رہے ہیں کہ شاید کوئی بٹھانے آ جائے لیکن دور دور تک کوئی چانس نظر نہیں آتے۔
٭۔٭۔٭۔٭۔٭
امریکہ : بھکاری نے بھیک نہ دینے پر سوار سمیت گاڑی کو آگ لگا دی۔
امریکی بھکاری بھی بڑے طاقتور ہیں یہ پھر بھکاری تو نہ ہوئے بلکہ بھتہ خور ہوئے کیونکہ ہمارے ہاں تو ایسا کام صرف بھتہ خور ہی کرتے ہیں، بھتہ دے دیں تو جان بھی محفوظ اور مکان بھی، انکار پر جان بھی گئی اور جہاں بھی۔ جبکہ ہمارے بھکاری تو وکھری ٹائپ کے ہوتے ہیں آپ انہیں بھیک نہ دیں تو چند قدم دور جا کر زیادہ تیر ماریں تو کوئی بدعا دے دیں گے، بسا اوقات تو اللہ بھلا کرے کے الفاظ سُنتے ہی دعا دیکر چل پڑتے ہیں۔ ہم پھر امریکہ کی نسبت تو شریف ہوئے امریکہ میں پھر بھکاری اور بھتہ خوری میں فرق کرنا مشکل کام ہے۔ کراچی میں جو کچھ ہو رہا ہے یہ سب کہیں امریکہ کے تربیت یافتہ تو نہیں ہیں اس کا کھوج لازمی لگانا چاہئے کیونکہ یہاں بھی بھتہ خوری بشکل بھکاری ہی ہے۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن