فیصل آباد میں مسلم لیگ ن کو قومی اسمبلی کی 11 میں سے 8 نشستیں ملنے کا امکان
فیصل آباد (انتخابی منظر نامہ: احمد کمال نظامی) صاحبزادہ حاجی محمد فضل کریم کی وفات کے بعد ان کے بڑے بیٹے اور سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین حامد رضا نے اپنے مرحوم والد کے حلقہ انتخاب این اے 82 سے اپنی انتخا بی مہم کا آغاز زور و شور سے کر دیا ہے، الیکشن 2002ءاور الیکشن 2008ءمیں ان حلقوں میں صاحبزادہ فضل کریم مرحوم نے اپنی انتخابی مہموں کا آغاز مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ پر پیپلز پارٹی کے امیدواروں کے خلاف کیا تھا۔ سابق سینئر وفاقی وزیر خارجہ ریاض احمد گذشتہ دنوں انتخابات میں پی پی 65 سے پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر کامیاب ہوئے تھے جبکہ پی پی 66 سے ان دنوں انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کے رانا محمد افضل نے کامیابی کے جھنڈ ے گاڑے تھے۔ 11 مئی کے انتخابی معرکے میں صاحبزادہ حامد رضا ماضی کے اپنے والد کے انتخابی حلیف رانا محمد افضل خاں کے علاوہ پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر فیصل آباد شہر سے دو مرتبہ قومی اسمبلی کارکن منتخب ہونے والے کیپٹن (ر) نثار اکبر خاں سے بھی مقابلہ کرنا ہے جو اب تحریک انصاف میں ہیں اور زیادہ فعال امیدوار نہیں۔گذشتہ روز صاحبزادہ حامد رضا نے اپنی انتخابی مہم کا آغاز کر دیا جس کے بعد این اے 82 میں مسلم لیگ (ن) کے امیدوار رانا محمد افضل خاں اور تحریک انصاف کے امیدوار کیپٹن (ر) نثار اکبر شدید فکرمند ہیں۔ اس حلقے میں رانا افضل خاں اور کیپٹن (ر) نثار اکبر دونوں کی کوئی اچھی پوزیشن نہیں ہے البتہ رانا افضل خاں مسلم لیگ (ن) کے امیدوار ہونے کی وجہ سے ووٹ حاصل کر سکتے ہیں جبکہ این اے 82 میں کیپٹن (ر) نثار اکبر عوام کی توجہ کا مرکز نہیں بن سکے۔ رانا محمد افضل کے بارے میں این اے 82 کے عوام کو شدید شکایت ہے کہ وہ جب الیکشن 2008ءمیں این اے 82 کے ضمنی حلقے پی پی 66 سے رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے تو ان کی طرف سے عوام کے ساتھ بالکل بھی کوئی رابطہ نہیں رکھا گیا۔ این اے 82 میں اصل مقابلہ مسلم لیگ (ن) کے رانا محمد افضل خاں اور صاحبزادہ حامد رضا کے مابین ہو گا۔ صاحبزادہ حامد رضا کو سیاسی طور پر یہ فائدہ حاصل ہے کہ ایک طرف ملک بھر سے بریلوی مکتبہ فکر کے مشائخ کرام اور جید علماءکرام ان کی انتخابی مہم میں حصہ لے رہے ہیں دوسری طرف انہیں اپنے والد گرامی کی وفات کے باعث ہمدردی کا ووٹ میسر آئے گا۔ اسی طرح این اے 82 میں اڑھائی سو سے زائد بریلوی مکتبہ فکر کے مدارس اور مساجد ان کے انتخابی دفاتر میں تبدیل ہو جائیں گے اور مسلم لیگ (ن) کے امیدوار کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ جبکہ مسلم لیگ (ن) کے رانا افضل کو ایک مزید مشکل یہ پیش آئے گی کہ تحریک انصاف کے کیپٹن (ر) نثار اکبر اگر اپنے آپ کو فعال امیدوار بنا لیتے ہیں تو وہ یقیناً مسلم لیگ (ن) کے ووٹ کو متاثر کریں گے جس کا فائدہ صاحبزادہ حامد رضا کو ہو گا۔ سٹی ڈسٹرکٹ فیصل آباد میں قومی اسمبلی کے تمام گیارہ اور پنجاب اسمبلی کے تمام بائیس حلقوں میں امیدوار آمنے سامنے ہو گئے ہیں‘ ماضی میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) ہی دو بڑی سیاسی جماعتےں ہوتی تھیں۔ مسلم لیگ (ق) نے الیکشن 2002ءمیں جنرل پرویز مشرف کی واضح حمایت کو اپنے امیدواروں کی کامیابیوں کیلئے ڈھال بنایا تھا۔ الیکشن 2008ءمیں (ق) لیگ دیہی نشستوں میں سے ایک پر (رانا آصف توصیف) اور این اے 77 (چودھری عاصم نذیر) کوکامیابی ملی تھی۔ رانا آصف توصیف نے الیکشن 2002ءمیں این اے 80 سے مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ پر کامیابی حاصل کی تھی۔ ان کے بھائی رانا زاہد توصیف بھی اسی پارٹی کے ناظم سٹی ڈسٹرکٹ فیصل آباد کے امیدوار بن کر سامنے آئے تھے اور پیپلز پارٹی سمیت سب اپوزیشن جماعتوں کی حمایت سے‘ مسلم لیگ (ق) کے امیدوار قومی اسمبلی کے اس وقت کے رکن کرنل غلام رسول ساہی کے مقابلے میں کامیابی سے ہمکنار ہوئے تھے اور یہ دونوں بھائی سیاسی وفاداریاں تبدیل کر کے مسلم لیگ (ق) میں شامل ہو گئے تھے۔ الیکشن 2008ءمیں سٹی ڈسٹرکٹ فیصل آباد سے مسلم لیگ (ن) کو قومی اسمبلی کے تین حلقوں این اے 82 صاحبزادہ فضل کریم‘ این اے 84 چودھری عابد شیر علی‘ حاجی محمد اکرم انصاری این اے 85 سے کامیابی ملی تھی۔ ان کے ذیلی حلقہ پی پی 65 سے راجہ ریاض احمد کی کامیابی کے باوجود اس حلقہ میں صاحبزادہ فضل کریم پیپلز پارٹی کے امیدوار قومی اسمبلی کو ہراتے رہے تھے۔ فضل کریم مرحوم پانچ برس کے دورانیے میں اڑھائی بر س مسلم لیگ (ن) سے ناراض رہے تھے۔ این اے 82 کے حالات ثابت کر رہے ہیں کہ صاحبزادہ فضل کریم کو شیرکی دھاڑ قومی اسمبلی میں نہیں پہنچاتی رہی‘ وہ اپنی روحانی شخصیت کے بل بوتے پر این اے 82 سے الیکشن جیتتے رہے ہیں۔ اس مرتبہ تحریک انصاف بھی انتخابی دنگل میں مسلم لیگ (ق) اور پیپلز پارٹی کی نسبتاً زیادہ فعال سیاسی جماعت نظر آ رہی ہے اور اس امر کا بھی امکان ہے کہ اصل مقابلہ میاں محمد فاروق اور میاں محمد نعیم میں ہی ہو۔ پیپلز پارٹی نے الیکشن 2008ءمیں این اے 83 (محمداعجاز ورک) این اے 75 (طارق باجوہ) این اے 81 (چودھری سعید اقبال) کی صورت میں قومی اسمبلی کے پانچ حلقوں سے کامیابی حاصل کی تھی۔ الیکشن 2013ءمیں بظاہر ان پانچ میں سے چار حلقوں میں پیپلز پارٹی الیکشن ہار رہی ہے۔ این اے 75 میں طارق باجوہ کو مشکلات ہیں۔ این اے 78 میں اس مرتبہ رجب علی بلوچ کی باری تھی لیکن چودھری صفدر شاکر نے آزاد امیدوار کے طور پر انتخابی دنگل میں اتر کر مسلم لیگ (ن) کے امیدوار کے لئے مشکلات پیدا کر دی ہیں جس سے پیپلز پارٹی کے شہادت بلوچ کی پوزیشن مضبوط ہوئی ہے اور اب اس حلقے میں شہادت بلوچ کا اگر مقابلہ ہوا تو تحریک انصاف کے یاسر بلوچ سے ہو گا۔ این اے 83 کے 2008ءکے فاتح محمد اعجاز ورک اب مسلم لیگ (ن) میں شامل ہو چکے ہیں‘ اس حلقہ میں مسلم لیگ (ن) کی کامیابی بظاہر نوشتہ دیوار نظر آتی ہے۔ الیکشن 2008ءمیں این اے 79 سے رانا فاروق سعید خاں آزاد امیدوار کے طور پر کامیاب ہوئے تھے۔ انہوں نے پیپلز پارٹی کے عادل صبور‘ مسلم لیگ (ق) کے چودھری صفدر شاکر اور مسلم لیگ (ن) کے چودھری صفدر الرحمن کو واضح مارجن سے شکست دی تھی اور این اے 79 کے ساتھ ساتھ پی پی 59 سے بھی کامیاب ہو گئے تھے۔ پیپلز پارٹی کی شہید چیئرپرسن بینظیر بھٹو انہیں قومی اسمبلی کا ٹکٹ دینے سے انکار کر دیا تھا۔ ان کی کامیابی کی ایک وجہ یہ تھی کہ وہ مشرف دور کے پہلے بلدیاتی الیکشن میں تحصل ناظم رہ چکے تھے ۔ جنوری 2008ءکے پہلے ہفتے ہونے والا الیکشن 18 فروری کو ہوا اور رانا فاروق سعید خاں نے دونوں حلقوں میںکامیابی کے بعد پی پی 59 سے قاسم ضیاءکو پیپلز پارٹی کا امیدوار بنایا اور قاسم ضیاءکے تعلقات اسے پیپلز پارٹی کی نئی قیادت تک رسائی حاصل کر کے ازسرنو اس پارٹی میں شمولیت اختیار کی۔ اس حلقہ سے مسلم لیگ (ق) نے سردار دلدار احمد چیمہ کو نامزد کیا تھا۔ ان کے کاغذات نامزدگی بھی ہر سطح پر مسترد ہو گئے ہیں اور 11 مئی کا انتخابی معرکہ مسلم لیگ (ن) کے شہباز گجر اور تحریک انصاف کے خالد عبداللہ غازی کے مابین رہ گیا ہے۔ عبداللہ غازی کسی زمانے میں میاں نوازشریف کے سیاسی مشیر رہے ہیں۔ وہ دو مرتبہ اس حلقہ سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے لیکن ان کی حیثیت ایک ایسے بوڑھے شیر کی ہے جس کی دھاڑ‘ کچھار سے باہر بھی سنائی دیتی اور خالد عبداللہ غازی کے پاس اوپر اللہ اور نیچے بلا کے معجزاتی کامیابی کے امکان کے علاوہ شہباز گجر کے ”شیر“ پر غالب آنے کی کوئی صورت نہیں ہے۔