نگران حکومت نے مشرف کیخلاف غداری کا مقدمہ چلانے سے انکار کردیا
اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت + نوائے وقت رپورٹ + نیٹ نیوز + آن لائن) سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف غداری کے مقدمے میں وفاق نے پرویز مشرف کے خلاف آرٹیکل 6 کے تحت کارروائی کرنے سے انکار کر دیا ہے نگران حکومت نے م¶قف اختیار کیا ہے کہ نگران حکومت روز مرہ کے معاملات دیکھ سکتی ہے، آرٹیکل 6 کے تحت کارروائی کرنا نگران حکومت کا مینڈیٹ نہیں، اسی لئے متنازعہ اقدام نہیں کیا جا رہا، سیکرٹری داخلہ نے عدالت کو بتایا کہ سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف تاحال کوئی کارروائی کی گئی ہے اور نہ ہی اس حوالے سے کوئی ریکارڈ موجود ہے۔ ریکارڈ کی عدم دستیابی پر عدالت نے حیرت کا اظہار کیا ہے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ پتہ چلا ہے کہ حکومت نے ماضی میں کبھی کچھ کیا ہے اور نہ اب مستقبل میں کچھ کرے گی۔ قانون اور امور داخلہ کی وزارتوں نے اپنی معذوری ظاہر کر دی ہے، درخواست گذاروں کو سن کر عدالت فیصلہ دےدے گی‘ کل کو نگران حکومت کہے گی کہ جرم کی ایف آئی آر درج نہیں کر سکتے کیونکہ انتخابات میں مصروف ہیں۔ 8 دن سے پوچھ رہے تھے آج سرکار نے فیصلہ دے دیا کہ کچھ نہیں کرنا۔ جسٹس جواد نے کہا کہ آج عدالت کے روبرو حکومت کا نکتہ نظر واضح ہو گیا کہ وہ مشرف کے خلاف مقدمہ کے لئے کچھ نہیں کرنا چاہتی ایسی صورت میں عدالت حکم جاری کرے گی۔ جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں 3 رکنی بنچ نے کیس کی سماعت شروع کی تو بنچ کی تبدیلی اور ججز پر ممکنہ اعتراض کے حوالے سے احمد رضا قصوری اور دیگر مشرف کے وکلا کی استدعا پر انہیں مشرف سے ملاقات کی اجازت دی گئی اور کہا گیا کہ وہ ان سے ہدایات لے کر آئیں۔ پرویز مشرف کے خلاف غداری کیس کی دوبارہ سے سماعت شروع ہوئی تو مشرف کے وکلا احمد رضا قصوری‘ ابراہیم ستی اور قمر افضل ایڈووکیٹ پیش ہوئے اور انہوں نے سابق صدر پرویز مشرف سے اپنی ملاقات کی بابت تفصیلات سے عدالت کو آگاہ کیا اور بتایا کہ سب جیل انتظامیہ نے انہیں 45 منٹ انتطار میں کھڑا کئے رکھا مگر ملاقات نہیں کرائی۔ اس حوالے سے عدالت خصوصی آرڈر جاری کرے۔ احمد رضا قصوری نے بتایا کہ آپ کے حکم پر ہم 10 بجے مشرف کے فارم ہاﺅس پہنچے اور ہم نے انتظامیہ کو بتایا کہ عدالت کے حکم پر آئے ہیں، میں نے میڈیا کو تفصیل بھی بتائی، چودھری محمد علی ڈائریکٹر ایڈمنسٹریشن کی جانب سے بتایا گیا کہ چیف کمشنر اسلام آباد نے ہدایات جاری کی ہیں کہ اس گھر پر اڈیالہ جیل کے قوانین لاگو ہیں آپ ایک کمرے میں بیٹھیں گے، شمریز نامی افسر نے بتایا کہ یہ گھر اسلام آباد میں واقع ہے۔ وفاقی حکومت کی ہدایت ہے کہ آپ کو ملاقات کی اجازت نہیں دے سکتے ہم 11 بجے وہاں سے آگئے۔ کسی نے بھی عدالتی حکم کی پروا نہیں کی۔ جسٹس جواد نے کہا کہ ممکن ہے انہیں رولز اجازت نہ دیتے ہوں۔ احمد رضا قصوری نے کہا کہ ہمیں مشرف کی صحت کے حوالے سے کچھ تحفطات ہیں ان کو سی ایم ایچ بھیج کر علاج معالجہ کی سہولت اور طبی معائنہ کرایا جائے۔ جسٹس جواد نے کہا کہ ہم یقینی بنائیں گے کہ آپ کے موکل کو آئین و قانون کے مطابق تمام تر سہولیات میسر ہوں۔ جسٹس خلجی نے کہا کہ سب جیل سے ہمیں رجسٹرار سپریم کورٹ کے ذریعے رپورٹ بھیجی گئی ہے کہ قصوری صاحب ناراض ہو کر چلے گئے ہیں اور ملاقات نہیں کی۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ ہر شخص کی سکیورٹی ریاست کی ذمہ داری ہے پہلے جسٹس اعجاز افضل نہیں تھے ان کو معلومات نہیں، ان کو بتا دیں‘ ابراہیم ستی نے کہا کہ جب تک سپریم کورٹ میں کیس چل رہا ہے ہمیں ان تک باآسانی رسائی دی جائے روزانہ اجازت تو نہیں مانگ سکتے۔ جسٹس جواد نے کہا کہ ہم اس کے لئے آرڈر جاری کر دینگے یہ ان کا آئینی اور قانونی حق ہے۔ ابراہیم ستی نے کہا کہ رجسٹرار نے بھی حکم دیا مگر انتظامیہ نے تسلیم نہیں کیا ان کے رویے پر ان کو عدالت میں طلب کیا جائے۔ جسٹس جواد نے کہا کہ جو ہمارے حکم کی خلاف ورزی کرے گا اس کو سامنے ضرور لایا جائے گا۔ ابراہیم ستی نے کہا کہ بنچ کے حوالے سے ہمیں ابھی تک ہدایات نہیں مل سکیں ہمیں اجازت دی جائے۔ جسٹس جواد نے کہا کہ آپ واقعی تحمل مزاجی سے کام لے رہے ہیں، ججز کا غصے میں آنا ان کے منصب کے خلاف ہے ہمارا دل جلا ہو گا کئی قسم کی باتیں ہوتی ہیں لاہور میں ایک شخص اتنا تنگ تھا کہ بھری عدالت میں کہنے لگا کہ میرے لئے کچھ نہیں ہو رہا، میں پستول لے آتا ہوں۔ جسٹس خلجی نے کہا کہ ایک ہی بات آپ وکلا بار بار نہ کریں ہم نے اپ کی استدعا سن لی ہے۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ آپ ہدایات لے آئیں اس کے بعد ہم سماعت کریں گے، ساڑھے نو بجے بھی ہم نے آپ کو وقت دیا تھا۔ اے کے ڈوگر نے کہا کہ ابراہیم ستی ان کے اچھے دوست ہیں ان کی کرسی پر بیٹھ سکتے ہیں۔ اس دوران اٹارنی جنرل عرفان قادر نے وفاق کا تحریری جواب پیش کرتے ہوئے کہا کہ نگران حکومت آرٹیکل 6 کے تحت کاروائی نہیں کر سکتی اس کا کام روز مرہ کے معاملات کو دیکھنا ہے، اس پر عدالت نے کہا کہ کیا یہ روزمرہ کے معاملات نہیں۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ ماضی میں کچھ نہیں ہوا آج پتہ چلا کہ مستقبل میں بھی کچھ نہیں ہو گا۔ پرامن انتقال اقتدار کے علاوہ بھی نگران حکومت کی ذمہ داریاں ہیں۔ سیکرٹری داخلہ نے بھی جواب داخل کیا اور عدالت کو بتایا کہ پرویز مشرف کے خلاف آرٹیکل 6 کے تحت کارروائی ابھی تک نہیں کی گئی۔ سیکرٹری شیر دل نے بتایا کہ اس حوالے سے کوئی ریکارڈ موجود نہیں۔ اس دوران احمد رضا قصوری نے کہا کہ آپ آرام آرام سے سماعت کریں کیونکہ جلد فیصلے انصاف کا خون کر دیتے ہیں، اس پر سپریم کورٹ نے فیصلہ تحریر کراتے ہوئے کہا کہ مشرف کے وکلا کو ان سے آزادانہ ملاقات کی اجازت دی جاتی ہے اس حوالے سے انتظامیہ ان سے تعاون کرے۔ وفاق نے جواب داخل کر دیا ہے مزید سماعت منگل کو دوبارہ کریں گے۔ عدالت نے قرار دیا کہ 29 نومبر 94ءکے نوٹیفکیشن کے مطابق سیکرٹری داخلہ بغاوت کی شکایت درج کر سکتے ہیں مگر ایسا نہیں کیا گیا۔ قانونی ماہرین کا خیال ہے کہ آج عدالت کی جانب سے کوئی فیصلہ سامنے آ سکتا ہے۔ آئی این پی کے مطابق پرویز مشرف کے وکلا کو سپریم کورٹ کی ہدایت اور رجسٹرار کے فون کے باوجود بھی ملنے کی اجازت نہیں دی گئی اور کہاگیا کہ پہلے پنجاب حکومت سے اجازت طلب کی جائے اس کے بعد انہیں م¶کل سے ملنے دیا جائے گا۔ مشرف کے وکلا احمد رضا قصوری، ابراہیم ستی اور قمر افضل سپریم کورٹ کی ہدایت پر پرویز مشرف سے ملنے چک شہزاد میں سب جیل پہنچے تو وہاں پر انتظامیہ کی جانب سے ان کو اندر نہیں جانے دیا گیا اور ان کو کافی دیر تک باہر انتظار کرنا پڑا۔ مشرف کے وکیل احمد رضا قصوری دیگر وکلا کے ساتھ غصے سے باہر آئے اور کہا کہ ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ کا کہنا ہے کہ ملاقات سے پہلے پنجاب حکومت سے اجازت لینا پڑے گی اور پھر ملاقات کی اجازت دی جائے گی۔ احمد رضا قصوری نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ سراسر سپریم کورٹ کے حکم کی خلاف ورزی ہے اور ان کے سامنے جان بوجھ کر رکاوٹیں کھڑی کی جارہی ہیں۔ کبھی ان کے سامنے ایک مسئلہ تو کبھی دوسرا مسئلہ کھڑا کر دیا جاتا ہے۔ تین دن سے ان کے موکل کے ساتھ ان کو ملاقات نہیں کرنے دی گئی اور اس وقت جو کورٹ میں کیسز چل رہے ہیں وہ اس حوالے سے اپنے م¶کل کا م¶قف بھی نہیں جان سکے۔ احمد رضا قصوری نے کہا کہ ہم جیل انتطامیہ کے رویہ پر احتجاجاً واپس جا رہے ہیں اور م¶کل سے ملنے پر روکنے کا معاملہ سپریم کورٹ میں اٹھائیں گے۔ بی بی سی کے مطابق حکومت کے جواب میں کہا گیا ہے کہ عام انتخابات میں بیس روز سے بھی کم کا وقت رہ گیا ہے اور اس لئے حکومت، قانون نافذ کرنے والے ادارے اور سکیورٹی فورسز اس موقع پر امن و امان کو یقینی بنانے کے لئے مصروف ہیں۔ عدالت کا کہنا تھا کہ امن و امان قائم رکھنے کے علاوہ حکومت کے لئے روزانہ کے امور کی انجام دہی بھی ضروری ہے۔ جواب میں کہا گیا ہے کہ آئندہ عام انتخابات میں امیدواروں کو شدید خطرات کا سامنا ہے، گذشتہ عام انتخابات کے دوران ایسے حالات نہیں تھے اور اس ضمن میں نگران حکومت کو ایسے چیلنجز کا سامنا ہے جس کی مثال کہیں نہیں ملتی۔ جسٹس جواد ایس خواجہ کا کہنا تھا کہ محسوس ہوتا ہے کہ سرکار نے تہیہ کر رکھا ہے کہ وہ پرویز مشرف کے خلاف آئین کے آرٹیکل چھ کے تحت کارروائی نہیں کرنا چاہتی۔ وفاق کے جواب پر بنچ کے سربراہ کا کہنا تھا کہ عدالت اس معاملے کو دیکھ لے گی کہ آئین کے آرٹیکل چھ کے تحت کارروائی کرنے کا اختیار نگران وفاقی حکومت کے پاس ہے یا نہیں۔ وزارت داخلہ کے اہلکار نے بتایا کہ مشرف کے خلاف کارروائی سے متعلق کوئی دستاویزی ثبوت موجود ہے نہ ہی اس ضمن میں کوئی ہدایات موصول ہوئی ہیں۔ وزارت قانون کے جوائنٹ سیکرٹری سہیل صدیقی نے کہا کہ ان کی وزارت میں پرویز مشرف کے خلاف آئین کے آرٹیکل چھ کے تحت کارروائی کرنے کے لئے خصوصی عدالت کے قیام کے سلسلے میں کوئی ہدایات موصول نہیں ہوئیں۔ پرویز مشرف کے وکیل احمد رضا قصوری نے کہا کہ آرٹیکل چھ کے تحت کسی بھی شخص کے خلاف کارروائی کا اختیار وفاق کے پاس ہے، سپریم کورٹ کسی طور پر بھی وفاقی حکومت کو ہدایت جاری نہیں کر سکتی کہ وہ کارروائی کے لئے خصوصی عدالتی بنچ تشکیل دے، اگر سپریم کورٹ نے ایسا کیا تو وہ اپنے اختیارات سے تجاوز کرے گی۔ اسلام آباد (ثناءنیوز) پرویز مشرف کی جانب سے اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کو حبسِ بیجا میں رکھنے کے مقدمے کی تفتےشی ٹےم نے 3 نومبر 2007ءمیں ملک میں ہنگامی حالت کے نفاذ کے بعد سے پرویز مشرف کی جانب سے دئیے گئے تمام بیانات اور تقریروں کا مکمل ریکارڈ طلب کر لےا ہے۔ ذرائع کے مطابق ڈسٹرکٹ ایڈمنسٹریشن اور پولیس کی مشترکہ تفتیشی ٹیم نے اتوار سے کام شروع کر دیا ہے۔ اس مشترکہ تفتیشی ٹیم کی سربراہی ایس پی کیپٹن ریٹائرڈ محمد الیاس کر رہے ہیں، دورانِ تفتیش اسلام آباد ہائیکورٹ کی جانب سے حال ہی میں پرویز مشرف کی ضمانت کی درخواست خارج کرنے کے بعد مشرف کے اس بیان کو بھی زیرِ تفتیش لانے کا فیصلہ کیا ہے جو انہوں نے اپنے ذاتی فارم ہاﺅس چک شہزاد میں دیا تھا۔ تفتیشی ٹیم نے ججوں کو نظربند کرنے سے متعلق وزارتِ داخلہ اور کابینہ سے بھی تمام ریکارڈ حاصل کرنے کا منصوبہ تیار کیا ہے۔ اسلام آباد کے آئی جی بنیامین خان نے کہا ہے کہ تفتیشی ٹیم انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت معاملہ کی تفتیش کر رہی ہے۔ پرویز مشرف کے آئین توڑنے پر غداری کے جرم میں ٹرائل کیلئے سینٹ کی دوسری متفقہ قرارداد بھی عملدرآمد کیلئے نگران حکومت کو بھیج دی گئی ہے۔ مقدمات کے اندراج کے حوالے سے وزارت داخلہ جبکہ پرویز مشرف کی تصاویر اور پورٹریٹ تمام سرکاری عمارتوں سے ہٹانے کیلئے سفارشات کابینہ ڈویژن کو بھیجی جا رہی ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے رہنما سینیٹر اسحاق ڈار کی پیش کردہ اس قرارداد کو اتفاق رائے سے منظور کر لیا گیا تھا۔ مشرف کے ٹرائل کے لئے سینٹ نے اتفاق رائے سے پہلی قرارداد 23 جنوری 2012ءمیں منظور کی تھی اور پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں یہ قرار داد سینیٹر میاں رضا ربانی نے پیش کی تھی جسے سینٹ سیکرٹریٹ نے اسی وقت عملدرآمد کیلئے وزارت داخلہ کو بجھوایا تھا۔ قرارداد میں ملکی آئین دو بار توڑنے، ایمرجنسی کے نفاذ، ججز کو نظربند کرنے، بے نظیر بھٹو اور نواب اکبر بگٹی قتل کیسز، بلوچستان میں فوجی آپریشن کے حوالے سے وفاقی حکومت سے پرویز مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ درج کرانے اور ٹرائل کا مطالبہ کیا گیا تھا اب 19 اپریل کو سینٹ میں دوبارہ متفقہ طور پر منظور قرارداد میں متذکرہ قرارداد کی حمایت کا اعادہ کرتے ہوئے اس پر عملدرآمد اور قومی و سرکاری عمارتوں سے پرویز مشرف کی تصاویر ہٹانے کا مطالبہ کیا گیا۔