• news

سیاسی قیادت نے آئین توڑنے والے کی واپسی پر کوئی آواز نہیں اٹھائی : چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ

پشاور (بیورو رپورٹ) پشاورہائی کورٹ کے چیف جسٹس دوست محمد خان نے کہا ہے کہ ماضی میں آرٹیکل 6کی خلاف ورزی ہوتی رہی، عدلیہ اس کی توثیق کرتی رہی مگر اب ایسا نہیں ہوگا بلکہ ماضی میں جنہوں نے آئین اور قانون کو توڑا آج وہ عدالتوں کاسامنا کررہے ہیں اب کوئی آئین توڑنے کی جرا¿ت نہیں کرے گا، سیاسی قیادت نے آئین معطل کرنے والے شخص کی واپسی پر کوئی آواز نہیں اٹھائی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ قبائلی عوام ملک کی سرحدوں کی بلامعاوضہ حفاظت کرتے تھے لیکن بیرونی سازشوں کے تحت انہیں پس پشت ڈال دیا گیا اس لئے فاٹا کو مین سٹریم میں لانا ہوگا، ملک کے دیگر شہریوں کی طرح حقوق دلاکر انہیں بااختیار بنانا ہوگا۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے پشاور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن ، بنوں اور کرک ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن، تحصیل تحت نصرتی اور تحصیل بانڈہ داود شاہ بار ایسوسی ایشن کی حلف برداری تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ چیف جسٹس دوست محمد خان نے کہا کہ وکلائ، میڈیا اور سول سوسائٹی کی جدوجہد کے نتیجہ میں نہ صرف جمہوریت بحال ہوگئی بلکہ انتخابات کے انعقاد کو بھی یقینی بنایا گیا۔ عدلیہ بھی بحال ہوگئی لیکن اب حکومت سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کررہی۔ مسائل کا ادراک نہیں کیا جارہا۔ ایسے میں اب تھنک ٹینک کے کردار کی ضرورت ہے انہیں سوچنا چاہئیے کہ تنازعات کا حل کیسے ممکن ہے، مارچ اور نومبر 2007 میں دو مرتبہ آئین کو توڑا گیا جس کے بعد میڈیا، وکلائ، سول سوسائٹی نے کردار ادا کیا اور طویل جدوجہد کے بعد ڈکٹیٹر کو ہٹایا گیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ماضی میں جس نے آئین کو توڑا آج وہ عدالتوں کا سامنا کررہے ہیں لیکن سیاسی قیادت نے آئین توڑنے والے کی واپسی پر کوئی آواز نہیں اٹھائی، قبائلی علاقوں اور افغانستان میں کئی سال تک خونریزی ہوئی مگر کچھ بھی حاصل نہیں کیا گیا۔ فاٹا تک عدلیہ کی رسائی نہیں اس لئے وہاں بھاری مقدار میں کرپشن ہور ہی ہے جس کی وجہ سے ملکی معیشت تباہ ہوگئی ہے اس لئے فاٹا کو آئین کے آرٹیکل246 اور247کے تحت قومی دارے میں لاکر عدلیہ کی رسائی ممکن بنانا ہوگی انہیں دیگر شہریوں کی طرح حقوق دے کر بااختیار بنانا ہوگا جبکہ فاٹا کے پارلیمنٹیرین کو حق دیا جائے کہ وہ فاٹا کے لئے بہتر قانون سازی کر سکے۔ لوگوں کو سستا اور آسان انصاف فراہم کرنے میں عدلیہ کردار ادا کررہی ہے اس سلسلہ میں پشاور ہائی کورٹ میں ہیومن رائیٹس سیل بھی قائم کیا گیا ہے جہاں ہر شہری بغیر کسی فیس کے اپنے شکایات جمع کراسکتے ہیں تاہم اگر کسی کے پاس گاڑی کا کرایہ نہ ہو تو ایڈیشنل رجسٹرار کو موبائل فون پر بھی شکایات کرسکتا ہے ایسی صورت میں ہیومن رائٹس کی ٹیم متاثرہ افراد کے پاس جائے گی ان کے شکایات کو ریکارڈ کرے گی، ہمارا تفتیش سسٹم انتہائی ناقص ہے یہاں کے فورنزک لیبارٹری کو یہ پتہ نہیں چلتا کہ کونسی مضر چیز استعمال کی گئی ہے جو تفتیش کاروں کے ساتھ ساتھ حکومت کی بھی مجرمانہ غفلت ہے اس لئے آئریش وفد سے ہماری بات ہوئی ہے کہ وہ ہمارے تفتیش کاروں کو تربیت دیں جس پر انہوں نے رضامندی ظاہر کی ہے یہ سلسلہ بہت جلد شروع کردیا جائے گا چیف جسٹس دوست محمد خان نے کہا کہ جلد سے جلد انصاف کی فراہمی کے سلسلہ میں7جوڈیشل کمپلیکسز اور 5تحصیل کمپلیکسز کا قیام عمل میں لایا جائے گا اس کے علاوہ ڈرگ کورٹ،بنکنگ کورٹ، لیبر اپیل کورٹ، انٹی کرپشن کورٹ اور بورڈ اف ریونیو کا قیام بھی عمل میں لایا جائے گا چیف جسٹس نے کہا کہ جوڈیشل کمپلیکس پشاور پر حملہ اور دھماکہ میں جاں بحق اور زخمیوں کو معاوضہ دیا جائے گا، حملہ آور کو عدالت میں داخلہ سے روکنے والے پولیس کانسٹیبل کو تمغہ شجاعت سے بھی نوازا جائے جس کے لئے سفارش کی گئی جس پر بہت جلد عمل درآمد کیا جائے گا۔ قبل ازیں چیف جسٹس دوست محمد خان نے پشاور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن ،بنوں اور کرک ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن،تحصیل تحت نصرتی اور تحصیل بانڈہ داود شاہ بار ایسوسی ایشن کے نومنتخب عہدیداروں سے حلف لیا اور ان ایسوسی ایشن کی جانب سے کئے گئے مطالبات پر کہا کہ وکلاءکی تعداد میں اضافہ کے پیش نظرپشاور ہائی کورٹ بارروم کو وسعت دی جائے گی سکیورٹی وجوہات کے باعث عدالتوں میں داخلہ کےلئے وکلاءاور صحافیوں کے لئے علیحدہ راستہ مختص کیا جائے گا، ہائی کورٹ سرکٹ بنچ بنوں پر رکے ہوئے کام کو شروع کیا جائے گا، وکلاءکی سکیورٹی یقینی بنائی جائے گی۔ نجی ٹی وی کے مطابق جسٹس دوست محمد خان نے کہا کہ ماضی میں 2 مرتبہ آئین کو معطل کیا گیا لیکن بدقسمتی سے یہ اقدام کرنے والا واپس آیا تو کسی نے اس کے خلاف سنجیدہ آواز نہیں اٹھائی۔ ماضی میں حکمرانوں کے غلط فیصلوں نے ملک کو مشکل میں ڈال دیا، سیاستدانوں کی اکثریت نے اپنے اثاثے ظاہر ن ہیں کئے۔ حکمران سنجیدگی سے حقائق کا ادراک کریں اور بے رحمانہ احتساب کیا جائے۔جسٹس دوست محمد خان نے کہا ہے کہ عدلیہ نے جمہوریت کی بحالی اور انتخابات کے انعقاد کو ممکن بنایا ہے۔ وکلاءنے میڈیا اور سول سوسائٹی کے ساتھ ملکر آمر کو باہر نکالا اور جمہوریت کو بحال کیا۔ فاٹا کو مکمل طور پر آئین کے تحت لایا جائے، حکومت سنجیدہ نہیں، اسے حقیقت کا ادراک نہیں اسلئے معیشت تباہی کی طرف جا رہی ہے۔

ای پیپر-دی نیشن