راولپنڈی ...مسلم لیگ (ن) کا لینن گراڈ ۔۔۔ کیا کوئی جماعت سر کرے گی؟
این اے 38 راولپنڈی شہر سیٹلائٹ ٹاون پر مشتمل انتخابی حلقہ رہا ہے اس حلقہ کو راولپنڈی کی انتخابی سیاست میں اس لئے غیر معمولی اہمیت حاصل رہی ہے کہ پاکستانی سیاست کی ایک متنازعہ اور سیاسی حلقوں میں زیربحث رہنے والی شخصیت شیخ رشید احمد مسلسل کامیابی حاصل کرتے رہے ہیں جب جنرل پرویز مشرف کی چھتری تلے 342 ارکان پر مشتمل قومی اسمبلی قائم کی گئی تو اس حلقہ کو این اے 55 اور 56 میں منقسم کر دیا گیا۔ شیخ رشید احمد نے 2002 ءکے انتخابات میں آزاد امیدوار کی حیثیت سے این اے 55 اور 56 سے کامیابی حاصل کرنے کا ریکارڈ قائم کیا۔ 2002 ءکے انتخابات این اے 55 سے آزاد امیدوار کی حیثیت سے 40,649 ووٹ حاصل کر کے کامیابی حاصل کی جبکہ پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین کے آغا ریاض الاسلام 28,885 ووٹ حاصل کئے ۔ مسلم لیگ (ن) کے امیدوار سردار طارق 14,405 ووٹ حاصل کر سکے۔ اگرچہ ان کو پاکستان مسلم لیگ (ن) نے پارٹی ٹکٹ نہیں دیا لیکن وہ دونوں حلقوں سے مسلم لیگ (ن) کے کارکنوں کی مدد سے نہ صرف مسلم لیگ (ن) کے امیدواروں کو شکست دینے میں کامیاب ہو گئے بلکہ پیپلز پارٹی کو بھی شکست سے دوچار کر دیا۔ شیخ رشید احمد نے کامیابی کے بعد اپنی دو نشتسیں میاں نواز شریف کو پیش کرنے کی بجائے رات کے اندھیرے میں ان قوتوں کو مسلم لیگ (ق) میں شمولیت کا فارم بھر کر دے دیں جنہوں نے مسلم لیگ (ن) کی کوکھ سے مسلم لیگ (ق) کو جنم دیا تھا۔ شیخ رشید احمد کی سیاست کا زوال اس روز سے شروع ہوا جب انہوں نے نواز شریف سے ناطہ توڑ کر جنرل پرویز مشرف جیسے فوجی ڈکٹیٹر کو اپنا قائد بنا لیا۔ اگر شیخ صاحب جنرل مشرف کے دور میں قیدو بند کی صعوبتیں برداشت کر لیتے تو شاید آج وہ ناقابل شکست لیڈر ہوتے لیکن انہوں نے فوج کی چھتری تلے قائم ہونے والی حکومت کا حصہ بن کر اپنی سیاست کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ راقم السطور شیخ رشید احمد کو زمانہ طالب علمی سے جانتا ہوں شعلہ بیانی اور جملے بازی نے ان کو میدان سیاست میں نمایاں مقام دلوایا۔ وہ 1985 ءکے انتخابات میں شیخ غلام حسین کو شکست دیکر قومی اسمبلی تو پہنچ گئے لیکن 3 روز بعد ہونے والے پنجاب اسمبلی کے انتخابات میں چودھری مشتاق مرحوم سے شکست کھا گئے۔ انہوں نے جنرل ٹکا خان‘ آغا ریاض الاسلام‘ چودھری مشتاق اور ناہید خان کو شکست دے کر اپنے آپ کو ایک ناقابل شکست لیڈر بنا لیا۔ 2002 ءمیں آزاد امیدوار کی حیثیت سے انتخاب لڑ کر اپنی دھاک بٹھا لی۔ 1985 ء کے انتخابات میں شیخ رشید احمد نے 40,421 جبکہ شیخ غلام حسین مرحوم نے 19,636 ووٹ حاصل کئے۔ 1988 ءکے انتخابات میں شیخ رشید احمد نے آئی جے آئی کے ٹکٹ پر 73,052 ووٹ حاصل کئے جبکہ ان کے مدمقابل پیپلز پارٹی کے جنرل ٹکا خان مرحوم 57,665 ووٹ حاصل کر کے شکست کھا گئے۔ 1990 ءکے انتخابات میں شیخ رشید احمد نے 78,107 ووٹ حاصل کر کے پی ڈی اے کے امیدوار چودھری مشتاق حسین کو شکست دی۔ چودھری مشتاق حسین نے 54,701 ووٹ حاصل کئے۔ 1993 ءکے انتخابات میں شیخ رشید احمد نے مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ پر 80,758 ووٹ حاصل کر کے کامیابی حاصل کی لیکن ان کے مدمقابل پیپلز پارٹی کے آغا ریاض الاسلام 53,841 ووٹ حاصل کر سکے۔ جب تک وہ میاں نواز شریف کے کیمپ میں رہے کامیابی ان کا مقدر بنی رہی لیکن 2002 ءکے انتخابات کے بعد این اے 56 پر ان کی خالی کی ہوئی نشست پر ضمنی انتخاب ہوا تو انہیں جنرل مشرف کا ساتھ دینے پر عوام نے پہلی ناکامی“ کی سزا دی پھر وہ جس قدر مشرف کے قریب تر ہوتے گئے اتنے ہی راولپنڈی کے عوام سے دور ہوتے گئے۔ 2008 ءکے انتخابات میں 1997 ءکے انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ پر شیخ رشید احمد نے 72,183 ووٹ حاصل کر کے پیپلز پارٹی کی ناہید خان کو شکست دی۔ وہ صرف 24,714 ووٹ حاصل کر سکیں۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے پاس شیخ رشید احمد کی ”ٹکر“ کا کوئی امیدوار ہی نہیں تھا وہاں نواز شریف نے مخدوم جاوید ہاشمی کو شیخ رشید احمد کے مقابلے میں اتار دیا۔ 2007 ءمیں لال مسجد کا سانحہ ہوا تھا اس سانحہ کے 2008 ءکے انتخابات پر گہرے اثرات مرتب ہوئے گو کہ شیخ رشید احمد کا اس سانحہ سے براہ راست تعلق نہیں تھا لیکن جنرل مشرف کی حکومت کا حصہ ہونے کے ناطے ان کے سیاسی مخالفین نے ان کے خلاف اس قدر الزام تراشی کی کہ آج تک ان کا لال حویلی سے لال مسجد“ تک مسلسل تعاقب جاری ہے۔ 2008ءکے انتخابات میں مخدوم جاوید ہاشمی نے شیخ رشید احمد کی ضمانت ضبط کروا دی۔ مخدوم جاوید ہاشمی نے مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر 76,980 ووٹ حاصل کئے۔ پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین 37,397 ووٹ حاصل کر سکے جبکہ شیخ رشید احمد مسلم لیگ ق کے ٹکٹ پر صرف 15,780 ووٹ حاصل کر سکے۔ اپنی ضمانت ضبط کروا بیٹھے مخدوم جاوید ہاشمی کے استعفا کے بعد مسلم لیگ ن نے حاجی پرویز کو پارٹی ٹکٹ دیا۔ انہوں نے 25,237 ووٹ حاصل کر کے کامیابی حاصل کی۔ اعجاز خان جازی نے مسلم لیگ ن مخالف جماعتوں کے مشترکہ امیدوار کے طورپر 12,205 ووٹ حاصل کئے۔ این اے 55 پر دوسرا ضمنی انتخاب ہوا تو ملک شکیل اعوان مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر 63,888 ووٹ حاصل کر سکے جبکہ شیخ رشید احمد عوامی مسلم لیگ کے ٹکٹ پر 42,530 ووٹ حاصل کر کے شکست کھا گئے۔ مخدوم جاوید ہاشمی نے پارٹی قیادت کے فیصلے کے خلاف این اے 55 خالی کر کے مسلم لیگ ن کو ایک مشکل صورتحال سے دوچار کر دیا لیکن چودھری نثار علی خان نے حاجی پرویز کی صورت میں سیاسی خلاءپر کرنے کی کوشش کی۔ این اے 55 پر ضمنی انتخاب میں شیخ رشید احمد نے حصہ تو نہیں لیا لیکن راولپنڈی میں مسلم لیگ ن مخالف تمام سیاسی جماعتوں نے اعجاز خان جازی کی حمایت کر کے مسلم لیگ ن کے لئے مشکل صورتحال پیدا کرنے کی کوشش کی لیکن حاجی پرویز نے بآسانی کامیابی حاصل کر لی اسے حاجی پرویز کی بدقسمتی کہیئے یا کچھ اور وہ پارٹی کی انضباطی کارروائی کا شکار ہو گئے۔ پارٹی نے ”ٹرانسپرنسی“ کے نام پر ان سے استعفا لے لیا۔ اسی نشست پر دوبارہ ضمنی انتخاب ہوا تو شیخ رشید احمد موقع دیکھ کر انتخابی معرکہ میں اتر گئے اب کی بار انہوں نے مسلم لیگ مخالف (پیپلز پارٹی) سے تعاون حاصل کر کے مقابلہ کرنے کی کوشش کی لیکن میدان سیاست میں کارکن کے طورپر شہرت حاصل کرنے والے ملک شکیل اعوان کے ہاتھوں چاروں شانے چت ہو گئے۔ ملک شکیل اعوان جو کبھی شیخ رشید احمد کی راہ میں پھول نچھاور کیا کرتے تھے سارے پھول اپنے گلے میں ڈال لئے‘ دو اڑھائی سال میں ملک شکیل اعوان نے راولپنڈی کی سیاست میں اپنا مقام بنا لیا۔ متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے اس کمزور و نحیف جوان کو گرانے کے لئے سیاسی مخالفین سرگرم عمل تھے ہی لیکن اپنوں کے رویہ نے بھی ان کی سیاسی پوزیشن غیر مستحکم کر دی۔ کاغذات نامزدگی داخل ہونے سے قبل کبھی میاں شہباز شریف اور کبھی حمزہ شریف کے انتخاب میں حصہ لینے کی افواہ نے سیاسی حلقوں میں ہلچل مچائے رکھی لیکن بالآخر پارٹی قیادت نے ایک بار پھر شیخ رشید احمد کا مقابلہ کرنے کے لئے ملک شکیل اعوان کو میدان میں اتار دیا۔ پارٹی قیادت کے پاس دوسرا سخت جان لیڈر سردار نسیم خان تھا جسے این اے 55 میں شیخ رشید احمد کے مقابلے میں لانے کی بجائے این اے 55 کے ونگ پی پی 12 میں پارٹی ٹکٹ دے کر ونگ کو مضبوط کیا گیا ہے۔ پی پی 12 سے تحریک انصاف نے اعجاز خان جازی کو پارٹی ٹکٹ دے دیا ہے۔ شنید ہے انہیں شیخ رشید احمد کے اصرار پر پارٹی ٹکٹ دیا گیا ہے۔ ماضی میں شیخ رشید احمد اور محمد اعجاز جازی کبھی ایک د وسرے کے حریف اور کبھی حلیف رہے ہیں۔ سردار نسیم خان راولپنڈی میں مسلم لیگی کارکنوں میں مقبول لیڈر کی حیثیت رکھتے ہیں وہ این اے 55 سے شیخ رشید احمد کا مقابلہ کرنا چاہتے تھے لیکن پارٹی نے انہیں پی پی 12 سے انتخاب لڑایا۔ شہریار ریاض اس نشست سے پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے جبکہ حافظ عبداللہ بٹ اورشیخ ناصر بھی اس نشست سے انتخاب لڑنے میں دلچسپی رکھتے تھے۔ دونوں نے پارٹی قیادت کے فیصلے کے سامنے سرتسلیم خم کرکے کاغذات نامزدگی واپس لے لئے۔ 2008 کے ضمنی انتخاب میں شیخ رشید احمد نے پیپلزپارٹی کی خفیہ حمایت حاصل کرلی تھی لیکن اب پیپلزپارٹی نے این اے 55 سے چودھری افتخار کو پارٹی ٹکٹ دے دیا ہے جبکہ جماعت اسلامی کے ٹکٹ پر محمد حنیف چودھری قومی اسمبلی کے امیدوار ہیں۔ وہ قبل ازیں آئی جے آئی کے ٹکٹ پر پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہو چکے ہیں۔ مسلم لیگی حلقوں کا دعویٰ ہے راولپنڈی مسلم لیگ (ن) کا یقینی گڑھ ہے اسے کوئی سیاسی جماعت فتح نہیں کرسکتی۔ پیپلزپارٹی مسلم لیگ (ن) کی روایتی مخالف جماعت ہے اس کے قدآور لیڈروں نے انتخابات سے توبہ کرلی ہے تاہم دوسرے درجے کے لیڈروں نے انتخابی چیلنج کو قبول کرلیا ہے۔ شیخ رشید احمد ان مسلم لیگی لیڈروں میں شامل ہیں جن کے لئے شریف برادران نے رائے ونڈ کے دروازے نہیں کھولے انہویں نے انتخابی حکمت عملی کے تحت تحریک انصاف سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرلی ہے۔ انہوں نے ایک ایسے لیڈر کے پیروکاورں سے ووٹ حاصل کرنے کا پروگرام بنایا ہے جو ان کے ہمراہ ٹی وی ٹاک میں شیخ رشید احمد نہ بننے کی دعا کررہا ہے۔ اسے شیخ رشید احمد کی کامیاب حکمت عملی قرار دیا جاسکتا ہے کہ اس نے ماضی کے حریف کو اپنا حلیف بنا لیا ہے۔ شیخ رشید احمد اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ جہاں ان کو مسلم لیگ (ن) کے گڑھ میں مسلم لیگیوں سے مقابلہ کرنا پڑے گا وہاں انہیں ملک شکیل اعوان جیسے گلی کوچے کی سیاست کرنے والے سیاسی کارکن کی برق رفتار انتخابی مہم کا توڑ پیدا کرنا پڑے گا۔ سردار نسیم جسے چودھری نثار علی خان نے راولپنڈی میں مسلم لیگی (ن) کا چہرہ قرار دیا ہے ملک شکیل اعوان سے مل کر شیخ رشید احمد کا مقابلہ کرنے کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہیں ماضی میں شیخ رشید احمد‘ سردار نسیم اور ملک شکیل اعوان کا تعلق ایک ہی جماعت سے رہا ہے اور وہ ایک دوسرے کی کمزوریوں سے بخوبی آگاہ ہیں۔ شیخ رشید احمد نے اپنی سیاسی امداد کے لئے عمران خان کو بھی این اے 56 میں پھنسا دیا ہے اور ان کو 9 مئی 2013 کو لیاقت باغ میں آخری انتخابی جلسہ منعقد کرنے پر آمادہ کرلیا ہے۔