• news

یاراں دا یار یا عالمی احسان فراموش

یہ1998 ءکی بات ہے کہ سینیٹر جہانگیر بدر نے رابطہ کیا کہ وہ ایک ضروری معاملے میں مجھ سے ملنا چاہتے ہیں ۔پھر کسی وجہ سے ان کو سوئٹزرلینڈ کا ویزا نہ مل سکا۔تو جرمن کے شہر ”بادن بادن“تشریف لے آئے اور وہاں پہنچتے ہی انہوںنے مجھے اپنے پاس بلوایا اور مجھے محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کا پیغام پہنچایا ۔دراصل محترمہ ہی نہیں اس وقت سینیٹر آصف علی زرداری اور پوری پارٹی ہی سوئٹزرلینڈ میں چلنے والے کیسوں کی وجہ سے پریشان تھی۔ سینیٹر جہانگیر بدر نے بتایا کہ تم سوئٹزرلینڈ میں اپنے سیاسی اثر و رسوخ کو استعما ل کرو اور اس سلسلے محترمہ بے نظیر بھٹو مجھ سے جلدہی ملنا چاہتی ہیں۔کچھ دنوں کے بعد جہانگیر بدر واپس چلے گئے اور پھر پارٹی کے ایک اور سینئر رہنما محترمہ کی ہدایت پر سوئٹزرلینڈ تشریف لائے، جہاں میں نے ان کی ملاقاتیں مختلف اداروں سے کروائیں۔اور پھر کچھ معاملات طے پائے اور سینئر رہنماکے پاکستان چلے جانے کے بعد میں سوئٹزرلینڈ کی سراغ رساں ایجنسی کو لے کر پاکستان پہنچ گیا، جہاں پوری پارٹی ہماری راہ میں آنکھیں بچھائے بیٹھی تھی۔اپنے اس دورے میں ہم نے سینیٹر آصف علی زرداری پر بنائے گئے منشیات کے مقدمے کی مکمل انکوائری کی اور بعدازاں سوئس سراغ رساں ادارے نے آصف علی زرداری کو بے گناہ قرار دے دیا۔جس کا اسلام آباد کے ایک فائیوسٹار ہوٹل میں پریس کانفرنس کے لیے ذریعے اعلان کیا گیا ۔اس دوران سوئس ٹیم کے اراکین نے سینیٹر آصف علی زرداری سے سینیٹ میں انکے چیمبر اور پیشی پہ آئے ہوئے عدالت میں انکے ساتھ متعدد ملاقاتیں کیںجبکہ سینیٹر جہانگیر بدر مجھے لے کر قائدحزب اختلاف کے سینیٹ کے چیمبر میں ملوانے لے کر گئے جہاں پر سینیٹر آصف علی زرداری نے مجھے دیکھتے ہی بانہیں پھیلا کرکہاکہ ”خدا نے تمہیں میرے لیے فرشتہ بنا کر بھیجا ہے۔اب میری رہائی اور پارٹی کی عزت تمہارے ہاتھ میں ہے۔“ پھر سوئس ادارے سمیت ہماری ملاقات کراچی میں محترمہ بے نظیر بھٹو سے طے تھی۔جنہوں نے کراچی ایئر پورٹ پر ہماری آمد سے پہلے بلاول ہاﺅس کی گاڑی اور پروٹوکول بھیجا تھا۔جو ہمیں لے کر سیدھا آغا خان ہسپتال پہنچ گیا۔ محترمہ وہاں پر ہم سے ملاقات کی غرض سے داخل ہوئیں تھیں۔وہ سمجھتی تھیں کہ بلاول ہاﺅس سے زیادہ آغا خان ہسپتال کا کمرہ بہتر ہے۔ملاقات کے بعد انویسٹی گیشن کے نتائج لے کر ہم واپس سوئٹزرلینڈ آ گئے اور پھر میں نے محترمہ بے نظیر بھٹو اور سینیٹر آصف علی زرداری کو دیئے ہوئے قول کی لاج رکھنے کیلئے دن رات ایک کر دیا ۔سوئس سراغ رساں ادارے نے اپنی جان مشکل میں ڈا ل کر سینیٹر آصف علی زرداری اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی مدد کی ۔مجھے آصف علی زرداری کے وہ الفاظ یاد ہیں جو انہوں نے ادارے کے رکن مسٹر Fitze سے ہاتھ ملاتے ہوئے کہے تھے کہ ”میری نسلیں بھی آپ لوگوں کا احسان یاد رکھیں گی۔“آج مسٹر Fitze ،Gidoاور اسکے ادارے کے دیگر افراد سے جو اُن دنوں پاکستان تشریف لائے تھے ملاقات ہوئی تو انہوں نے کہا کہ ہم ”عالمی احسان فراموش “سے ایک دفعہ ضرور ملنا چاہتے ہیں اور اس سے یہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ ہمیں تم سے کوئی لالچ نہیں تھا ہم نے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر اور شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کے لیے اپنی جان خطرات میں ڈال کر تمہاری مدد کرنے کا ارادہ کیا تھا لیکن محترمہ کی شہادت کے بعد صدرِمملکت آصف علی زرداری سمیت پارٹی کے کسی فرد نے ان کا شکریہ ادا تک نہیں کیا۔
محترمہ کے ایک اور ساتھی مسٹر Remy جو کہ ایک ماہر قانون دان ہیں اور سوئس عدلیہ میں اعلیٰ افسر تعینات ہیں ۔انہوں نے آصف علی زرداری اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے لیے بے شمار خدمات سرانجام دیں اور ان کے وکلاءفاروق ایچ نائیک سمیت دیگر کی قانونی معاونت بھی کرتے رہے۔انہوں نے بھی مجھ سے ملتے ہی کہا کہ کیا سارے پاکستانی اسی طرح کے ہوتے ہیں کہ جس شخص کے لیے ہم نے دن رات ایک کرکے اسے اس مقام تک پہنچایا ہے اس شخص اور پارٹی نے کرسی¿ صدارت پر بیٹھتے ہی ہمیںبھلا دیا ہے۔میرے پاس ان یورپین شہریوں کے تیز و تند سوالات کے کوئی جوا ب نہیں لیکن میں انہیں یہ کہتا ہوں کہ سارے پاکستانی اس طرح کے نہیں ہوتے ۔میں دیکھتا ہوں تو میرا دل کڑھتا ہے کہ آج ایک وہ شخص (مخدوم شہاب الدین)جو پچھلے پانچ سال ملک کا وفاقی وزیر رہا ہے اس نے سوئس عدالت میں محترمہ بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کے حق میں بیان دینے سے معذرت کر لی تھی جس پر اس کوبہلاپھسلا کر بیان دلوایا گیا ۔جب میں محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کو امریکہ کے پینٹاگون ،سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ اور اقوام متحدہ میں ملاقاتوں کے لیے لے کر گیا تو محترمہ کی خواہش تھی کہ میں پیپلزپارٹی پارلیمنٹیرین کے چیئرمین مخدوم امین فہیم اور سیکرٹری جنرل راجہ پرویز اشرف کو بھی ان امریکن اداروں کے سربراہان اور اقوام متحدہ کے سیکرٹری سے ملواﺅںتاکہ ان کو خبرہو کہ آصف علی زرداری کی فیملی ہی نہیں پارٹی بھی ان کی رہائی اوربریت کے لیے جدوجہد کر رہی ہے۔پہلے میں ان امریکن اداروں اور اقوام متحدہ میں مخدوم امین فہیم کو لے کر گیا جبکہ چند مہینوں بعد ہی محترمہ کی ہدایت پر راجہ پرویز اشرف کو لے جانے کا پروگرام بنا۔جس کے لیے میں نے راجہ صاحب جن کے پاس امریکن ویزا موجود نہیں تھا امریکن سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ سے ان کے ویزے کے لیے سپانسرشپ منگوائی اور ویزا لگوانے کے بعد ہم نیویارک کے لیے لاہور ایئرپورٹ پر پہنچے تو راجہ پرویز اشرف صاحب نے وہاں پر ایک نیا پھڈا ڈال دیا کہنے لگے کہ میں اکانومی کلاس میں سفر نہیں کروں گا جس سے میں کافی پریشان ہوا اورعجلت میں اپنے ٹریولنگ ایجنٹ کو فون کیا جس کے ایئرپورٹ پہنچنے پر راجہ صاحب کی سیٹ اپ گریڈ کروائی گئی اور موصوف بزنس کلاس میں بیٹھے۔
آج میں ان واقعات کو یاد کرتا ہوں تو مجھے حیرت ہوتی ہے کہ وہ لوگ جو اس وقت میری ایک چھوٹی سی خوشنودی کے لیے کچھ بھی کرنے کو تیار تھے بعد میں ملک کے ایگزیکٹو عہدوں پر بیٹھنے کے بعد یہ سب کچھ کیسے بھول گئے اور صدر مملکت آصف علی زرداری نے بھی اپنے انہی وکلااور مشکل وقت میںنخرے دکھانے والوں کو نہ صرف اعلیٰ عہدوں سے نوازا بلکہ انہیں کھرب پتی بنا دیا ۔ایک دفعہ آصف علی زرداری جو اس وقت صدر مملکت بن چکے تھے لاہور گورنر ہاﺅس تشریف لائے تو رات کو ڈنر پر ہم اکٹھے ہوئے ۔صدرِ مملکت کے ساتھ ڈنر ٹیبل پر میرے علاوہ مبشر لقمان ،افتخار احمد(جیواینکر)،منوبھائی،سرور میر(اینکر)،ڈاکٹر اجمل نیازی موجود تھے ۔جہاں پر ان دوستوں کے سامنے صدرِمملکت نے کہا کہ”آج جس جگہ پر میں بیٹھا ہوں اس میں مطلوب وڑائچ کی قربانیاں ،جیلیں اور صعوبتیں بھی شامل ہیں۔“لیکن پتہ نہیں کیا بات ہے صدرِ مملکت کے اردگردایک حصار ایسا قائم کر دیا گیا ہے جو ان کو شہید محترمہ کے ساتھیوں اور خودان کے محسنوں سے ملنے سے جبرناً روکتا ہے۔لیکن صدرِ مملکت یہ یاد رکھیں کہ ان کی اپنی ”کریبلٹی“ کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ نہ وہ ساری عمر صدر رہیں گے اور مکافاتِ عمل کا سلسلہ پھر سے شروع ہوگا۔کل کو صدرِ مملکت کسی بھی اپنے محسن اور دوست کو یہ نہیں کہہ سکیں گے کہ میرا سٹاف ،میری سیکرٹری نے مجھے میرے دوستوں سے دور رکھا اورمسِ گائیڈ کیا۔کیونکہ کوئی اس بات پر یقین نہیں کرے گا اور پوری دنیا انہیں ان کے نئے نام سے جانے گی اور وہ نام ان کو ان کے دنیا بھر میں موجود دوستوں نے دیا ہے ”عالمی احسان فراموش نمبر1“۔
صدرِ مملکت آصف علی زرداری نے ان دوستوں کو جنہوں نے ان پر لگائے گئے بے شمار الزامات کو نہ صرف دھویا بلکہ ان کے قومی اور عالمی امیج کو بہتربنانے میں کلیدی کردار اداکیا۔آج یورپ اور امریکہ میں موجود میرے وہ دوست صدر مملکت آصف علی زرداری کی بے رخی کا پوچھتے ہیں ساتھ میں یہ شکوہ بھی کرتے ہیں اگر بی بی زندہ ہوتیں تو وہ بھی شاید یہ ہی کرتیں؟ میں ان دوستوں کے سامنے لاجواب سا ہو جاتا ہوں مگر انہیں یہ کہتا ہوں دوستو! ہماری بی بی شہید بڑے اعلیٰ ظرف کی مالکہ تھیں کیونکہ وہ جس عظیم باپ کی بیٹی تھیں وہ کسی کا احسان اپنے ساتھ لے کر رات کو سو ہی نہیں پاتا تھا ۔میرے ساتھ گذشتہ پانچ سالوں میں ہونے والے حادثات وواقعات کے اسباب سوچتا ہوں تو مجھے آج حضرت علی ؓ کا یہ قول بڑی شدت سے یاد آ رہا ہے کہ”ڈرو اس شخص کے شر سے کہ جس پر تم نے کبھی کوئی احسان کیا ہو۔“

ای پیپر-دی نیشن