توبہ ہے کتنا جھوٹ بولتے ہو ....
میری تو آنکھیں تھک گئی ہیں ایسی مضحکہ خیز خبریں پڑھ پڑھ کر اور کان پک گئے ہیں جھوٹ سُن سُن کر۔ ہر روز اخبارات میں ایسی خبریں اور بیانات لگے ہوتے ہیں جن کا سچ اور حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ ایسے اشتہارات لگوائے جا رہے ہیں جو جھوٹ کا پلندہ ہیں۔ ٹی وی پر ایسی تقریریں، ٹاک شوز میں گفتگو اور سیاسی اشتہار چل رہے ہیں کہ بندہ حیران رہ جائے۔ سیاستدان اس قدر ڈھٹائی سے جھوٹ بولتے ہیں کہ اعصاب جھنّا جاتے ہیں مثلاً پیپلز پارٹی آجکل بڑی شدت سے اپنی الیکشن مہم اس بنیاد پر چلا رہی ہے کہ اصل حقائق کے ذمہ دار کون ہیں؟ اس میں بجلی بحران کا ذمہ دار مسلم لیگ ن کو قرار دیا جا رہا ہے۔ حال ہی میں بلاول ہاﺅس سے یہ بیان جاری کیا گیا ہے کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے 70 لاکھ خاندانوں کو امداد دی جا رہی ہے۔ خدا گواہ ہے کہ ان 70 لاکھ خاندانوں میں سے آج تک میری کسی ایک خاندان بلکہ ایک فرد سے بھی ملاقات نہیں ہوئی جس نے کہا ہو کہ وہ بے نظیر انکم سپورٹ سے سرفراز کیا جا رہا ہے۔
پیپلز پارٹی کی کچھ خواتین نے اپنے اثاثے بڑھانے، غیر ملکی سیر سپاٹے، ٹی وی چینلز پر سج دھج کر آنے کے علاوہ کِیا کیا ہے؟ پیپلز پارٹی کہتی ہے کہ لوڈشیڈنگ کے اصل ذمہ دار ن لیگ یعنی شریف برادران ہیں۔ یہ سچ بھی ہو سکتا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ پانچ سال پڑے یہ اونگھتے رہے، نہ کالا باغ ڈیم بنایا نہ نئے منصوبے تعمیر کئے۔ راجہ پرویز اشرف اور نوید قمر جیسے لوگ موج میلہ مناتے رہے۔ انہیں تو یہ تک معلوم نہیں تھا کہ پاکستان میں کتنے میگاواٹ بجلی کی کھپت ہوتی ہے اور کتنے میگاواٹ بجلی ہوتی ہے اور کتنے میگاواٹ کی قلت کی وجہ سے قوم لوڈشیڈنگ کا شکار ہے۔ پیپلز پارٹی نے بے نظیر بھٹو شہید کی شہادت سے جیت حاصل کی اور پانچ سال حکمرانی کی لیکن رزلٹ صرف زیرو رہا۔ اس عرصہ میں پیپلز پارٹی نے صر ف نااہلیوں، کام چوریوں اور غیر ذمہ داریوں کا سکور کیا۔ سب کچھ ہاتھ میں ہوتے ہوئے بھی خالی ہاتھ رہے۔ ایک بھی وزیر ایسا نہیں تھا جس کی کارکردگی اچھی ہوتی یا کسی نے کوئی کارنامہ سرانجام دیا ہوتا۔ کسی حد تک قمرالزمان کائرہ اور مرحومہ فوزیہ وہاب بہتر تھے لیکن صرف زبانی کلامی! اب بلاول بھٹو رٹی رٹائی تقریریں کرتے ہیں اور مرحومہ بے نظیر بھٹو شہید کی تصویر ویڈیو پھر الیکشن مہم میں استعمال کر کے ہمدردی حاصل کرنے کی سعی کی جا رہی ہے۔
دوسری جانب مسلم لیگ ن ہے جو بڑے بڑے دعوے کر رہی ہے اور ایسے ایسے اشتہارات چلا رہی ہے جو حقائق سے آنکھیں چُراتے ہیں۔ مسلم لیگ ن نے پاکستان پر 25 سال سے زائد عرصہ اختیارات کا بے دریغ استعمال کیا ہے۔ میاں نواز شریف دوبار وزیراعظم اپوزیشن لیڈر، وزیر اعلیٰ، وزیر خزانہ رہے ہیں، شہباز شریف دو بار وزارتِ اعلیٰ کے مزے لوٹتے رہے ہیں اور لاہور کو پیرس اور استنبول بنانے کے دعوے کرتے رہے ہیں۔ میٹرو بس کا منصوبہ تو ایک ٹریلر جیسا ہے۔ دنیا کے تمام ترقی یافتہ ملکوں میں ہی نہیں، ترقی پذیر ممالک میں اس طرح کے جا بجا منصوبے نظر آتے ہیں۔ حیرت تو ہے اس بات پر ہوتی ہے کہ یہ سیاستدان ”حکمرانی“ کے نام پر دنیا کے تمام بڑے ملکوں کے دورے کر کے آتے ہیں لیکن انھیں وہاں کے شاندار منصوبے، تعمیراتی کام اور فلاحی ادارے نظر نہیں آتے۔ وہاں کا ٹریفک سسٹم ، جہاز، ہیلی کاپٹر، ریلیں، بسیں، گاڑیاں غرضیکہ کہ ٹرانسپورٹ کا بہترین نظام ہوتا ہے۔ اس طرح کے منصوبے ترقی یافتہ ممالک میں پچھلے سو سال سے مستعمل ہیں اور ترقی پذیر ممالک میں بھی پچھلے40 سال سے ٹرانسپورٹ کا عمدہ اور جدید نظام جاری ہے لیکن ہمارے حکمرانوں کو اب عین الیکشن سے پہلے یاد آیا ہے۔ لاہور میں چند بڑی سڑکوں کے علاوہ وہی پرانی بوسیدہ ، ٹوٹی پھوٹی خوفناک سڑکیں ہیں۔ لیکن سابق وزیر اعلیٰ کے اشتہارات دیکھ کر لگتا ہے جیسے انہوں نے لاہور کو واقعی استنبول ، پیرس یا نیویارک بنا ڈالا ہے لیکن لاہور میں جس قدر گندا ٹرانسپورٹ سسٹم ہے، اتنا شاید کسی شہر میں نہیں ہو گا جبکہ ٹرانسپورٹ پر ہی تمام تر ترقی کا دار و مدار ہے۔ اسی طرح میاں نواز شریف، شہباز شریف اور حمزہ شہباز شریف کے علاوہ علامہ اقبال کے پوز میں بنے ہوئے پورٹریٹ دیکھنے کے بعد مجھے اکثر علامہ اقبال کا خیال آتا ہے کہ عالم بالا میں ان کی روح کتنی بیقرار ہوگی۔ ہنسی اس بات پر آتی ہے کہ دونوں بھائیوں نے لاکھوں روپے ماہانہ پر اچھے چاپلوس، بے عقل مشیر پال رکھے ہیں جو میاں شہباز شریف کو پوز علامہ اقبال جیسا بنوا کر کیمرے کے آگے کھڑا کر دیتے ہیں، اشعار حبیب جالب کے یاد کرا دیتے ہیں، تقریر ذوالفقار بھٹو کے انداز کی تیار کراتے ہیں، لباس ماﺅزے تنگ جیسا، باتیں نیلسن منڈیلا جیسی اور چال اتاترک والی۔ یعنی اپنا کوئی سٹائل نہیں پیدا کیا ۔ پاکستان میں اب عوام جاہل ان پڑھ بیوقوف نہیں رہی۔ کمپیوٹر نے دنیا کو سامنے لا کر رکھ دیا ہے اور پُرلطف بات یہ ہے کہ گلوبل ویلج کے نعروں کے ساتھ لاکھوں لیپ ٹاپ شہباز شریف اور ان کی آل اولاد ساتھیوں وزیروں کے ہاتھوں تقسیم کرا دئیے۔شہباز شریف ذوالفقار بھٹو، نیلسن منڈیلا، کمال اتاترک، ماﺅزے تنگ، اقبال کو کاپی کرتے ہیں ،کوئی سٹائل ان کا اپنا یا ذاتی نہیں ہے۔ ظاہر ہے نوجوان ایسی باتوں سے بدظن ہوتے ہیں اور نقالی کو ناپسند کرتے ہیں لیکن شریف برادران کے مشیروں کا کیا کِیا جائے جو ایسی پٹیاں پڑھاتے ہیں اور جن کا وطیرہ خوشامد ہے۔ جن کی صبح کا آغاز کو رنش بجا لانے سے شرو ع ہوتا ہے۔ اسی طرح مسلم لیگ ن نے اپنی سیاست کے تین عشرے خوشامد یوں کے ٹولے میں گزار کرکوئی بڑا کارنامہ سرانجام نہیں دیا۔ ایٹمی دھماکہ خالصتاً ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا کارنامہ ہے یا مجید نظامی کی جرا¿ت رندانہ! بہرحال مسلم لیگ ن کی تاریخ بھی اچھی نہیں ہے۔ زیادہ وقت پروجیکشن نعروں دعووں سے بھرا ہوا ہے۔ کام کم اور شور زیادہ والی مثال ہے لیکن مسلم لیگ اس طرح دعوے کر رہی ہے جیسے وہ پاکستان کی کایا پلٹ دینگے حالانکہ اگر الیکشن ہوگئے اور یہ لوگ آ گئے تو آتے ہی سابقہ حکومت پر الزام تراشی شروع ہو جائے گی۔ خالی خزانے کا رونا ہو گا اور یوں پانچ سال گزر جائیں گے۔ حالات بد سے بد تر ہوجائیں گے۔ اسکے علاوہ عمران خان ہیں جنہوں نے کروڑوں روپے صرف اشتہارات اور جلسوں پر لگا دیتے ہیں۔ اسکے علاوہ جناب نے دو جہاز کرائے پر لے رکھے ہیں ۔ عمران خان کیلئے ایک بلٹ پروف ٹرالہ تیارکیا گیا ہے۔ اسکے علاوہ جو دیگر اخراجات ہیں انکا حساب لگایا جائے تو بات کہاں تک جا پہنچتی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر یہ روپیہ عمران کے پاس کہاں سے آیا؟۔
یہ تو سب جانتے ہیں کہ عمران خان 1992ءسے کوئی جاب نہیں کر رہے اور بقول ان کے وہ کوئی بزنس بھی نہیں کرتے۔ ابھی تک عمران خان کا اکیس سالہ ریکارڈ (1992ءتا2013) صرف گھومنے پھرنے، انٹرویوز دینے اورسیاسی جلسے کرنے کا رہا ہے، تینوں کاموں کیلئے آنا جانا پڑتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ وہ جس شاہانہ انداز کی زندگی بغیر نوکری کے گذار رہے ہیں۔ کیا انہوں نے کرکٹ کی پندرہ سترہ سالہ زندگی میں اتنا کما لیا ہے کہ وہ اب صرف عیش کریں وہ بھی ایک بادشاہ کی طرح؟ سوال یہ بھی ہے کہ اب یہ حال ہے تو برسر اقتدار آ کر وہ کیا کریں گے۔ لگتا ہے کرنل معمر قذافی، رضا شاہ پہلوی، حسنی مبارک، مارکوس کی یادیں تازہ کر دیں گے۔ حیرت ہے کہ وہ100 کنال کے گھر میں رہتے ہیں۔ وزیراعظم بن کر 1000 کے گھر میں رہنا چاہیں گے۔ کچھ یہی حالات الطاف حسین، مولانا فضل الرحمن اوردیگر جماعتوں کے ہیں۔ ان میں سے کسی نے بھی عوام کیلئے کچھ نہیں کیا۔ سوائے دعوے اوروعدے ۔ پاکستان میں ایک بھی لیڈر قابل اعتبار اور سچا نہیں ہے۔ یہ عوام کو صرف بہکاتے اور بھٹکاتے ہیں اور اسقدر ڈھٹائی سے جھوٹ بولتے ہیں کہ خداکی پناہ حیرت ہوتی ہے ان کی بے ضمیری اور بے شرمی پر عوام کوان سے ہوشیار رہنا چاہیے اور چکنی چیڑی باتوں میں نہیں آنا چاہیے۔