فوج کا حمایت سے گریز، مشرف نشانِ عبرت
جنرل پرویز مشرف کے فوج میں لگائے ہوئے پودے مرجھائے اور کملائے نہیں وہ بدستور مضبوط اور تناور شجر پُر بہار بنے ہوئے ہیں۔مشرف بڑے پُر امید تھے کہ ان کو کبھی خزاﺅں کا سامنانہیں کرنا پڑے گا۔ پاکستان کی سیاست میں فوج کا ہمیشہ کردار رہا ہے ،کبھی کھلا کھلا اور کبھی پس پردہ ،مشرف اسی فوج کے ۱۱ سال سربراہ رہے اور اپنے عہدے کے بل بوتے پر ہی انہوں نے ایک آئینی ،قانونی ، منتخب اور جمہوری حکومت کا تختہ اُلٹ کر اقتدار پر قبضہ جما لیا۔انہوں نے ۹ سال تک اسلامی اور جمہوری مملکت پر آمریت کے پنجے گاڑے رہے۔پاکستان کو دہشتگردی کی جنگ کا حصہ بنانے کے اہم فیصلے سے قبل انہوں نے اپنے ساتھیوں سے مشورہ کرنا بھی گوارہ نہ کیا۔لال مسجد اپریشن کی راہ چودھری شجاعت حسین جیسے جہاندیدہ سیاست دانوں نے روک دی تھی ۔تمام امور طے ہو چکے تھے ،چودھری وجاہت حسین نے لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے کئی دنوں سے بھوکے اور پیاسے محصورین کے لئے ایک سو سے زائد دیگیں تیا ر کرالی تھیںلیکن آمرانہ ذہنیت ستمگر بننے پر تلی بیٹھی تھی، مشرف نے تمام کوششوں کو سبوتاژ کر کے رکھ دیا اور وہ اپریشن کیا جس پر انسانیت بھی دہل کے رہ گئی۔جنرل مشرف کے نامہ اعمال میں بہت کچھ ہے جس کا اگلی دنیا میں تو یقینا حساب دینا ہوگا۔اب حالات ایسے ہو گئے ہیں کہ ان کو اِس دنیا میں بھی جواب دینا پڑرہا ہے ۔پاک فوج جنرل مشرف کو اپنا سربراہ تو مانتی ہے اس حوالے ان کا احترام ملحوظ رکھتی ،سکیورٹی اور پروٹوکول بھی فراہم کرتی ہے لیکن پہلی بار یہ دیکھنے میں آرہا ہے کہ اس نے اپنے سابق چیف کی بے جا حمایت نہیں کی۔میڈیا میں یہ خبریں بھی آچکی ہیں کہ فوج نے مشرف کو پاکستان آمد سے قبل آگا ہ کردیا تھا کہ مشرف کے سیاسی معاملات اور عدلیہ کی کارروائیوں سے فوج الگ رہے گی۔مشرف شائد غیر ملکی گارنٹیوں پر چلے آئے ۔مشرف کے چار میں سے ایک حلقے سے کاغذات نامزدگی مسترد ہونے سے ہی اندازہ ہوگیا تھا کہ ان کے پیچھے فوج ہے اورنہ وہ لوگ کوئی کردار ادا کرنے کے قابل ہیں جنہوں نے غیر ملکیوں کو مشرف کے تحفظ اور ان کو سیاست میں محفوظ راستہ دینے کی گارنٹی دی تھی۔یہی وجہ ہے کہ کل کا آمر آج خزاں رسیدہ پتوں کی طرح ہواﺅں کے رحم کرم پر ہے۔فوج کی طرف سے حمایت سے گریز کے باعث مشرف اقتدار پسندوں کےلئے عبرت کا سامان بن گیا ہے کہ کہاں وہ سیکڑوں گارڈوں اور گاڑیوں کی معیت میں اقتدار کے ایوانوں سے نکلا کرتا تھا کہاں آج وہ پولیس کی گاڑی میں رسواہورہاہے۔
مشرف کا پاکستان واپسی کا فیصلہ جرات مندانہ تھا۔وہ بہت بڑی سوچ بچار کے بعد ہی اپنے وطن واپس آئے۔ان کے ساتھ جو کچھ ہورہا ہے ان کو شاید اس کی امید نہیں تھی۔اب ہوسکتا ہے کہ پاکستان سے ایک بار پھر نکلنے کے لئے بےقرار ہوں۔اس حوالے سے ہمارے سامنے ذوالفقار علی بھٹو اور ریمنڈ ڈیوس کی مثالیں موجود ہیں ایک موقع پر بھٹو صاحب پاکستان چھوڑنے پر راضی نہ تھے ،پھر وہ وقت بھی آیا کہ جنرل ضیاءالحق نے لیبیا ءکے کرنل قذافی کی بات نہیں مانی جو بھٹو صاحب کو اپنے ملک لے جانا چاہتے تھے ۔متحدہ امارات کے سربراہ شیخ زید بن النہیان کو لاہور کے گورنر ہاﺅس میں عشائیہ دیا گیا وہ بھٹو کی رہائی کی بات کرنا چاہتے تھے۔جنرل ضیاءالحق نے ان کو دیگر شرکا ءسے الگ لے جاکر بتایا کہ وہ ایک قاتل کو کیسے چھوڑدیں! اس پر شیخ زید اپنے اعزاز میں دئیے عشائیے سے واک آﺅٹ کر کے چلے گئے تھے۔ریمنڈڈیوس کی رہائی میں پاکستان کی کسی پیش منظر یا پس منظر میں موجود قوت نے رکاوٹ نہیںڈالی ۔پنجاب حکومت نے البتہ اس معاملے کو سیاسی مفاد کے لئے استعمال کیا لیکن وہ رائے عامہ کو گمراہ نہ کرسکی۔ریمنڈ جس تھانے اورجیل میں رہا وہ صوبائی حکومت کے کنٹرول میں تھی ۔ایئر پورٹ تک جانے والے راستے بھی پنجاب حکومت کی جیوری ڈکشن میں آتے ہیں۔۔۔بھٹو صاحب اس لئے پھانسی چڑھ گئے کہ فوجی آمر ایسا چاہتاتھا،اس نے اندرون ملک سے کسی کی سنی نہ وہ بیرونی دباﺅ کو خاطر میں لائے ۔ خود ان کی بقا بھی اسی میں تھی کہ وہ بھٹو سے جان چھڑا لیں ورنہ ان کی اپنی جان خطرے میںہوتی ۔مشرف کو بھٹو صاحب جیسے انجام سے دوچار کرنے میں ان کے سب سے بڑے زخم خوردہ نواز شریف کو کوئی دلچسپی رہی ہے نہ پیپلز پارٹی کو کو ئی ایسا صدمہ پہنچا ہے کہ این آراو کا سہارا دینے والے کو پھانسی لگا دے۔بینظیر قتل کا مشرف پر یہ الزام ہے کہ انہوں نے محترمہ کو مناسب سیکیورٹی فراہم نہیں کی ۔فی الحال فوج اس معاملے سے لاتعلق ہے،ضروری نہیں کہ وہ ہمیشہ لاتعلق رہے۔مشرف کو عبرت کا نشان بنانے کے لئے عدلیہ بہرحال فعال ہے ۔وکلاءججوں کے خلاف مشرف کے ظالمانہ اقدامات اور اکثر عوامی حلقے لال مسجد اپریشن کے باعث مشرف کو منطقی انجام سے دوچار کرنے کے حق میں ہیں۔وکلاءکا اشتعال مشرف کی عدالتوں میں پیشیوں کے دوران ان کے دل کی آواز بن کر سامنے آچکا ہے۔میڈیا عوام کی زبان بن چکا ہے۔مشرف کے حق میں کلمہ خیر کہنے والوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے ۔مسلم لیگ ن کی قیادت نے شاید سرور پیلس والوں کو زبان دے رکھی تھی کہ مشرف کے حوالے سے بالکل خاموش رہی ۔ایک دو اینکرزکے طعنوں نے انہیں خاموشی توڑنے پر مجبور کردیا ۔یہ ایسا ہی واویلا لگتا ہے جیسا گیلانی صاحب ڈرون حملوں پر وکی لیکس کے مطابق یہ کہہ کر کرتے رہے کہ ہم شور مچاتے رہیں گے آپ اپنا کام جاری رکھیں۔
مشرف کی کھینچا تانی نگرانوں کی غیر جانبداری کی وجہ سے ہو رہی ہے۔ پی پی پی یا مسلم لیگ (ن) حکومت میں آئی تو ان پر گارنٹر ز کا زیادہ دباﺅ ہوگا۔یہ ان کی بات ماننے پر مجبورہونگے دونوں پارٹیوں کا عدالتوں کے احکامات کی فرمانبرداری کا ریکارڈ کوئی ڈکا چھپا نہیں ہے۔گزشتہ کچھ عرصے سے عدلیہ اور ن لیگ ایک دوسرے کی ڈھال بنی نظر آئیں ایسا ہی کبھی عدلیہ اور اعتزاز کے بارے میں بھی گمان کیاجاتا تھا جن میں آج بعدالمشرقین ہے۔ن لیگ کے ماضی کے کردار کی روشنی میں یہ بات واضح ہے وہ ایسی پوزیشن لینے میں زیادہ دیر نہیں لگائے گی۔مشرف ملک میں رہتے ہیں یا ان کے بیرون ملک چلے جانے کی کوئی سبیل نکل آتی ہے یہ الگ بحث ہے تاہم ان کے خلاف جو مقدمات ہیں ان کا منصفانہ ٹرائل ہونا چاہیئے۔ایک طرف مشرف کے حوالے سے فوج غیر جانبدار ہے تو دوسری طرف ان کو غیر ضروری سہولتیں بھی فراہم کی جارہی ہیں۔جو جمہوریت پسند ہیں نہ کوئی سیاسی شخصیت ،انہوں نے تو نو سال جمہوریت کو یرغمال بنائے رکھا۔ان پر نظر کرم کیوں؟۔ان کو جیل میں ہونا چاہیے جبکہ ان کو اپنے چک شہزادکے محل میں شہزادہ بنا کر ٹھہرایا گیا ہے ۔ ذوالفقار علی بھٹو،میاں نواز شریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو اڈیالہ جیل میں قید ہوسکتے ہیں تو مشرف کیوں نہیں؟
مشرف کا سب سے بڑا جرم 12 اکتوبر1999ءکو جمہوریت پر شب خون مارنا ہے۔ان پر پہلا مقدمہ آرٹیکل چھ کے تحت یہی بننا چاہئے۔ اس کیس کو نظر انداز کیا گیا تو پاکستان میں آمریت کے دروازے کبھی بند نہیں ہونگے اور مارشل لاءکے ہمیشہ کے لئے دفن ہونے کے خواب ادھورے رہ جائیں گے۔