الیکشن : فیصل آباد میں دلچسپ صورتحال‘ راجہ ریاض اور رانا ثناءپر پس پردہ ایک دوسرے کی حمایت کا الزام
فیصل آباد (انتخابی منظرنامہ:۔ احمد کمال نظامی) الیکشن 2013کے حوالے سے فیصل آباد میں بہت دلچسپ صورت حال ہے۔ فیصل آباد میں مسلم لیگی قیادت کے دو دھڑوں کی وجہ سے اکثر حلقوں میں ایسے افراد کو پارٹی ٹکٹ نہیں ملا جو نہ صرف اپنی نشست جیت سکتے تھے بلکہ ان کی وجہ سے دوسرے پارٹی امیدواروں کوبھی کامیابی حاصل ہوسکتی تھی۔ چوہدری شیر علی مسلم لیگ (ن) کے سب سے نمایاں لیڈر ہیں‘ چوہدری شیر علی چونکہ مسلم لیگ ن کی اعلیٰ قیادت کے قریبی رشتہ دارہیںلہذا وہ اکثر پارٹی ٹکٹوں کے فیصلوں پر اثر انداز ہوتے رہتے ہیں۔ اس مرتبہ این اے84 میں اپنے بیٹے چوہدری عابد شیر علی کے علاوہ پی پی 66میں اپنے دوسرے بیٹے عمران شیر علی اور اپنے ماضی کے ایک سیاسی رفیق قمرالزماں اعوان میں سے کسی کو پارٹی ٹکٹ نہیں دلوا سکے البتہ انہوںنے این اے84کے ذیلی حلقہ پی پی69کے الیکشن 2008کے فاتح ڈاکٹر خالد امتیاز بلوچ کی جگہ طاہر جمیل کو پارٹی ٹکٹ دلوا کر نہ صرف پی پی69 تحریک انصاف یا پیپلزپارٹی میں سے کسی ایک کے حوالے کرنے کا اہتمام کردیاہے بلکہ ڈاکٹر خالدامتیاز بلوچ پی پی69میں تو مسلم لیگ ن کے امیدوار طاہر جمیل سمیت دیگر امیدواروں کے مقابلے میں بھرپور انتخابی مہم چلا ہی رہے ہیں بلکہ انہوں نے این اے84میں چودھری عابدشیر علی کے مقابلے میں بھی ڈٹے رہ کر ان کی کامیابی پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ لہٰذا پی پی 69اور کسی حد تک پی پی 70میں خالد امتیاز بلوچ کا موروثی ووٹ بینک موجود ہے۔ ڈاکٹر خالد امتیاز بلوچ این اے84میں مسلم لیگ ن کے باغی امیدوار کے طورپر الیکشن لڑ رہے ہیں لیکن وہ پی پی 70میں مسلم لیگ ن کے امیدوار رانا ثناءاللہ کی حمایت کررہے ہیں‘ جس کے نتیجے میں رانا ثناءاللہ پی پی 69میں بظاہر پارٹی امیدوار طاہر جمیل کے ساتھ ہیں لیکن اندرون خانہ وہ ڈاکٹر خالدامتیاز بلوچ کے ساتھ ہیں اور چونکہ وہ چوہدری شیر علی کے مخالف دھڑے کے قائد ہیں لہذا وہ اپنے قومی اسمبلی کے امیدوار عابدشیر علی کی این اے84سے کامیابی کیلئے بالکل بھی پرعزم نہیں ہیں اور بعض حلقوں کاخیال ہے کہ انہوں نے اندرون خانہ پیپلزپارٹی کے امیدوار این اے84‘ملک اصغر علی قیصر سے بھی پی پی 70کی حد تک ووٹ لینے اور دینے کامعاہدہ کررکھاہے۔ دوسری طرف پیپلزپارٹی کے شیر محمداسلم نے ایک ہنگامی پریس کانفرنس میں پنجاب کے سینئر وزیر راجہ ریاض اور رانا ثناءاللہ خاں پر ایک دوسرے کے ساتھ ملی بھگت کاالزام لگایاہے۔ کہاجاتاہے کہ ان دونوں کے درمیان ایک دوسرے کی حمایت اور انہیں اپنے اپنے حلقوںمیں کامیاب کرانے کامعاہدہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ الیکشن 2008ءکے راجہ ریاض احمد کے انتخابی حریف رانا بشارت منج جو مسلم لیگ ن کے پارٹی ٹکٹ کے اس مرتبہ بھی امیدوار تھے۔انہوں نے اپنے کاغذات نامزدگی واپس نہیں لئے اور ان کے انتخابی عمل میں موجود رہنے سے مسلم لیگ ن کاووٹ بینک ان کے اور الیاس انصاری کے درمیان تقسیم ہورہاہے۔ شیر محمداسلم کو پیپلزپارٹی نے این اے85کے ذیلی حلقہ پی پی 72سے پارٹی ٹکٹ دیاتھا جس کے لئے انہوں نے الزام لگایا ہے کہ راجہ ریاض احمد نے ان کی جگہ نازیہ شکیل کو پارٹی ٹکٹ دلوا دیا ہے۔فیصل آباد میں ایک دلچسپ صورتحال این اے85میں سابق وفاقی وزیر راجہ نادر پرویز کے تحریک انصاف کے امیدوار بریگیڈیئر (ر) چوہدری ممتاز اقبال کاہلوں کی انتخابی مہم میں اترنے پر پیدا ہوگئی ہے۔ راجہ نادر پرویز نے اگر بریگیڈیئر(ر) ممتاز اقبال کاہلوں کو این اے85سے کامیاب کرانے کافیصلہ کرلیاتو حاجی اکرم انصاری الیکشن 2013میں پارلیمانی سیاست سے باہر ہوجائیں گے۔