نئے جوڑ توڑ سے سیاسی منظرنامہ بدل گیا
میاں ارشادالحق
قومی اسمبلی حلقہ 156 خانیوال میں مسلم لیگ (ن)‘ مسلم لیگ (ق) اور تحریک انصاف‘ جماعت اسلامی‘ جمعیت عملاءاسلام کے امیدوار ایک دوسرے کے مقابلہ میں سامنے آ چکے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے پاس اس حلقہ میں کوئی امیدوار سامنے نہیں آ رہا ہے۔ اس سے قبل سید فخر امام نے پیپلز پارٹی کے پلیٹ فارم سے الیکشن لڑا مگر اس بار وہ آخری وقتوں میں مسلم لیگ (ن) میں شامل ہو گئے۔ اس حلقہ میں اب اصل مقابلہ جو ظاہری طور پر سامنے آ رہا ہے کچھ اس طرح سے ہے مسلم لیگ (ن) نے اس حلقہ سے اب ٹکٹ سید فخر امام سابق سپیکر قومی اسمبلی جو سید گروپ کے سرکردہ راہنما ہیں جن کا پچھلے دور میں ملتان کی سیاست میں کافی عمل دخل رہا اب وہ کبیروالا قتال پور قومی حلقہ 156 سے الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔ ان کا مقابلہ ہراج گروپ ق لیگ کے رضا حیات ہراج جو سابقہ ایم این اے ہیں ان سے ہو گا۔ مگر یہاں صورت حال جو سامنے آ رہی ہے 2008ءکے انتخاب میں این اے 156 سے مسلم لیگ (ن) کی ٹکٹ پر الیکشن سید فخر امام کے کزن ڈاکٹر سید خاور علی شاہ نے لڑا۔ ان کی مسلم لیگ ن کے لئے بے حد قربانیاں ہیں۔ وہ دس سال تک میاں برادران کے ساتھ برے وقت میں ساتھ کھڑے رہے۔ انہیں ملک بدر کیا گیا مگر ساتھ نہ چھوڑا اور مسلم لیگ کو فعال کرنے میں اس حلقہ میں انکا واضح کردار ہے۔ اب انہیں ٹکٹ نہیں ملا تو وہ اپنی جگہ پر ڈٹ چکے ہیں ان کا کہنا ہے کہ اس صورت میں اس حلقہ سے آزاد یا تحریک انصاف سے الیکشن دوستوں کے مشورے سے لڑیں گے۔ ان کے آپس صلح کے امکانات بھی نظر نہیں آتے۔
اس حلقہ کی دو صوبائی اسمبلی کی سیٹوں حلقہ 212 پر بھی ڈاکٹر خاور علی شاہ الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) سے اس حلقہ میں پیر مختار شاہ الیکشن لڑ رہے ہیں۔ انہوں نے پیپلز پارٹی کو خیر باد کہہ کر (ن) لیگ میں شمولیت اختیار کر لی ہے اس طرح سے قومی اور صوبائی حلقوں سے پیپلز پارٹی کا الکشن سے قبل ہی صفایا ہو چکا ہے۔ صوبائی حلقہ 213 کبیروالا مسلم لیگ (ن) سے رانا عرفان محمود الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں اور انہیں پارٹی ٹکٹ بھی مل چکا ہے۔ شہباز سیال قومی اسمبلی کی سیٹ چھوڑ کر صوبائی اسمبلی حلقہ 213 سے الیکشن لڑیں گے اور انہیں مسلم لیگ (ن) کے مظفر محمود سیال جو ان کے کزن ہیں انکی حمایت کریں گے۔ اس طرح سے دونوں صوبائی حلقوں اور قومی اسمبلی حلقہ 156 کا سیاسی منظر نامہ تبدیل ہو چکا ہے۔ اس سیاسی تبدیلی کے دوررس نتائج سامنے آنے کی توقع کی جا سکتی ہے۔ اب نئے سرے سے سیاسی جوڑ توڑ گٹھ جوڑ شروع ہو چکے ہیں۔ ان حلقوں میں اب دلچسپ مقابلوں کا امکان ہے۔ مگر مقابلہ سخت اور خوب میدان لگنے کے امکانات واضح ہو چکے ہیں۔ قبل از وقت یصلہ دینا ممکن نہ ہو سکا۔
قومی اسمبلی حلقہ 157 خانیوال اس حلقہ میں مسلم لیگ (ن) کے محمد خان ڈاہا امیدوار ہیں۔ ان کا تعلق ڈاہا گروپ سے ہے جو پرانا اور بڑا گروپ ہے۔ ان کی وفاداریاں شروع دن سے مسلم لیگ ن سے چلی آ رہی ہیں۔ مشکل حالات میں حاجی عرفان احمد خان ڈاہا سابق صوبائی وزیر ٹرانسپورٹ میاں برادران کے مشکل وقتوں میں ساتھی رہے۔ ساتھ نہ چھوڑا اور ڈٹے رہے۔ اب اچھا وقت ن لگ پر آیا تو بھی انہیں یاد رکھا اور ان کے بیٹے محمد خان ڈاہا کو پارٹی ٹکٹ جاری کر دیا۔ اس حلقہ میں ان کا مقابلہ ق لیگ ہراج گروپ سردار حامد یار ہراج سابق ایم این اے سے ہے جو گزشتہ 12 سالوں سے برسر اقتدار چلے آ رہے ہیں مقابلہ سخت ہو گا مگر دوسری جانب خانیوال شہر شروع دم سے مسلم لیگ (ن) کا گڑھ ثابت ہوا۔ ہر دور میں ن لیگ کو 12 سے 15 ہزار کی شہر کی6 یونین کونسلوں سے برتری حاصل رہی جو اس بار بھی قائم رہے گی۔ ویےس تو سیاسی سماجی حلقے کہہ رہے ہیں اس بار برتری میں اضافہ ہو گا۔ باہر دیہاتوں میں مقابلہ سخت ہونے کے امکانات ہیں۔ اس حلقہ میں پی پی کا امیدوار نہیں۔ اس حلقہ سے تحریک انصاف کے کرنل عابد محمود کو ٹکٹ جاری ہو چکا ہے۔ وہ فوج سے ریٹائر ہو کر پہلی بار عملی سیاست میں قدم رکھ چکے ہیں۔ کھگہ برادری سے تعلق رکھتے ہیں۔ یونین کونسل بھیرو وال سے انکا تعلق ہے ان کے چھوٹے بھائی بھیرو وال یونین کونسل طاہر محمود شاہ کھگہ سابق ناظم رہے ہیں۔ سہیل سکندر خان ڈاہا نے اپنے کاغذات نامزدگی واپس لے لئے ہیں۔ جماعت اسلامی کے چوہدری عزیز لطیف حلقہ 157 سے امیدوار نامزد ہوئے ہیں۔ فعال اور رابطہ مہم جاری رکھے ہوئے ہیں۔ جمعیت علماءاسلام مجیب بندیشہ ہیں‘ دینی محاذ سے
صوبائی اسمبلی حلقہ 214 خانیوال شہر مضافات پر مشتمل ہے اس حلقے سے مسلم لیگ (ن) کٹ ٹکٹ نشاط احمد خان ڈاہا سابق ایم پی اے کو مل چکا ہے جو دو بار تحصیل ناظم اور چیئرمین بلدیہ بھی رہ چکے ہیں الیکشن لڑنے کے ماہر ہیں۔ جوڑ توڑ کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ جیسے کہ پہلے بھی ذکر ہو چکا ہے (ن) لیگ کو شہر سے واضح برتری حاصل ہوتی ہے۔ ان کے علاوہ ن لیگ سے رانا عبدالرحمان خان ڈاہا‘ را¶ عبدالغفار خان سابق چیئرمین بلدیہ امیدوار ہیں جن کے کھڑے رہنے سے ووٹ تقسیم ہونے کے امکانات ہو سکتے ہیں۔ آیا ٹکٹ جاری ہونے کے بعد یہ حضرات آزاد حیثیت میں الیکشن لڑنا پسند کریں گے یا پارٹی قیادت کے فیصلہ پر پابند ہونگے اس کا فیصلہ ہونے پر صورتحال واضح ہو گی۔ ڈاکٹر شفیق الرحمان کمبوہ بھی آزاد امیدوار ہیں۔ ان کا تعلق بھی ن لیگ سے ہے۔ کمبوہ برادری کا حلقہ میں ووٹ بنک ہے ان کے کام کی رفتار بھی تیز رفتاری سے جاری ہے۔ ووٹ تقسیم ہونے کے واضح امکانات نظر آتے ہیں۔ تحریک انصاف سے مہر عمران پرویز دھول کوٹکٹ جاری ہو چکا ہے۔ ان کا تعلق ہراج گروپ ق لگ سے تھا وہ علیحدگی اختیار کر چکے ہیں۔ وہ بھی الیکشن مہم کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ق لیگ ہراج گروپ کی جانب سے رانا محمد سلیم امیدوار ہیں جو انتخابی مہم میں تیز رفتاری سے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ شہر بھر میں انکے پوسٹر بے حد نمایاں نظر آ رہے ہیں۔ انتخابی آفس دن رات کھلا ہے۔ اخراجات کی بھرمار ہے۔ مہمان نوازی جاری ہے۔ شہر اور حلقہ کے دورے جاری ہیں۔ جماعت اسلامی سے صوبائی امیدوار چوہدری عزیز لطیف سامنے ہیں مگر اطلاع ملی ہے کہ وہ قومی اسمبلی پر ہی الیکشن میں حصہ لیں گے اور صوبائی چھوڑ کر کسی امیدوار کی حمایت کریں گے تاکہ قومی سیٹ پر حمایت حاصل کی جائے۔ صوبائی حلقہ 214 پر مقابلہ دلچسپ رہے گا۔
صوبائی اسمبلی حلقہ 215 پر ن لیگ کا ٹکٹ چوہدری فضل الرحمان کو مل چکا ہے۔ اس سیٹ پر ن لیگ سے پیر حسنین شاہ بھی امیدوار تھے اب کیا وہ آزاد یا کسی اور پارٹی سے الیکشن لڑیں گے۔ ق لیگ سے ہراج گروپ کے سربراہ سردار احمد یار ہراج الیکشن لڑ رہے ہیں جو ضلع ناظم اور ضلعی چیئرمین رہ چکے ہیں۔ اس حلقہ میں مقابلہ بے حد سخت ہونے کے امکانات نظر آتے ہیں۔ عورام کی رائے کا کچھ کہنا قبل از وقت ہو گا۔ تحریک انصاف سے احمد حسین بندیشہ امیدوار ہیں۔ جماعت اسلامی سے مہر نصراللہ نکیانہ نامزد ہیں۔ 11 مئی کو عوام کی رائے لی جانی ہے۔ ملک کی سابق روایت جو چلی آ رہی ہے جدھر کی ہوا ادھر کو چلو۔ مسلم لیگ ن کا ملک بھر اور حلقے میں چرچا عام ہے۔ عوام کی سوچ کو کوئی نہیں سمجھ سکتا کس کے حق میں رائے دیتے ہیں؟