• news

انتخابات اور خلق خدا

دسمبر1970ءکے انتخابات میں مغربی پاکستان میں پیپلزپارٹی نے اکثریت حاصل کی تو روزنامہ آزاد نے سرخی شائع کی”اب راج کرے گی خلق خدا-- عوام نے سوشلزم کے حق میں فیصلہ دے دیا“۔
43 برسوں میں پیپلزپارٹی کی حکومت چار مرتبہ اقتدار میں رہی۔ اس دوران میں مسلم لیگ (ن) اور فوجی حکومتیں بھی رہیں۔ کیا کبھی خلق خدا کا راج رہا یا صرف جاگیرداروں، سرمایہ داروں، صنعت کاروں اور خاکی وردی والوں کا راج رہا۔ یہی سوال سعید آسی نے پوچھا ہے ”کب راج کرے گی خلق خدا؟“ یہ انکے کالموں کا انتخاب ہے جو حال ہی میں شائع ہوا ہے۔ معاذ ہاشمی نے کتاب کے ابتدائیہ میں لکھا ہے”بھٹو صاحب سے لے کر اب تک یہ نعرہ یا جملہ بلند کرنے والے گو اپنے دعویٰ کے بعد یا بعد از بعد خود ہی کو خلق خدا سمجھ کر راج کرتے رہے، دنیا سے چلے گئے، کچھ موجود ہیں اور کچھ اس کو اپنے نام کرنے کی تیاری پکڑ رہے ہیں۔ میں نے سعید آسی کی پکار سنی تو ٹھہر سا گیا ....”کب راج کرے گی خلق خدا؟“ آخر میں وہ لکھتے ہیں کہ سعید آسی درویش ہے اور اسکی زندگی ہی میں انشاءاللہ اس کی خواہش پوری ہو گی اور خلق خدا ہی راج کرے گی“۔
معاذ ہاشمی کی دعا کے ساتھ میں اپنی دعا کو بھی شامل کر لیتا ہوں کہ اللہ کرے وہ وقت اور انقلاب میری اور سعید آسی کی زندگی میں ضرور آئے۔
سعید آسی کے کالم ملک کے مسائل اور اردگرد کے حالات کی عکاسی کرتے ہیں۔ ان مسائل کا علاج کون کریگا۔ جب صحیح معنوں میں خلق خدا راج کریگی۔ ہاشمی صاحب نے سعید آسی کو درویش لکھا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ وہ درویش کے ساتھ ساتھ قلندر بھی ہیں۔ انکے کالم پڑھ کر آپ سعید آسی کی قلندرانہ شان کا اندازہ کر سکتے ہیں۔
جب میں کالج کا سٹوڈنٹ تھا تو چھٹی کے روز حضوری باغ چلا جاتا۔ وہاں مختلف ٹولیوں نے ڈیرا جمایا ہوتا۔ کوئی ہیر وارث شاہ سنا رہا ہوتا اور کوئی دیگر صوفی شاعروں کا کلام، علامہ اقبال کے مزار کے قریب چند لوگ بیٹھے ہوتے۔ ان میں سے ایک کلام اقبال ترنم سے پڑھتا دوسرا شخص ازاں بعد تشریح کرتا۔ میں نے اس محفل میں بیٹھنا شروع کر دیا۔ پتہ چلا کہ انہوں نے مجلس قلندران اقبالؒ بنائی ہے۔ اس مجلس کے تحت یہ ہر اتوار کو یہاں جمع ہوتے ہیں۔ وہ اپنے آپ کو اقبالؒ کے قلندر کہتے تھے۔
سعید آسی بھی اقبالؒ کے قلندر ہیں تبھی تو وہ اتنی جرا¿ت سے اور بلاخوف و خطر کالم لکھتے ہیں۔ قارئین کو یاد ہو گا کہ 27 جنوری 2011ءکو قرطبہ چوک مزنگ چونگی لاہور کے قریب ایک امریکی باشندہ ریمنڈ ڈیوس نے دو افراد کو ہلاک کر دیا۔ امریکی سفارت خانے نے فوری طور پر اس کی رہائی کا مطالبہ کیا چنانچہ 33 دن حراست کے بعد 16 مارچ 2011ءکو اسے امریکہ بھیج دیا گیا۔
سعید آسی صاحب کی اس کتاب کے شروع میں پانچ چھ کالم اسی موضوع پر ہیں۔ وہ پوچھتے ہیں کہ ریمنڈ کو امریکہ بھیج دیا گیا مگر پاکستان کی ایک نہتی، معصوم اور کمزور لڑکی، ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو کیوں رہا نہیں کیا جا رہا؟
سعید آسی نے عوام کے دکھوں، مسائل، غربت، بھوک، مہنگائی، بے روز گاری اور توانائی کے بحران کا ذکر کیا ہے۔ یہ کالم 2009ءسے 2011ءکے وسط تک لکھے گئے مگر آج بھی ترو تازہ ہیں۔ صحافت کے علاوہ سعید آسی کی سماجی خدمات بھی ہیں وہ سبزہ زار ویلفیئر سوسائٹی (رجسٹرڈ) کے صدر ہیومن رائٹس کمشن (حکومت پنجاب) اور جیل اینڈ ہاسپٹلز ریفارمز کمیٹی (لاہور ہائی کورٹ) کے ممبر ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے کالموں میں انسان دوستی پائی جاتی ہے۔
روزنامہ نوائے وقت میں گزشتہ 32 برسوں سے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ وہ اہم عہدوں پر فائز رہے اور آج کل ڈپٹی ایڈیٹر ہیں اپنی سیٹ اور کالموں سے انہوں نے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا ۔ قناعت پسند ہیں۔
میں نے ایک مرتبہ سعید آسی صاحب سے دریافت کیا کہ آپ کے پاس کونسے ماڈل کی کار ہے؟ فرمایا....
میں تو رکشے میں سفر کرتا ہوں.... سعید آسی صاحب سے میرا تعلق 1976ءسے ہے۔ گویا میں 40 برسوں سے ان کی شاعری اور نثر کا قاری ہوں۔
قرآن کریم میں سعید، شقی کے مقابلہ میں آیا ہے یعنی سعید وہ ہے جسے قانون خداوندی کی رفاقت نصیب ہو جائے۔ علامہ اقبال کے الفاظ میں....
تیرے مقام کو انجم شناس کیا سمجھے
کہ خاکِ زندہ ہے تو تابع ستارہ نہیں
سعید آسی صاحب کو یہ سعادت حاصل ہے کہ اب تک وہ دو ہزار سے زیادہ کالم اور ایک ہزار سے زیادہ سیاسی ڈائریاں لکھ چکے ہیں۔
سعید آسی ملکی اور سیاسی حالات سے مایوس نہیں۔ انہوں نے تخلص ”آسی“‘ یونہی نہیں رکھ لیا۔ وہ آس وند ہے۔ ناامید اور مایوس نہیں۔ انہیں امید ہے کہ ان کی آس پوری ہو گی اور خلق خدا کا راج ہو گا۔
آسی صاحب نے کتاب کا انتساب آبروئے صحافت جناب مجید نظامی کے نام کیا ہے کہ جنہوں نے انہیں قلم تھا منے، سچ کہنے اور سچ پر قائم رہنے کا شعور، چلن اور سلیقہ دیا۔
مجید نظامی صاحب کے بارے میں میرا ایک شعر ہے
قائم رکھا وقار صحافت کا ملک میں
روح رواں ہیں وقت کی آواز کے مجید
احمد ندیم قاسمی کے ان دعائیہ اشعار پر بات ختم کرتا ہوں
خداکرے کہ مری ارض پاک پر اترے
وہ فصل گل جسے اندیشہ¿ زوال نہ ہو
خدا کرے کہ مرے اک بھی ہم وطن کے لئے
حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو

ای پیپر-دی نیشن