نگران وزیر اعلیٰ نجم سیٹھی صاحب سے ایک تخیلاتی انٹرویو!
سوال۔ ایک صحافی کا وزیر اعلیٰ پنجاب بن جانا بہت بڑی بات ہے ۔ اس سے صحافی برادری میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے۔ یقینا سب نے آپکو فردا ً فرداً مبارک باد دی ہوگی۔
جواب۔ جی ہاں! یہ الگ بات ہے کہ اس میں مُحبت کے پُھول کم اور رقابت کے خارزیادہ تھے۔
سوال۔ وجہ۔؟
جواب۔ ایک اقلیم میں دوبادشاہ تو رہ سکتے ہیں لیکن تنگنا ئے صحافت میں دو صحافی سمانے مشکل ہو جاتے ہیں۔ قلم کی کاٹ تلوار کی دھار سے زیادہ تیز ہوتی ہے۔ اب کیا بتاﺅں۔ پنبہ کَجا کَجا نہم!
سوال۔ شاید یہ وجہ تو نہیں کہ آپ نے صحافت میں دوست کم اور دُشمن زیادہ بنائے ہیں۔
جواب۔ اُس کی وجہ میری صاف گوئی ہے جسے حاسددُریدہ دہنی کہتے ہیں۔
سوال۔ آپ نے حالیہ ٹاک شو میں حضرت قائداعظم کے متعلق جن خیالات کا اظہار فرمایا تھا اس سے سارے مُلک میں احتجاج کی لہر اُٹھی تھی۔ حیران کُن بات ہے کہ قائد اعظم کی وارث ہونے والی پارٹی نے آپکو منتخب کیا ہے؟
جواب۔ میں نے قائد ا عظم کا ذکر کیا تھا۔ قائد اعظم ثانی کے متعلق تو ہر زہ سرائی نہیں کی تھی۔!ہا۔ ہا۔ ہا۔
سوال۔ پنجاب کی وزارت علیہ پھولوں کی سیج نہیں بلکہ کانٹوں کا بستر ہے۔ دو ماہ کیلئے گناہ بے لذّت چہ معنی دارد؟
جواب۔ یار اب اتنے بھولے بھی نہ بنو۔ سابقہ کا لاحقہ تو تازیست رہے گا۔ اگر میاں برادری اقتدار سے ہٹ کر بھی سینکڑوں کمانڈوز اور لاتعداد سرکاری گاڑیاں اپنی حفاظت کیلئے رکھ سکتے ہیں تو میرے حصّے میں بھی کُچھ نہ کُچھ تو آئیگا۔
سوال۔ اسی وجہ سے آپ نے مراعات واپس نہیں لیں!
جواب۔ کیا تم میاں صاحبان کے مزاج سے واقف نہیں ہو؟ کیوں میرا بڑھاپا خراب کرنے پر تُلے ہو۔
سوال۔ میاں شہباز شریف وزیراعلیٰ کی بجائے اپنے آپکو خادم اعلیٰ کہلوانا زیادہ پسند کرتے تھے۔ آپ کونسا ٹائٹل اختیار کرنا چائیں گے!
جواب۔ نجم ّ الدولہ!
سوال۔ میاں صاحب پانچ برس تک اپنے پرائیویٹ گھر میں رہے۔ آپ نے آتے ہی 7 کلب روڑ پر دھاوا بول دیا ہے۔ اِس قلیل مدت کیلئے نقل مکانی کی ضرورت کیوں پیش آتی۔
جواب۔ میاں صاحب کے محلات تو لاہور تا لندن پھیلے ہوئے ہیں۔ میرا تو بس ایک ہی گھر ہے۔ سوچا اُسکی کسی طور نوک پلک سنور جائے تو کیا حرج ہے!
سوال۔ آپ نے آتے ہی سابقہ حکومت کے کنٹریکٹ افسروں کو یک بینی و دوگوش کیا اس سے ایک کمزور وزیراعلیٰ کا تاثر قائم نہیں ہوتا۔
جواب۔ خیال ِ خاطر احباب چاہئے ہر دم
انیس ٹھیس نہ لگ جائے آبگینوں کو
سوال۔ آپ نے کہا ہے کہ عبوری حکومت کی مُدت دو ماہ سے بڑھ گئی تو آپ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر واپس چلے جائینگے۔
جواب۔ ضرور! اگر کسی نے واپس جانے دیا تو۔!
سوال۔ آپکی چڑیا کے چرچے چار سُو ہیں۔ سچ سچ بتائیں آپکو بام عروج تک پہنچانے کا محرک یہ چڑیا ہے یا کوئی جادو کی چھڑی ہے جو عام آدمی کو نظر نہیں آئی۔
جواب۔ کیا تم نے سارا سچ مُجھ سے ہی اگلوانا ہے!
سوال۔ نگران وزیراعظم کھوسو صاحب عمر ے کا سوچ رہے ہیں۔ کیا آپ کے دل میں بھی اس قسم کی نیکی کمانے کا خیال آیا ہے؟
جواب۔ وزیراعظم کے پاس تو سرکاری جہازوں کا بیڑا ہے۔ وزیراعلیٰ کا جہاز تو لاہور سے پنڈی جائے تو بھی اس کی رگیں تن جاتی ہیں اور سانس پھولنے لگتی ہے۔ اک عجیب رشتہ ہے عبارت اور آسائش میں!
سوال۔ کیا آپکو علم ہے کہ سرکاری افسروں اور اہلکاروں کی پوری پلٹن شام کو کس کے درِ دولت پر حاضری دیتی ہے اور ازاراہ تمسخر آپکو چراغِ سحری کہتی ہے۔
جواب۔ IGNORANCE IS A BLISS، اگر مجھے بغیر بارود کا کارتوس بھی کہہ دیں تو میری صحت پر کیا اثر پڑتا ہے!
سوال۔ آپ کے شب و روز کیسے گذررہے ہیں۔
جواب۔ ہر روز روز عید، ہر شب شب برات۔
سوال۔ سُنا ہے کسی صحافی خاتون نے آپ کا بڑھتا ہوا ہاتھ جھٹک دیا تھا۔ اُس نے ہاتھ ملانے سے انکار کر دیا۔ یقیناً آپ نے بڑی سَبکی محسوس کی ہوگی!
جواب۔ دراصل میں اُس سے ہاتھ ملانا نہیں بلکہ اُس کا ہاتھ دیکھنا چاہتا تھا۔ شاید انہیںمعلوم نہیں کہ میں علم نجوم میں بھی شُد بُد رکھتا ہوں۔ اُس کے ہاتھ کی دیکھاوی میں بھی وزارت نظر آتی تھی۔ بدقسمت تھی بے چاری! وزارت اطلاعات اُسکی دہلیز پر دستک دے کر گذر گئی!
سوال۔ بطور وزیراعلیٰ آپکو بے شمار تقریبات میں تقریریں کرنا ہونگی میاں شہباز شریف کی کی مقبولیت کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ وہ اپنی تقریروں کو خوبصورت شعروں سے مزیّن کرتے تھے۔ خاص طور چند پسندیدہ شعروں کو تو بلامبالغہ ہزار بار پڑھا ہوگا کیا اس سلسلے میں آپ نے بھی کسی ثقہ شاعرکی خدمات حاصل کی ہیں۔
جواب۔ کیا اس قسم کے خُبث ِ باطن کا اظہار ضروری ہے۔ اپنے آپ پہ رحم کھا¶! اب میاں صاحب کے واپس آنے میں دن ہی کتنے رہ گئے ہیں۔ دیکھ لینا ! وہی پنجاب ہو گا۔ وہی شیر کی دھاڑ ہو گی۔ وہی ہل من مبارز کی صدائیں بلند ہونگی وہ ہی لرزہ براندام مخالفین ہونگے۔ کانپے ہے مُرغ ِ قبلہ نما آشیانے میں۔