مشرف نے ایمرجنسی شوکت عزیز کے ٹاپ سیکرٹ خط پر لگائی‘ غداری کا مقدمہ درج نہیں: وکیل
اسلام آباد (این این آئی + ثناءنیوز + نوائے وقت نیوز) سپریم کورٹ میں غداری کیس کی سماعت کے موقع پر پرویز مشرف کے وکیل نے بینچ کے سربراہ جسٹس جواد ایس خواجہ پر عدم اعتماد کا اظہارکرتے ہوئے کہاہے کہ کیس میں فل کورٹ بنائی جائے ¾کسی بھی جگہ غداری کا مقدمہ درج نہیں ہوا، وزارت داخلہ شکایت درج کروائے گی تو وزارت قانون خصوصی عدالت بنا دے گی جبکہ جسٹس جوادایس خواجہ نے کہا ہے کہ مقدمے کو لوگ اہم بناتے ہیں، عدالت کی نظر میں صرف مقدمہ ہی ہوتا ہے۔ منگل کو سپریم کورٹ کے جج مسٹر جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سپریم کورٹ میں کیس کی سماعت کی۔ دوران سماعت پرویز مشرف کے وکیل ابراہیم ستی نے کہا کہ ابھی تک کسی بھی جگہ غداری کا مقدمہ درج نہیں ہوا، وزارت داخلہ جب شکایت درج کروائے گی تو وزارت قانون خصوصی عدالت بنا دے گی، سپریم کورٹ کا اختیار وہی ہے جو آئین نے اسے دے رکھا ہے جس پر جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ مقدمے کو لوگ اہم بناتے ہیں عدالت کی نظر میں صرف مقدمہ ہی ہوتا ہے۔ ابراہیم ستی نے کہا کہ میرے م¶کل کو جسٹس جواد ایس خواجہ پر اعتراض ہے چیف جسٹس تو فل کورٹ یا لارجر بنچ بنانے کی درخواست مسترد کر چکے ہیں اس لئے ہم چاہتے ہیں کہ عدالت چیف جسٹس کو مقدمے کی سماعت کےلئے فل کورٹ بنانے کا کہے۔ اس موقع پر پرویز مشرف کے دوسرے وکیل احمد رضا قصوری نے کہا کہ اپنے م¶کل کے تحفظات کا اظہار کر کے ناخوشگوار فریضہ ادا کر رہا ہوں جس پر جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ آپ نے اپنا فرض ادا کرنا ہے ناخوشگوار والی کیا بات ہے۔ ابراہیم ستی نے کہا کہ چیف جسٹس نے سپریم جوڈیشل کونسل کے تین ممبروں پر جانبداری کا الزام عائد کیا تھا ،اس مقدمے میں جو دلائل چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے دیئے میرے موکل نے بھی وہی دلائل اپنا لئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 2007ءسے پہلے پرویز مشرف اور چیف جسٹس میں بہت اچھے تعلقات تھے۔ وکیل پرویز مشرف نے کہا کہ 3 نومبر کے اقدام کی جسٹس عبدالحمید ڈوگر کی سربراہی میں لارجر بنچ نے توثیق کی اور ایمرجنسی لگانے کا فیصلہ سابق وزیراعظم شوکت عزیزکے ٹاپ سیکرٹ خط پرکیا گیا جنرل یحییٰ اور ضیا الحق کیخلاف بھی اسی طرح کا کیس بنتا ہے جبکہ 31 جولائی 2009ءکے فیصلے سے اس فیصلہ کو بدل دیا گیا۔ جسٹس خلجی عارف حسین نے کہا کہ آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ جب آئین توڑا جائے تو عدالت اور پارلیمنٹ اس پر توثیق کی مہر لگا دے۔ کیا ہر حکومت کیلئے ضروری ہے کہ ماضی کے غلط کاموں کا بھی دفاع کیا جائے؟ ابراہیم ستی نے کہا کہ سپریم کورٹ پرویز مشرف کو غداری کا ملزم سمجھتی تو مختصر حکم میں ذکر کرتی۔ پرویز مشرف کے وکیل نے کہا کہ پرویز مشرف کا نام ای سی ایل میں ڈالنا بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ پرویز مشرف کی والدہ شدید بیمار ہیں، انہیں دبئی جانا پڑ سکتا ہے جس پر جسٹس خلجی عارف حسین نے کہا کہ اگر پرویز مشرف کو دبئی جانا ضروری ہو تو درخواست دائر کر دیں، غور کریں گے۔ دوران سماعت کمرہ عدالت میں دلائل کے دوران مداخلت پر ابراہیم ستی نے ساتھی وکیل احمد رضا قصوری کو جھاڑ دیا۔ ابراہیم ستی نے کہا کہ وہ قانونی نکات پر بات کر رہے ہیں مداخلت نہ کریں۔ ابراہیم ستی نے کہا کہ ابھی سنگین غداری کے مقدمہ کا نام و نشان تک موجود نہیں اور اسی حوالہ سے یہ تاثر کہ ٹرائل کورٹ کیوں تشکیل نہیں دی گئی، یہ درست نہیں ہے۔ ٹرائل کورٹ صرف اسی صورت تشکیل دی جائے گی جب غداری کے مقدمہ کے حوالہ سے شکایت موصول ہو گی اس کے بعد یہ مرحلہ شروع ہو گا۔ ابراہیم ستی کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کا اختیار وہی ہے جو اسے آئین نے دے رکھا ہے۔ ابراہیم ستی نے کہا کہ 31 جولائی کے فیصلے کا ازسرنو جائزہ لینا ضروری ہے۔ عدالت کابہت احترام کرتا ہوں۔ قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی نے 3 نومبر کے حق میں قراردادیں منظور کی ہیں،کہا گیا مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ چلانے کیلئے سینٹ کی قرارداد موجود ہے۔ سینٹ کی قرارداد کو ماننا لازم نہیں بعدازاں کیس کی سماعت آج کیلئے ملتوی کر دی گئی۔ احمد رضا قصوری نے بعدازاں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پرویز مشرف رضا کارانہ طورپر پاکستان آئے وہ کوئی کالا بد معاش نہیں کہ ملک سے بھاگ جائے۔ جس نے ملک کو 8 سال خوشحالی دی اس کی ماں سے اسے ملنے نہیں دیا جارہا۔ پرویز مشرف نے ملک کی ڈوبتی کشتی کو پار لگایا۔ مشرف نے عدالت کے سامنے پیش ہوکر ثابت کردیا کہ وہ جمہوریت پسند ہیں، ان کا انٹرنیشنل امیج ہے انہیں عوامی عدالت میں جانے سے روکا گیا۔ عدالت نے بھی ہمیں پُر سکون انداز میں نہیں سنا مشرف کی ماں بیمار ہے مگر انہیں ملنے نہیں دیا جا رہا۔ میڈیا سے گفتگو کرتے احمد رضا قصوری جذباتی ہو گئے اور ان کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ قبل ازیں مشرف کے وکلا نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ نے انہیں سنے بغیر ان کے م¶کل کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں شامل کر دیا ہے جو کہ انصاف کے قاضے پورے نہیں ک رتا ہے۔ وکلا کے مطابق وہ کسی مرحلے پر آ کر اس عدالتی حکم نامے کو چیلنج بھی کریں گے۔