• news

برسلز میں سہ فریقی مذاکرات : پیشرفت ہوئی : کیری ‘ کامیابی نہیں ملی : امریکی اخبار

برسلز + اسلام آباد (رائٹر + اے ایف پی + نوائے وقت رپورٹ + سٹاف رپورٹر) پاکستان، افغانستان اور امریکہ کے درمیان سہ فریقی مذاکرات برسلز میں ختم ہو گئے۔ مذاکرات میں افغانستان سمیت خطے کی صورتحال اور دیگر امور پر تبادلہ خیال کیا گیا یہ مذاکرات آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی، افغان صدر حامد کرزئی اور امریکی وزیر خارجہ جان کیری کے درمیان ہوئے، سیکرٹری خارجہ جلیل عباس جیلانی بھی موجود تھے مذاکرات کے میزبان جان کیری نے کہا کہ سہ فریقی مذاکرات کے نتائج ہی بات چیت کے اصل عکاس ہوں گے۔ یہی اس کی کہانی بیان کرینگے۔ ہم وعدوں پر قائم رہیں گے اور ڈیلیور کرینگے۔ مذاکرات کے بعد اعلامیہ یا پریس کانفرنس سے نتیجے نہیں نکالے جاتے۔ انہوں نے کہا کہ فریقین اور سب کا اس بات پر اتفاق ہے کہ یہ مذاکرات مفید اور تعمیری تھے۔ اے ایف پی کے مطابق جان کیری نیٹو کے افغان مشن کے خاتمے سے قبل پاکستان اور افغانستان میں کشیدگی کے خاتمے کیلئے سرگرم ہیں۔ وہ پاکستان افغانستان کے خراب ہوتے تعلقات کی درستگی کے لئے کوشاں ہیں۔ وہ اس حوالے دونوں ہمسایہ ممالک کوآمنے سامنے لے آئے تاکہ دونوں ممالک کے درمیان موجود بداعتمادی کا خاتمہ کیا جا سکے۔ کیری نے کہا کہ اگرچہ مذاکرات میں پیشرفت ہوئی تاہم فریقین کو بہت سا مخصوص ہوم ورک کرنا ابھی باقی ہے۔ لاس اینجلس ٹائمز کے مطابق جان کیری نے کسی کامیابی کا کوئی دعویٰ نہیں کیا۔ انہوں نے ہوم ورک کی تفصیلات نہیں بتائیں۔ مذاکرات کے اختتام پر صدر کرزئی یا جنرل کیانی نے کسی قسم کا تبصرہ نہیں کیا۔اس سے قبل امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے کہا تھا کہ افغان صدر حامد کرزئی اور اعلیٰ پاکستانی حکام کے ساتھ مذاکرات کارآمد اور تعمیری ہونے کی امید ہے۔ پاکستان افغان مذاکرات میں سکیورٹی سمیت خطے کی صورتحال اور 2014ءکی حکمت عملی پر بات ہو گی۔ امریکی وزیر خارجہ نے کہا کہ وہ سرحدوں پر جاری تناﺅ کے خاتمے اور امن عمل کو آگے بڑھانے کیلئے پرامید ہیں انہوں نے توقع ظاہر کی کہ مذاکرات مفید اور کامیاب رہیں گے۔ افغانستان میں تبدیلی کا بہت اہم سلسلہ شروع ہو رہا ہے۔ میں بہت خوش ہوں کہ صدر کرزئی جنرل اشفاق پرویز کیانی اور سیکرٹری خارجہ جلیل عباس جیلانی وقت نکال کر یہاں موجود ہیں، انہوں نے کہا کہ ہم بارآور گفتگو کے سلسلے کیلئے بہت بہت پرامید ہیں۔ جلیل عباس جیلانی نے کہا کہ ہم بہت مفید اور آگے بڑھنے والے مذاکرات کی جانب دیکھ رہے ہیں۔ اسلام آباد سے سٹاف رپورٹر کے مطابق سہ فریقی کور گروپ کے اجلاس میں پاکستان کی طرف سے خیرمقدمی کلمات سیکرٹری خارجہ جلیل عباس جیلانی نے ادا کئے۔ بات چیت میں قیادت آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے کی۔ اجلاس کے بارے میں امریکی سفارتخانہ کے ارسال کردہ متن کے مطابق جان کیری نے بات چیت کے آغاز سے قبل افغان صدرحامد کرزئی اور جنرل اشفاق پرویز کیانی کو افتتاحی کلمات کیلئے مدعو کیا۔ حامد کرزئی اور جان کیری نے اجلاس میں پاکستان کی شرکت پر مسرت کا اظہار کیا۔ جان کیری نے جب جنرل کیانی کو اظہار خیال کی دعوت دی تو انہوں نے سیکرٹری خارجہ جلیل عباس جیلانی سے کہا کہ یہ فریضہ سرانجام دیں جس پر سیکرٹری خارجہ نے پاکستان کی طرف سے افتتاحی کلمات ادا کئے۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی نے سیکرٹری خارجہ جلیل جیلانی کے ساتسھ برسلز میں افغان صدر حامد کرزئی اور امریکی وزیر خارجہ جان کیری سے افغانستان کی صورتحال اور اگلے سال وہاں سے نیٹو افواج کے انخلاء پر غور و فکر کیلئے دورہ کیا۔ جان کیری سرحدی تناﺅ کے خاتمے اور امن عمل کو آگے بڑھانے کیلئے پرامید تھے۔ نیٹو کیلئے امریکی سفیر کی رہائش گاہ پر مذاکرات شروع ہونے سے پہلے کیری نے میڈیا سے کہا کہ افغانستان میں تبدیلی کا بہت اہم سلسلہ شروع ہو رہا ہے۔ بہت خوش ہوں کہ صدر، جنرل کیانی اور سیکرٹری جیلانی وقت نکال کر یہاں موجود ہیں۔ افغان صدر حامد کرزئی نے میٹنگ کو بہت اہم قرار دیا اور جنرل کیانی اور جیلانی کی برسلز آمد کو خوش آئند کہا۔ دریں اثنا نیٹو نے 2014ءکے بعد بھی ڈرون حملے جاری رکھنے کا اعلان کردیا ہے۔ نجی ٹی وی کے مطابق نیٹو ائر چیف کا کہنا ہے کہ افغانستان میں عسکریت پسندوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا جائے گا۔ ادھر نیٹو کے سیکرٹری جنرل راسموسن نے ایک بار پھر پاکستان پر زور دیا ہے کہ وہ اپنی سرزمین پر موجود افغانستان میں حملے کرنے والے شدت پسندوں کے خلاف کارروائی کرے ¾ پاکستان اور افغانستان کا باہمی مفاد شدت پسندی، انتہا پسندی اور سرحد پر غیر قانونی نقل وحرکت کے خلاف لڑنا ہے ¾ افغانستان میں اتحادی افواج سکیورٹی کے معاملات افغان سکیورٹی فورسز کے حوالے کر رہی ہے۔ نیٹو ہیڈکوارٹر میں راسموسن نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہاکہ اگر ہم نہ صرف افغانستان بلکہ پورے خطے میں دیرپا قیامِ امن کو یقینی بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں پاکستان کے مثبت کردار کی ضرورت ہے۔ پاکستان اور افغانستان کا باہمی مفاد شدت پسندی، انتہا پسندی اور سرحد پر غیر قانونی نقل وحرکت کے خلاف لڑنا ہے۔ افغانستان میں اتحادی افواج سکیورٹی کے معاملات افغان سکیورٹی فورسز کے حوالے کر رہی ہے ایساف کا کردار اب جنگجو قوت سے امدادی قوت میں بدل رہا ہے۔ قریباً ایک لاکھ افراد پر مشتمل اتحادی افواج 2014 کے اخر تک افغانستان سے نکل جائیں گے جس کے بعد نیٹو کے مطابق نیٹو کا کردار صرف ٹریننگ دینے کا ہو گا۔ اس موقع پر افغان صدر حامد کرزئی نے کہا کہ وہ نیٹو کی مسلسل حمایت کے منتظر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان ضرور اس قابل ہو گا کہ وہ افغان عوام کو سکیورٹی فراہم کرے۔ بی بی سی کے مطابق دوسری طرف نیٹو کی ایک رپورٹ میں جو افشا ہو گئی ہے میں کہا گیا ہے کہ پاکستان اپنی سرزمین پر پناہ لینے والے طالبان رہنماﺅں کے بارے میں جانتا ہے۔ رپورٹ میں الزام میں لگایا کہ نصیرالدین حقانی جیسے سینئر طالبان رہنما اسلام آباد میں آئی ایس آئی کے ہیڈ کوارٹر کے قریب رہائش پذیر ہیں۔ پاکستان نے اس کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کا افغانستان میں کوئی پوشیدہ ایجنڈا نہیں ہے افغانستان نے اپنے سرزمین پر عسکریت پسندوں کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کی ہیں۔

ای پیپر-دی نیشن