مسلم لیگ کی تنقید الٹا تحریک انصاف کو فائدہ
احمد کمال نظامی
میاں نوازشریف نے منگل کے دن فیصل آباد کے نواحی قصبے ڈجکوٹ این اے80 اور پی پی 61کے عوام سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ مسلم لیگ ن کو موقع ملا تو ملک کو ایک بلند مقام پرپہنچائیں گے۔ ڈجکوٹ میں انہیں پارٹی کے این اے83کے امیدوار میاں محمد فاروق نے جلسہ عام سے خطاب کرنے کی دعوت دی تھی اوراس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ الیکشن 2008 میں اس حلقہ سے رانا آصف توصیف مسلم لیگ ق کے ٹکٹ پر کامیاب ہوئے تھے اور ذیلی حلقہ پی پی 61سے سردار دلدار احمد چیمہ نے کامیابی حاصل کی تھی۔ سردار دلدار احمد چیمہ الیکشن 2002ءمیں رانا آصف توصیف کے مقابلے میں مسلم لیگ ق کے امیدوار کی حیثیت سے شکست کھا گئے تھے۔ اس الیکشن میں پیپلزپارٹی کاٹکٹ چوہدری رضا نصر اللہ گھمن کے پاس تھا جنہوں نے بعد میں مسلم لیگ ق میں شمولیت حاصل کرلی تھی اور جب محمد افضل ساہی الیکشن 2002ءمیں پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہوجانے کی وجہ سے نائب ناظم فیصل آباد کے عہدے سے مستعفی ہوگئے تو رضا نصر اللہ گھمن کو اس وقت کے وزیر اعلیٰ پرویز الٰہی نے نائب ضلع ناظم منتخب کرالیاتھا ۔ وہ الیکشن2008 میں پی پی 62سے پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہوگئے تھے اور اس مرتبہ بھی اس حلقہ سے مسلم لیگ ن کے امیدوار ہیں ۔ یہ حلقہ بھی این اے80کاذیلی حلقہ ہے لہذا جب میاں نوازشریف قصبہ ڈجکوٹ میں عوام سے خطاب کرنے پہنچے تو چوہدری رضا نصر اللہ گھمن بھی پی پی 62 کے اکابرین اور کارکنوں کے ہمراہ وہاں تھے۔ میاں محمد فاروق ماضی میں پنجاب اسمبلی اور قومی اسمبلی کے رکن رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ نہ صرف عمر کے لحاظ سے خاصے ضعیف ہوچکے ہیں بلکہ مسلسل علیل رہ کر این اے80 کے عوام سے کٹ چکے ہیں۔ان کی خواہش تھی کہ پارٹی این اے 80کاٹکٹ ان کے بیٹے میاں قاسم فاروق کو دے دیتی لیکن اس صورت میں چوہدری رضا نصر اللہ گھمن این اے80کے لئے زیادہ فیورٹ امیدوارتھے لہذا میاں محمد فاروق نے ماضی کی ذاتی وفاداریوں کے حوالے سے اپنے لئے این اے80کاٹکٹ مانگ لیا جو انہیں مل گیا لیکن وہ حلقہ انتخاب میں نکلے تو انہیں ماضی کے مقابلے میں حالات بدلے ہوئے ملے تھے۔ رانا آصف توصیف نے ہر چند الیکشن 2002ن لیگ کے ٹکٹ پر جیتا تھا لیکن جب ان کے بھائی زاہد توصیف نے سٹی ڈسٹرکٹ فیصل آباد کے ناظم کے طورپر اپنی سیاسی وفاداریوں تبدیل کیں اور مسلم لیگ ن سے مسلم لیگ ق میں چلے گئے تو اس وقت کے وزیراعلیٰ چوہدری پرویز الٰہی کے اصرار پر رانا آصف توصیف کو بھی سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنا پڑیں۔ یہ خاندان ازا ں بعد جنرل پرویز مشرف سے بھی بہت قریب رہا ہے کیونکہ اوکاڑہ سے پیپلزپارٹی پیٹریاٹ کے سر براہ راﺅ سکندر اقبال کے خاندان سے رانا آصف توصیف کی قریبی رشتے داری ہے اور راﺅ سکندر اقبال جنرل مشرف کے ایچ ای سن کے کلاس فیلو تھے اور انہوں نے الیکشن 2002ءمیں پیپلزپارٹی کے پلیٹ فارم سے کامیابی کے بعد جنرل مشرف کی خواہش پر پیپلزپارٹی پیٹریاٹ گروپ بنایاتھا۔ الیکشن 2002میں سردار دلدار احمد چیمہ این اے80 سے رانا آصف توصیف سے الیکشن ہار گئے تھے لیکن انتخابی مہم میں پی پی 61سے پیپلزپارٹی کے امیدوار میاں فاروق اسرار کی وفات سے اس حلقہ کاالیکشن ملتوی ہوگیاتھا جس سے بعد میں سردار دلدار احمد چیمہ مسلم لیگ ق کے ٹکٹ سے جیت گئے تھے اور الیکشن 2008ءمیں رانا آصف توصیف اور سردار دلدار احمد چیمہ این اے80 اور پی پی61سے مسلم لیگ ق کے امیدواروں کی حےثیت سے اتحادی تھے۔ میاں محمد فاروق کو الیکشن 2013میں بھی ایک طرف رانا آصف توصیف کی صورت میں ایک چیلنج کا سامنا تھا اور دوسری طرف تحریک انصاف نے این اے80میں اچھی شہرت کے حامل میاں محمد نعیم کو اپنے امیدوار کے طورپر نامزد کردیاتھااوردوسری طرف پی پی 61(ڈجکوٹ) سے مسلم لیگ ن کے سابق ضلعی سیکرٹری جاوید نیاز منج کو پارٹی ٹکٹ دے دیاتھااور پی پی 62سے محمدعمران وینس کو اپنا امیدوار مقرر کردیاتھا اور اس طرح ایک مضبوط پینل‘ میاں محمد فاروق اور ان کے پہلو کے امیدواروں چوہدری خالد پرویز گل اور رضا نصر اللہ گھمن کے سامنے آن کھڑا ہوا تھا۔ ان حالات میں میاں نوازشریف ڈجکوٹ جیسے چھوٹے قصبے میں‘ میاں محمدفاروق کی خصوصی درخواست پر خطاب کرنے آئے تھے۔ ان کی تقریر میں سب سے زیادہ تحریک انصاف کے چیئرمین کو ٹارگٹ کیاگیاتھا ۔ عمران کو کھلاڑی اناڑی اور مداری کہاگیا ۔میاں نوازشریف کی طرف سے تحریک انصاف کی قیادت کو ہدف تنقید بنانے سے ا س حلقہ میں تحریک انصاف کے امیدواروں کی مقبولیت کاگراف کم ہونے کی بجائے وہ بھی بجا طورپر انتخابی دوڑ میں شامل ہوگئے ہیں۔ میاں نوازشریف نے دور ڈجکوٹ کے دوران اپنے اس فخر کا کھل کر اظہار کیاہے کہ خطے میں موٹر وے کسی اور ملک میں نہیں ہے۔ صرف پاکستان میں ہے اور پاکستان میں موٹروے کی تعمیر اور ہائی ویز پر سفر کرنے کا کلچر انہوں ملک اور قوم کو دیاہے اور انہوں نے اس بات کابھی اظہار کیا کہ انہوں نے امریکہ کی طرف سے ہر قسم کے دباﺅ کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے ایٹمی دھماکے کئے او رپاکستان کو دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت بنایا۔ انہوں نے ایٹمی دھماکوں کے اگلے سال بھارت کے وزیراعظم واجپائی کے بذریعہ بس واہگہ بارڈر کے راستے لاہورآنے اورمینارپاکستان کے پہلو میں کھڑے ہو کر پاکستان کو تسلیم کرنے کا ذکر بھی کیا۔ اٹل بہاری واجپائی ایک دانشور شخصیت ہیں‘ انہوں نے اس دورہ میں انڈوپاک کنفیڈریشن اور دونوں ممالک میں مشترکہ کرنسی کی تجویز پیش کی اور میاں نوازشریف نے کہا کہ اگر کارگل کی جنگ سے دونوں ممالک کے مابین پیدا ہوجانے والے تعلقات میں خلیج پیدا نہ ہوجاتی تو مسئلہ کشمیر بھی اب تک حل ہوچکاہوتا۔ مسلم لیگ ن کے قائدنے ڈجکوٹ اور گردو نواح کے دیہات اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے کی بجلی کی لوڈ شیڈنگ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ان کے دور حکومت میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ نہیں ہوتی تھی بلکہ یہ وہ وقت تھا کہ بھارت پاکستان سے بجلی خریدنا چاہتا تھا ۔انہوں نے عوام سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ مسلم لیگ ن کے امیدواروں کو کامیاب کرائیں‘ ملک کو بہت جلد بجلی کی لوڈ شیڈنگ سے نجات دلا دی جائے گی۔ میاں نوازشریف نے فیصل آباد ڈویژن میں قومی و صوبائی اسمبلیوں کے مختلف حلقوں سے چونکہ خواتین کو براہ راست الیکشن لڑنے کیلئے پارٹی ٹکٹ جاری کئے ہیں اس لئے انہوں نے سیاست میں خواتین کے کردار کاذکر کرتے ہوئے ‘ مادرملت محترمہ فاطمہ جناح ؒکے تحریک پاکستان میں ادا کئے گئے عظم الشاں کردار کے علاوہ فیلڈ مارشل ایوب خان کے خلاف ان کے صدارتی الیکشن میں حصہ لینے کا بھی تذکرہ کیا۔ ان کے اس دورہ سے فیصل آباد شہر اور فیصل آباد ضلع کے انتخابی حلقوں میں مسلم لیگ ن کے امیدواروں کو یہ فائدہ حاصل ہواہے کہ گاﺅں گاﺅں ‘ گلی گلی مسلم لیگ ن کے قائد کاتذکرہ ہونے لگاہے۔ ان دنوں فیصل آباد شہر اور اس کے نواحی قصبات اور دیہات میں نوعمر بچے‘ مختلف سیاسی جماعتوں کے انتخابی نعرے لگاتے نظر آتے ہیں۔ میاں نوازشریف سے کہاجاتاہے کہ قدم بڑھاﺅ نواز شریف ہم تمہارے ساتھ ہیں۔ کچھ بچے گلیوں میں کرکٹ کھیلتے ہوئے چھکا لگاتے یابیٹنگ کرنے والے کھلاڑی کی وکٹ اڑاتے وقت ضرور نعرہ لگاتے ہیں۔ ”اوپر اللہ نیچے بلا“انتخابی دفاتر پرشیر‘ تیر‘ بلا‘ ترازواور اڑتی پتنگ کے نشان بنے ملتے ہیں۔ پیپلزپارٹی کے جیالے اب بھی یہ نعرہ لگاتے ہیں کہ” اک زرداری‘ سب پر بھاری“مسلم لیگ کے دفاتر پر میاں نوازشریف اورمیاں شہباز شریف اور تحریک انصاف کے دفاتر پرعمران خان کی تصویروں پرمشتمل بینرز دکھائی دیتے ہیں۔ہر طرف الیکشن 2013کی گہما گہمی ہے۔