ن لیگ اور تحریک انصاف میں انتخابی دفاتر کا مقابلہ
فرخ سعید خواجہ
دیکھتے ہی دیکھتے لاہور میں انتخابی مہم زور پکڑ گئی ہے۔ لاہور میں مسلم لیگ (ن) اور پاکستان تحریک انصاف کے انتخابی دفاتر کھولنے کا مقابلہ جاری ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے صدر محمد نواز شریف کے حلقہ انتخاب این اے 120 کے مرکزی دفتر کا افتتاح سابق خاتون اول بیگم کلثوم نواز اور ان کی صاحبزادی مریم نواز شریف نے کیا۔ ان کے ہمراہ مسلم لیگ (ن) کے لاہور سے سابق ممبران اسمبلی اور رہنما خواجہ سعد رفیق، میاں حمزہ شہباز شریف، پرویز ملک و دیگر تھے۔ مرکزی انتخابی دفتر شہر کے وسط میں واقع ناصر باغ کے بالمقابل لوئر مال روڈ پر بنایا گیا ہے۔ جس کی انچارج مریم نواز شریف ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے رہنما¶ں نے 180ایچ ماڈل ٹا¶ن سے لوئرمال روڈ آنا تھا اس کی خبر پا کر مسلم لیگ (ن) کی خواتین اور مرد ماڈل ٹا¶ن جمع ہونا شروع ہوئے تو مریم نواز شریف اور حمزہ شہباز شریف نے انہیں باور کرایا کہ الیکشن کمشن کے ضابطہ اخلاق کے مطابق ریلی نکالنے کی اجازت نہیں ، لہٰذا آپ لوگ ”مرکزی دفتر“ پہنچیں۔ سو مسلم لیگ (ن) کے قائدین جب افتتاح کے لئے پہنچے تو دفتر کے باہر ہزاروں افراد جمع ہو چکے تھے۔جہاں کشادہ لوئر مال ہجوم کے باعث چھوٹی پڑ گئی تھی۔جوش و خروش کا یہ عالم تھا کہ دھکم پیل کے باعث قائدین کے خطاب کیلئے لگائے گئے لا¶ڈ سپیکر کے تار ٹوٹ گئے۔ دفتر کا افتتاح کر نے کے بعد مریم نواز شریف وہاں تھوڑی دیر رکیں اور دیگر رہنما بھی کارکنوں کو منتشر ہونے کی ہدایت کر کے چلے گئے۔
اس کے برعکس انتخابی مہم میں تحریک انصاف نے جارحانہ انداز اپنارکھا ہے۔ جس طرح عمران خان جلسوں میں مسلم لیگ (ن) کے لیڈر نواز شریف کو للکار رہے ہیں اسی طرح ان کی جماعت کے دیگر لوگ بھی تند وتیز زبان استعمال کر رہے ہےں۔ عمران خان نے ہفتہ 20اپریل کو پاکستان تحریک انصاف لاہور کے دفتر اپرمال سے لاہور میں پارٹی کی انتخابی مہم کا آغاز کرتے ہوئے داتا دربار تک جلوس نکالا ۔ اس دوران عمران خان نے این اے 118میں شاہدرہ، این اے 120 میں بھاٹی چوک، این اے 121 میں گلشن راوی اور این اے 122سمن آباد میں پارٹی کے مرکزی انتخابی دفاتر کا افتتاح بھی کیا۔ ریلی میں تحریک انصاف کے کارکنوں کا جوش و خروش دیدنی تھا۔ تحریک انصاف لاہور کے صدر عبدالعلیم خان اور مختلف قومی و صوبائی اسمبلیوں کے تحریک انصاف کے امیدوار اور کارکن ان کے جلوس میں شامل تھے۔ بڑی چھوٹی گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں پر مشتمل جلوس شاہراہ قائداعظم سے گزرا تو لوگوں نے انگلیاں دانتوں میں دبا لیں کہ قانون کی حکمرانی کے پاسبانوں کو کیا ہوا ، الیکشن کمشن کے ضابطہ اخلاق کو توڑنے والوں کو کیوں روکا نہیں جا رہا ہے؟ خیر جو ہوا سو ہوا آئندہ اس روش سے سیاسی جماعتیں اجتناب کریں تو بہتر ہو گا۔
ہمیں یہ لکھنے میں بھی کوئی عار نہیں کہ مسلم لیگ (ن) اور پاکستان تحریک انصاف کے علاوہ پاکستان پیپلز پارٹی بھی لاہور میں بھرپور انتخابی مہم چلا رہی ہیں۔ متعدد حلقوں میں پیپلز پارٹی کی انتخابی مہم دیگر جماعتوں سے بہتر ہے لیکن کارکنوں میں پیپلز پارٹی کی یتیمی کا اثر ضرور محسوس ہو رہا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے صدر نواز شریف اور شہباز شریف چاروں اطراف میں ملک گیر طوفانی دورے کر رہے ہیں۔ مسلم لیگ ن کی جانب سے ملک بھر کے جلسہ ہائے عام کا باقاعدہ شیڈول جاری کیا جا چکا ہے اب تک وہ خیبر پختونخواہ اور پنجاب کے مختلف علاقوں میں انتہائی جاندار انتخابی جلسے کر چکے ہیں۔ جبکہ پیپلز پارٹی کا المیہ یہ ہے کہ آصف زرداری ایوان صدر میں محدود ہو کر رہ گئے ہیں اور ان کے بچے اس انتخابی مہم سے با امر مجبوری دور ہیں۔
مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف ک میںالیکٹرانک میڈیا پر تشہیری مہم کا بھی مقابلہ ہو رہا ہے۔ جبکہ پیپلز پارٹی کی میڈیا مہم اخبارات تک محدود ہے۔ پیپلز پارٹی کبھی ”جاگ اٹھا ہے سارا وطن ساتھیو مجاہدو“ کے نغمے کے ساتھ سیاسی کارزار میں اترا کرتی تھی اب اس پر مردنی چھائی ہوئی ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ یہ کسی کی سمجھ میں نہیں آ رہا۔ لاہور میں متحدہ دینی محاذ نے بھی متعدد امیدوار میدان میں اتارے ہیں اور ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ سیاسی دینی جماعتوں کے علاوہ غیرسیاسی دینی عناصر بھی متحدہ دینی محاذ کے امیدواروں کے لئے سرگرم عمل ہیں۔ جماعت اسلامی اگرچہ متحدہ دینی محاذ میں شامل نہیں ہے لیکن اس کے لاہور میں قومی و صوبائی اسمبلی کے تمام 38حلقوں میں امیدوار کھڑے کر کے ان میں سے اکثریت کو دستبردار کروا لینے کا فائدہ متحدہ دینی محاذ کے امیدواروں کو پہنچے گا۔
بہرحال جماعت اسلامی کے چوٹی کے رہنما لیاقت بلوچ، حافظ سلمان بٹ، ڈاکٹر فرید پراچہ، میاں مقصود احمد ابھی انتخابی میدان میں موجود ہیں اور ان سب کو جاندار انتخابی مہم چلانے میں ملکہ حاصل ہے۔ دیکھنا یہ ہو گا کہ ان کے ساتھ ووٹر کیا سلوک کرتے ہیں۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی تحریک تحفظ پاکستان نے بھی لاہور کے متعدد حلقوں سے امیدوار کھڑے کر رکھے ہیں لیکن ابھی وہ کسی بھی حلقہ انتخاب میں اپنے لئے نمایاں جگہ نہیں بنا سکے ہیں۔
ایک اور اہم جماعت متحدہ قومی موومنٹ نے لاہور سے قومی اسمبلی کے 13حلقوں کے لئے اپنے 13امیدوار میدان میں اتارے ہیں جن میں پانچ 5 خواتین بھی شامل ہیں۔ اس لحاظ سے متحدہ قومی موومنٹ ملک کی پہلی سیاسی جماعت بن گئی ہے جس نے ایک ہی شہر میں جنرل نشستوں پر 5 خواتین کو اپنا امیدوار بنایا ہے۔ متحدہ نے صوبائی اسمبلی کے لاہور کے 25حلقوں میں بھی 22امیدوار کھڑے کئے ہیں ان میں بھی 4خواتین شامل ہیں ۔جہاں تک انتخابی نتائج کا تعلق ہے ہمیں یہ لکھتے ہیں کوئی باک نہیں کہ لاہور میں زیادہ تر نشستوں پر مقابلہ مسلم لیگ (ن)، تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کے امیدواروں کے درمیان ہی ہو گا۔