مخدوم شاہ محمود قریشی کی پیر پگارو نے حمایت کردی
رسول بخش ر حیمدانی ........ عمر کوٹ
سندھ کے سیاسی منظر نامے میں اپنی منفرد شناخت رکھنے والے ضلع عمرکوٹ میں کل دس لاکھ 78 ہزار 777 آباد ہیں جو الیکشن 2013 میں سرگرم نظر آ رہے ہیں۔ ضلعے میں ووٹرز کی تعداد 3 لاکھ 93 ہزار793 ہے ۔ جبکہ عمرکوٹ میں گھروں کی تعداد ایک لاکھ 54 ہزار 111 ہے اور یہاں کل 1978 گاﺅں موجود ہیں عمرکوٹ کی 27 یونین کونسلوں میں 12 تپے اور 233 دیہات شامل ہےں جن میں تحصیل کنری میں 38 سامارو میں 59 پتھورو میں 48 اور عمرکوٹ میں 90 دیہات شامل ہےں عمرکوٹ میں انتخابی سرگرمیاں تیزی سے شروع ہیں ۔ عمرکوٹ ماضی میں سندھ کا اہم اور خوبصورت شہر رہا ہے اور طویل عرصے تک سندھ کی راجدھانی بھی رہا ہے عمرکوٹ مختلف حوالوں سے سیاسی شہر کہلاتا ہے تاریخی اہمیت رکھنے والا یہ شہر جس میں صدیوں پہلے راجپوتوں کی حکمرانی تھی اس کے بعد عمرکوٹ پر سومرو خاندان نے بھی حکومت کی اس عہد کی خاص بات عمر سومرو اور ماروی کی رومانوی داستان ہے جس کاتاریخ میں ذکر ملتا ہے۔کہ عمر نے تھرپارکر کے علاقے بھالوا سے ایک خوبصورت حسین دوشیزہ ماروی کو اٹھایا تھا جس نے عمر بادشاہ کی ایک نہیں سنی بلآخر عمر بادشاہ نے اسے واپس گاﺅں بھیج دیا عمرکوٹ شہر کے ساتھ ریتےلے ٹیلوں اور بیراج کا سنگم حسین وادیوں جیسا ہے اسی شہر میں مغل کے شہنشاہ اکبر اعظم کی جائے پیدائش بھی موجود ہے ایک تاریخی لوک داستان مومل رانو کا محل بھی موجود ہے عمرکوٹ کو پیار سے لوگ امرانو مہرانو اور نارے کا سنگم بھی کہتے ہیں۔ نہرانے کی بیراجی زمین زرخیز اور سرسبز ہوا کرتی تھی۔ یہاں کی سوغات نارے کے چاول‘ مہندی اور کھجور ہوا کرتے تھے اور علاقے کے زمینداروں کو نارے کا نواب بھی کہا جاتا تھا ماضی کا انتہائی خوشحال شہر اپنی مہمان نوازی کے حوالے سے بھی مشہور تھا ضلع میں چاول چینی‘ مرچ گندم اور کپاس کی بہت بڑی کاشت ہوتی ہے ایشیاءکی سب سے بڑی مرچ منڈی بھی ضلع عمرکوٹ کی تحصیل کنری میں واقع ہے عمرکوٹ آج بھی سندھ کی ہزاروںبرس پرانی تہذیب اور ثقافت کا مرکز ہے یہاں کی خواتین اور مرد آج بھی شاندار ثقافتی لباس پہنتے ہیں ۔
عمرکوٹ کے قومی اسمبلی کے واحد حلقے NA-228 پر تحریک انصاف کے مرکزی نائب صدراور پیر پاگارا کے حمایت یافتہ غوثیہ جماعت کے روحانی پیشوا مخدوم شاہ محمود قریشی آزاد حیثیت میں امیدوار ہیں جب کے ان کے مد مقابل نواب محمد یوسف تالپور کا تعلق پیپلز پارٹی سے ہے پیپلز مسلم لیگ کی طرف سے کشن چند پاروانی میدان میں ہیں۔ پی ایس 70 عمرکوٹ پر پاکستان مسلم لیگ فنکشنل کے نامزد امیدوار انجینئر قاسم سراج سومرو ہیں جن کا پاکستان پیپلز پارٹی کے نامزد امیدوار سید علی مردان شاہ سے مقابلہ ہوگا۔ پی ایس 69 پتھورو سا مارو پر فنکشنل لیگ کے نامزد امیدوار فقیر جادم منگریو کے مد مقابل پیپلز مسلم لیگ کے نامزد امیدوار پیر تاج حسین شاہ جیلانی ہیں جبکہ پیپلز پارٹی کے نامزد امیدوار سید سردار علی شاہ ہیں۔ پی ایس 68 کنری پر میر امان اللہ تالپور پیپلز مسلم لیگ ،نواب تیمور ٹالپر پاکستان پیپلز پارٹی اور دوست محمد میمن فنکشنل لیگ کے امیدوار ہیں۔ پی ایس 69 پتھورو سامارو پر سابق وزیر اعلیٰ مظفر حسین شاھ کو پیپلز پارٹی کے نامزد امیدوار علی مراد راجڑ نے 2008ءمیں شکست دی تھی اس مرتبہ علی مراد کو پارٹی نے ٹکٹ نہیں دیا جس کی وجہ سے راجڑ برادری میں ناراضی پائی جاتی ہے اس ناراضی کا فائدہ پی پی کے مخالفوں کو ہوگا۔ عمرکوٹ سے قومی اسمبلی کی ایک سیٹ اور صوبائی اسمبلی کی تین سیٹوں پر 11 مئی 2013 کو ان تین پارٹیوں کے امیدواروں کے میں سخت مقابلے ہوںگے۔ NA-228 پر ٹوٹل رجسٹرڈ ووٹوں کی تعداد 279794 ہے جن میں مرد وں کی تعداد 14997 اور خواتین کی تعداد 13697 گئی ہے پی ایس 68 کنری پر ووٹروں کی تعداد 17734 ہے جن میں مرد 56905 اور عورتیں 50829 میں پی ایس 69 پتھورو ساماروپر ووٹروں کی تعداد 116018 ہے جن میں مرد 61793 اور خواتین 45225 ہےں جب کہ عمرکوٹ PS-70 پر ووٹروں کی تعداد 126739 ہے جن میں مرد 67916 اور خواتین 58823 ہیں ۔ ان نشستوں پر پاکستان مسلم لیگ فنکشنل‘ پاکستان پیپلز پارٹی اور پیپلز مسلم لیگ کے امیدواروں کے درمیاں مقابلے ہونگے عمرکوٹ میں پیری مریدی کا چلن ہے یہاں حرجماعت، غوثیہ جماعت، سروری جماعت اور جیلانی جماعت کا اثر رسوخ زیادہ ہے ۔ اسی حلقے میں دو سجادہ نشینوں پیر پاگارا اور مخدوم شاہ محمود قریشی کے درمیاں اتحاد ہوا ہے جس کی وجہ سے آخر الذکر کی پوزیشن مضبوط ہو گئی ہے اسی حلقے سے اقلیتی برادری کا 51 فیصد ووٹ موجود ہے اقلیتی برادری نے بڑی تعداد میں پیر پاگارا اور مخدوم شاہ محمود کے حمایت یافتہ امیدراوں کو جتوانے کا عزم کیا ہے۔ اقلیتی برادری کے نوجوان رہنما اور ہندو پنچایت عمرکوٹ کے صدر لال نند مالہی نے پیپلز پارٹی کو الوداع کہہ کر تحریک انصاف میں شمولیت ا ختیار کی ہے جس کی وجہ سے ہندو کمیونٹی بالخصو ص مالہی برادری نے فنکشنل لیگ کے پی ایس 70 پر امیدوار انجینئر قاسم سراج سومرو کی حمایت کا اعلان کیا ہے جبکہ کولہی ، بھیل ، مہیشوری،ہریجن، میگھواڑ، اوڈ ،سونارہے اور دیگر برادریوں نے بھی حمایت کی۔ جب کہ کئی دیگر برادریوں نے پیپلز پارٹی کی بھی حمایت کی ہے۔ یوں عمرکوٹ میں الیکشن مہم اپنے عروج پر ہے اور عوام سیاسی جوڑ توڑدیکھ رہے ہیں ہر پارٹی اپنے امیدواروں کو جتوانے کے لئے دن رات مہم میں مصروف ہے NA-228 پر آزاد امیدوار محمد لقمان کنبھرکی کنبھار برادری نے بھرپور حمایت کا اعلان کیا ہے۔ لیکن اصل مقابلہ پیپلز پارٹی کے نواب محمد یوسف تالپور اور مخدوم شاہ محمود قریشی کے درمیان ہی ہوگا۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی مرکزی قیادت کی کوشش کی ہے کہ کسی نہ کسی طر ح مخدوم شاہ محمود قریشی کو اسی حلقے سے شکست دی جائے لیکن مخدوم شاہ محمود قریشی کی بھرپور حمایت کا پیر پاگارا نے جو اعلان کیا ہے اس کی وجہ سے ان کی پوزیشن مضبوط نظر آتی ہے اور اسی حلقے سے غوثیہ جماعت کے مرید اور تحریک انصاف کے کارکنان بڑی تعداد میں مخدوم شاہ محمود قریشی اور انجینئر قاسم سراج سومرو کی ورک کرتے نظر آتے ہیں ، NA-228 پر پلی برادری کا بہت بڑا ووٹ بنک ہے یہ ووٹ مخدوم شاہ محمود قریشی کو ملیں کیوں کہ پلی برادری غوثیہ جماعت کی مرید ہے جن کا اس حلقے میں بڑاا ثر ارسوخ ہے پاکستان پیپلز پارٹی کے نواب یوسف تالپور اور پی ایس 70 کے امیدوار سید علی مردان شاہ کو مقابلے کے لئے بڑی محنت اور جدوجہد کرنی پڑے گی۔ مقابلے میں آنے کے لیے نامزد امیدواروں کو تمام سیاسی کمالات دکھانے پڑینگے لیکن اس پسماندہ کے غریب لوگ جاگ اٹھے ہیں اور ا ن غریب لوگوں کی طاقت ووٹ ہےں یہ ووٹ جس کو بڑی تعداد میں ملے وہ جیت کا سہرا باندھے گا۔ اور مقدر کا سکندر کہلا ئے گا۔ عمرکوٹ کے عوام کا کہنا ہے کہ ہم ووٹ اس کو دینگے۔ جو ہمیں گیس فراہم کرے گا ۔ میڈیکل کالج ، کیڈٹ کالج، لا کالج، ڈسٹرکٹ ہسپتال میں بنیادی ضرورتیں فراہم کرے گا ۔عمرکوٹ کے ماروی گراﺅنڈ میں 2 مئی کو تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان ، فنکشنل مسلم لیگ کے صوبائی صدر پیر صدرالدین شاہ ، مخدوم شاہ محمود قریشی اور دیگر تاریخی جلسے سے خطاب کرینگے۔ اس جلسے میں تھرپارکر‘ سانگھڑ اور عمرکوٹ اضلاع سے ہزاروں کی تعداد میں حر جماعت ، غوثیہ جماعت کے مرید اور تحریک انصاف و مسلم لیگ فنکشنل کے کارکنان شرکت کرینگے۔ کہاجاتا ہے کہ یہ جلسہ عمرکوٹ کی الیکشن مہم کا پانسہ پلٹ دے گا۔ دوسری طرف پی پی کے کارکنان مدعی ہیں کہ ماضی کی طرح عمر کوٹ پی پی کا قلعہ ثابت ہوگا۔