• news

NA161 کے انتخابی اکھاڑے میں چوتھا امیدوار بھی کود پڑا

محمد اسماعیل ........ ساہیوال
 قومی اسمبلی کے حلقہ 161 میں چارروایتی حریف امیدواروں کے علاوہ اس دفعہ ایک پانچواں امیدوار بھی اس مرتبہ اس نشست پر الیکشن میں حصہ لے رہا ہے ۔ پیپلزپارٹی کے مہر غلام فرید کاٹھیہ‘ مسلم لیگ ن کے چودھری محمد اشرف ایڈووکیٹ‘ ماضی میں ”ق“ لیگ سے تعلق رکھنے والے موجودہ آزاد امیدوار رانا طارق جاوید کے علاوہ مسلم لیگ ”ن“ ضلع ساہیوال کے جنرل سیکرٹری حاجی احسان الحق ادریس اس نشست پر روائتی حریف کے طور پر آمنے سامنے ہیں۔ جبکہ تحریک انصاف کے ٹکٹ ہولڈرملک محمد یار ڈھکو دوسری مرتبہ اس نشست کیلئے امیدوار ہیں۔ حاجی احسان الحق ٹکٹ نہ ملنے پر جماعت سے ناراض ہو کر آزاد امیدوار کے طور پر انتخابات میں ڈٹ گئے ہیں۔ پیر احسان الحق ادریس میاں شہباز شریف کی حکومت کے پورے دور میں چیئرمین عشر زکوة ضلع ساہیوال کے عہدے پر فائز رہ کر اقتدار میں بالواسطہ طور پر شامل رہے ہیں اور اس کے مزے لوٹتے رہے ہیں۔ غالباً ابھی تک بھی چیئرمین عشر زکوة کے عہدہ سے مستعفی نہیں ہوئے۔ وہ نیک‘ متقی اور پرہیز گار اور بااصول سیاستدان کے طور پر ممتاز مقام رکھتے تھے لیکن انہوں نے اچانک اپنے سارے اصولوں کو بالائے طاق رکھ کر اپنی جماعت کی بنیادی رکنیت سے استعفیٰ دئیے بغیر اپنی جماعت سے بغاوت کر کے آزاد امیدوار کے طور پر انتخاب میں حصہ لینے کا اعلان کر دیا ہے ۔اس طرح انہوں نے اپنی ہی اس جماعت کی پیٹھ میں چھرا گھونپ دیاہے جس کا وہ سالہا سال سے حصہ رہے ہیں۔ مسلم لیگ ”ن“ کا ہر کارکن اور ووٹر اپنی جماعتی وابستگی کی وجہ سے ان سے سخت ترین نالاں ہے۔ کل تک بحیثیت جنرل سیکرٹری ضلع مسلم لیگ وہ اپنے کارکنوں کو حق و انصاف اور پارٹی کے ساتھ وفاداری کا درس دیتے رہے جو بطور پارٹی کے جنرل سیکرٹری ان کی خدمات کے سبھی کارکن معترف تھے لیکن اچانک پارٹی کے ساتھ ان کی بغاوت اور میاں محمد نوازشریف کی حکم عدولی نے ان کی ساری خدمات ملیا میٹ کر دیں اور کارکنوں کے دلوں میں نفرت کے جذبات ابھرنا شروع ہوگئے ۔کارکنوں نے یہ بھی مطالبہ کیا ہے کہ ان کو پارٹی کی جنرل سیکرٹری شپ سے فوراً برطرف کیا جائے اور ان کی بنیادی ممبر شپ فوری طور پر منسوخ کی جائے۔ ان کے ساتھ اب دوسری جماعت کے امیدوار بھرپور طور پر انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔ مسلم لیگ ن کے چودھری محمد اشرف ایڈووکیٹ اور پیپلزپارٹی کے مہر غلام فرید کاٹھیہ دونوں دو دو بار ایک دوسرے کو شکست دیکر رکن قومی اسمبلی منتخب ہو چکے ہیں۔ ان انتخابات میں بھی یہ دونوں امیدواران دوڑ میں آگے ہیں جبکہ رانا طارق جاوید ایک دفعہ اس حلقہ سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہو چکے ہیں۔ آنیوالے عام انتخابات میں وہ آزاد حیثیت سے حصہ لے ر ہے ہیں ۔ملک محمد یار ڈھکو اس سے پہلے چیئرمین ضلع کونسل اور بعد میں نائب ناظم ضلع کونسل رہ چکے ہیں ۔ انہوں نے 2008ءمیں بھی قومی اسمبلی کے انتخابات میں حصہ لیا تھا لیکن کامیاب نہیں ہو سکے تھے۔
قومی اسمبلی کے حلقہ 161 کے نیچے تین صوبائی نشستوں پر بھی تینوں بڑی جماعتوں کے علاوہ آزاد امیدواروں کی بڑی تعداد حصہ لے رہی ہے۔ پی پی 120 سے خضر حیات کھگہ، مسلم لیگ (ن) کی جانب سے امیدوار ہیں۔ اس سے قبل وہ اپنے والد پیر ولایت شاہ کھگہ کے اسی نشست سے نااہل ہونے پر ضمنی الیکشن میں بھی کامیاب ہو چکے ہیں۔ اس نشست کے لئے پیر مظفر شاہ کھگہ (ق) لیگ کے امیدوار ہیں جبکہ ظفر شاہ کھگہ اور منظور علی چودھری کے علاوہ دیگر آزاد امیدوار بھی دوڑ میں شریک ہیں۔ پی پی 221 ساہیوال کا شہری حلقہ ہے یہاں سے سابق صوبائی وزیر ملک ندیم کامران کا پیپلزپارٹی کے رانا آفتاب کے ساتھ مقابلہ ہوگا جبکہ تیسرے اہم امیدوار شیخ شاہد حمید جماعت اسلامی کے امیدوار ہیں۔ پی پی 222 ساہیوال سے 6 مرتبہ کامیاب ہونے والے ملک جلال الدین ڈھکو کے ساتھ اس مرتبہ دلچسپ صورتحال پیدا ہو گئی ہے۔ گزشتہ الیکشن میں انہوں نے مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ پر کامیابی حاصل کی تھی لیکن اس مرتبہ پارٹی کی جانب سے ٹکٹ نہ ملنے پر وہ آزاد حیثیت میں اس صوبائی نشست پر الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) نے ان کی جگہ اس مرتبہ ارشد ملک کو ٹکٹ دے رکھا ہے۔ جبکہ سابق تحصیل ناظم عمر اسحاق چوہدری بھی یہاں سے تحریک انصاف کے ٹکٹ پر الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں ۔اس صورتحال میں ارشد ملک کا مقابلہ ملک جلال الدین ڈھکو کے علاوہ شبر شیرازی سے ہوگا جو (ق) لیگ کی طرف سے اس نشست پر امیدوار ہیں اور ان کے حق میں پیپلزپارٹی نے بھی اپنا امیدوار دستبردار کروا لیا ہے۔ اس حلقہ کے ووٹر آزاد امیدوار کی جانب کم توجہ دے رہے ہیں۔ جب اس سلسلہ میں باشعور اصحاب سے رائے لی گئی تو انہوں نے برملا کہا کہ آزاد حیثیت سے انتخاب میں حصہ لینے والے کامیاب ہونے کے بعد دھڑے بندیوں کا تماشہ دیکھتے اور زاتی مفاد کیلئے جوڑ توڑ کا کھیل کھیلتے ہیں اور پھر ووٹروں کے مینڈیٹ کو چھوڑ کر جس پارٹی میں چاہتے ہیں شمولیت اختیار کر لیتے ہیں۔ اس لئے آزاد حیثیت سے انتخاب میں حصہ لینے والے امیدواروں کی جانب بہت کم لوگ توجہ دیتے ہیں۔ کیونکہ ان کا کسی جماعت سے تعلق نہیں ہوتا اور وہ لوگوں کے مسائل حل کرنے کی صلاحیت اور ادراک نہیں رکھتے ہیں۔

ای پیپر-دی نیشن