نیا پاکستان کے پرانے شہری
مواحد حسین شاہ ایک جینوئن سکالر ہیں۔ انہوں نے پاکستان میں ہونے والے الیکشنوں کی سنگینی کے حوالے سے بہت گہری اور سچی باتیں کی ہیں۔ وہ تحریک انصاف کے بانی ممبر ہیں اور آج کل عمران خان سے بہت مایوس ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ الیکشن 2013ءمیں کوئی جیتے مگر پاکستانی قوم نہیں جیتے گی۔ یہ بڑی بات ہے اور دکھی بات ہے۔ مواحد حسین کرنل سید امجد حسین کے بیٹے ہیں۔ وہ تحریک پاکستان کے نامور کارکن ہیں اور مرحوم حمید نظامی ان کے جگری یار تھے۔ مواحد حسین، مشاہد حسین کا بھائی ہے بلکہ مشاہد حسین اس کا بھائی ہے۔ وہ بڑا بھائی ہے اور واقعی بڑا ہے۔ اس وقت ہماری سیاست میں مشاہد حسین سے بڑھ کر کوئی سکالر سیاستدان نہیں ہے۔ وہ تو پنجاب یونیورسٹی میں پروفیسر تھے۔ یہ تو بھلا ہو جنرل ضیاءالحق کا جس نے انہیں نکال دیا۔ تو وہ مختلف اخبارات کی صحافت و سیاحت کرتے ہوئے سیاست میں چلے آئے۔ انہیں نواز شریف اپنا وزیر خارجہ بناتے تو بھٹو صاحب کی یاد تازہ ہو جاتی مگر ہمارے ہاں پارٹی لیڈر شپ ایسے لوگوں سے ڈرتی رہتی ہے کہ وہ ہم سے آگے نہ نکل جائیں۔ یہ لوگ پیچھے رہ کر بھی اپنی پارٹی لیڈر شپ کو احساس کمتری میں مبتلا رکھتے ہیں۔ یہ احساس بھٹو جیسے آدمی کو بہت تھا۔ یہی احساس حکمرانوں کو لیڈر نہیں بننے دیتا۔ نواز شریف کو شاید تب یاد نہیں رہا تھا کہ جنرل ضیاءنے مشاہد کو نکالا تھا۔ شاید یہ بات انہیں بہت یاد ہو۔
پھر مشاہد حسین کو نواز شریف نے بھی نکال دیا۔ اس طرح انہوں نے جنرل ضیاءالحق کے مشن کو پورا کیا مگر ابھی تک بھٹو کا جیالا پرویز رشید نواز شریف کی خدمت میں رہتا ہے۔ وہ بھٹو کے ایک عاشق راجہ انور کو بھی لے آیا ہے مگر راجہ ابھی نواز شریف کی سیاست میں نہیں آیا۔ راجہ انور کئی کتابوں کا مصنف ہے۔ اسے شہباز شریف نے پنجاب ایجوکیشن فاﺅنڈیشن کا چیئرمین بنایا ہے۔ اس کی تخلیقی اور انقلابی شخصیت کی وجہ سے اس ادارے میں بڑی بہتری پیدا ہوئی ہے۔
مواحد حسین نے بات تو میرے کل کے کالم سے شروع کی۔ ان کی محبت بھری عزت افزائی میں حوصلہ افزائی بھی ہوتی ہے۔ اس حوالے سے کئی دوستوں نے بات کی۔ مسلم ثقافت کی علمبردار آرٹسٹ تسنیم نے تو کمال کر دیا ہے۔ اس نے بے ساختہ کہا کہ عمران نے نیا پاکستان بنانا ہے تو بھارت جا کے بنائے۔ نیا پاکستان برصغیر کے مسلمان ہی بنائیں گے۔ پاکستان کو کرپشن لاقانونیت بے انصافی، جہالت، دہشت گردی اور ظلم سے پاک کیا جائے گا۔ پاک کا لفظ ہندوﺅں اور پاکستان مخالفوں نے مسلمانوں کو چڑانے کے لئے استعمال کرنا شروع کر دیا تھا۔ اب یہی بیزاری پاک فوج کے لئے ہے۔ نیا پاکستان بنگلہ دیش میں بنے گا۔ بنگلہ دیش ایک خود مختار ملک ہے۔ وہ ایک دن مشرقی پاکستان کی یاد میں آباد ہو گا۔ اس کا نام مشرقی پاکستان نہ بھی ہوا تو یہ نیا پاکستان ہو گا اور بھارت پچھتائے گا۔ انشاءاللہ کئی نئے پاکستان بھارت میں بنیں گے۔
میں نے مواحد بھائی سے پوچھ لیا کہ الیکشن 2013ءکے لئے ان کا کیا خیال ہے۔ یہ نیا پاکستان کی اصطلاح اس الیکشن کے ”نتائج“ کے لئے تو نہیں ہے؟ بھٹو نے 1970ءکے الیکشن کے بعد سقوط مشرقی پاکستان کے جواز کے لئے نیا پاکستان کا نعرہ لگایا تھا۔ عمران خان نے الیکشن 2013ءسے پہلے یہ نعرہ لگانا شروع کر دیا ہے۔ یہ کوئی سازش ہے۔ یہ کیا سازش ہے؟ کیا عمران خان کسی عالمی سازش کا شکار ہو رہا ہے۔ ہمارے خلاف جب بھی ہوئی کوئی غیر ملکی سازش ہوئی۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے لئے بھی غیر ملکی سازش ہوئی۔ یہ تو غیر ملکوں کی سازش تھی جس میں امریکہ اور روس ایک ہو گئے تھے۔ وہ پاکستان کے مقابلے میں بھارت کے لئے ہمیشہ ایک ہو جاتے ہیں۔ روس کا اتحادی بھارت امریکہ کے ساتھ مل گیا ہے۔
مواحد حسین کی بات الیکشن 2013ءکے لئے اتنی فکر انگیز اور فکرمندی سے بھری ہوئی ہے کہ میں اس بات میں چھپی ہوئی کئی باتوں کی اندھی راتوں میں پھنس گیا ہوں۔ راز تو رات کے دل میں ہوتے ہیں۔ راتوں کا اندھیرا درست اندھیرا ہوتا ہے۔ لوڈشیڈنگ کی تاریکی ہمارے زوال کی مثال ہے۔ اندھیرے اور تاریکی میں فرق ہوتا ہے۔ لوڈشیڈنگ نے ہم سے ہمارا اندھیرا بھی چھین لیا ہے۔ مواحد حسین کے ذہن میں بے تابی اور بے چینی نیا پاکستان کی تکرار سے پیدا ہوئی ہے۔ پاکستان میں ہونے والے الیکشنوں کی دھول دور دور تک پھیلی ہوئی ہے۔ 1970ءسے اب تک ہر انتخاب سے پہلے کسی نہ کسی انقلاب کا نعرہ لگایا گیا تھا جبکہ انتخاب سے انقلاب نہیں لایا جا سکتا۔ انتخاب کسی مسئلے کا حل نہیں ہے۔ سیاستدانوں کو اقتدار میں آنے کی بے قراری ہے۔ تیسری دنیا اور مسلم دنیا کی جعلی جمہوریت اور مصنوعی الیکشن میں پھنسا کر امریکہ نے ذلیل و خوار کیا ہے۔ ان ملکوں میں ڈکٹیٹر شپ کی حمایت بھی امریکہ کرتا ہے اور پھر کچھ اپنے لوگوں کو جمہوریت کے ذریعے حکومت کا لالچ دے کے باہر لے آتا ہے۔ ایک افراتفری اور نفسانفسی کے سوا لوگوں کے کچھ ہاتھ نہیں آتا۔
سوڈان افریقہ کا ایک بڑا مسلمان ملک تھا وہاں جمہوریت کے بخار میں مبتلا لوگوں سے ریفرنڈم کرایا اور سوڈان کے دو ٹکڑے کروا دئیے۔ ریفرنڈم بھی الیکشن کی ایک شکل ہے۔ پاکستان میں فوجی آمروں کو ریفرنڈم کے سہارے سے مسلط کیا جاتا رہا ہے۔ عمران خان جیسا ”جمہوری انقلابی“ ریفرنڈم میں جنرل مشرف کا پولیٹیکل ایجنٹ تھا۔ عمران کے بہنوئی حفیظ اللہ خان کے بقول کروڑوں روپے عمران نے جنرل مشرف سے لئے تھے اور وزیراعظم کے لئے وعدہ بھی لیا تھا۔ جنرل مشرف پاکستان آ چکے ہیں۔
اب الیکشن 2013ءکے حوالے سے مواحد حسین نے 1970ءکے فیئر اینڈ فری الیکشن کی مثال دی جس کے نتیجے میں پاکستان ٹوٹ گیا اور مغربی پاکستان کو بھٹو نے پہلی بار نیا پاکستان کہا۔ 1977ءکے الیکشن کے بعد ایک بڑی تحریک امریکہ نے الیکشن کے خلاف چلوائی۔ بابائے جمہوریت نے ایک منتخب وزیراعظم کے خلاف امریکی تحریک چلائی اور اسے تحریک نظام مصطفیٰ کا نام دلوایا گیا۔ جس کے بعد جنرل ضیاءکا مارشل لاءآیا اور افغانستان میں روس کے خلاف دوسرے مسلمان ملکوں کے ساتھ مل کر جہاد لایا گیا۔ اس جہاد کا فائدہ امریکہ نے اٹھایا۔ فائدے میں شریک ہونے کی خواہش کی سزا اپنے محسن جنرل ضیاءکو دی گئی۔ پھر امریکہ نے مجاہدین کو دہشت گرد بنایا اور اب خود افغانستان پر کھلی قتل و غارت کے بعد قابض ہے۔ پاکستان کو برباد اور بدنام کرنے پر بھی زور لگا رہا ہے مگر وہ یہاں بے حد کمزور ہو چکا ہے۔ اب تو امریکہ بھی امریکہ کے کنٹرول میں نہیں ہے۔ کچھ مہینوں کے بعد کوئی آدمی بلکہ لڑکا کئی امریکیوں کو مار ڈالتا ہے۔ امریکہ میں دہشت گردی عام ہو رہی ہے۔ امریکہ کنفیوژڈ ہے مگر وہ پاکستان میں زیادہ کنفیوژن پھیلانے کی کوشش کر رہا ہے۔ الیکشن 2013ءاس کنفیوژن کی انتہا ہو گی۔ 2008ءکے الیکشن سے پہلے بینظیر بھٹو کو قتل کرا دیا گیا۔ الیکشن کے بعد پاکستان اکیسیویں صدی میں رہتے ہوئے انیسویں صدی کا ملک بن گیا۔ انیسویں صدی میں بجلی نہ تھی۔ اب بھی نہیں ہے۔ نہ فیکٹری چل رہی ہے نہ ریل گاڑی اور نہ حکومت چل رہی ہے۔ ہمیں اس دھمکی سے دہشت گردی کی خون آلود دلدل میں پھنسایا گیا کہ ورنہ تمہیں پتھر کے زمانے میں دھکیل دیا جائے گا۔ حالات ایسے بنائے گئے کہ ہم خود بخود پتھر کے زمانے میں چلے گئے ہیں اور ابھی تک صدر زرداری موجود ہیں۔ آئندہ پانچ سالوں کے لئے بھی تیار ہیں تو الیکشن 2013ءکے بعد کیا ہو گا۔ ہم نئے پاکستان کے پرانے شہری ہوں گے۔