• news

بینظیر قتل کیس : مشرف کا 4 روزہ جسمانی ریمانڈ ‘ تحقیقاتی ٹیم تبدیل کرنے کی درخواست مسترد

راولپنڈی (نوائے وقت رپورٹ + نیٹ نیوز + ایجنسیاں) راولپنڈی کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نمبر ایک نے سابق صدر پرویز مشرف کو پاکستان پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن بےنظیر بھٹو کے قتل کے مقدمے میں چار روزہ جسمانی ریمانڈ پر مقدمے کی تفتیش کرنے والی ایف آئی اے کی ٹیم کی تحویل میں دے دیا ہے۔ مقدمے کی تفتیش ایف آئی اے کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل کی سربراہی میں مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کر رہی ہے۔ عدالت کے جج حبیب الرحمن نے ملزم پرویز مشرف کو 30 اپریل کو دوبارہ عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔ پرویز مشرف کو سخت سکیورٹی میں کمرہ عدالت میں لایا گیا، دو سو سے زائد رینجرز اور راولپنڈی پولیس کے اہلکاروں نے چاروں طرف سے عدالت کو گھیرے میں لے رکھا تھا۔ میڈیا، غیر متعقلہ افراد اور وکلا کو کمرہ عدالت میں جانے کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔ جب پرویز مشرف عدالت میں پہنچے تو ان کے ساتھ کئی حفاظتی گاڑیوں کا کارواں تھا۔ ان کے گھر سے عدالت تک ”روٹ“ لگایا گیا تھا، ان کی گاڑی کے سڑک پر آنے سے قبل سڑک کو بم ناکارہ بنانے والے عملے اور سونگھنے والے کتوں کی مدد سے چیک کیا گیا۔ سماعت کے دوران مقدمے کے ایک تفتیشی افسر خالد رسول نے عدالت سے استدعا کہ ملزم پرویز مشرف سے سابق وزیراعظم بےنظیر بھٹو کے قتل کے مقدمے کی تحقیقات کرنی ہیں۔ ان تحقیقات کا مقصد ان حقائق اور افراد کو سامنے لانا ہے جو اس واقعے میں ملوث تھے۔ تفتیشی افسر نے استدعا کی کہ ملزم سے تحقیقات کے لئے اس کا جسمانی ریمانڈ درکار ہے۔ سابق صدر کے وکلا نے عدالت کے سامنے م¶قف پیش کیا کہ ملزم سے کوئی اسلحہ وغیرہ برآمد نہیں کرانا اس لئے انہیں جسمانی ریمانڈ پر وفاقی تحقیقاتی ادارے کے حوالے نہ کیا جائے تاہم جج جبیب الرحمن نے کہا کہ یہ بے حد اہم مقدمہ ہے اس لیے ایف آئی اے کو اختیار ہے کہ وہ جس طرح چاہے، اپنی تحقیقات مکمل کر سکتی ہے۔ پرویز مشرف کے وکلا نے ایف آئی اے کی تحقیقاتی ٹیم پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ نئی تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی جائے لیکن انسداد دہشت گردی عدالت کے جج نے اسے مسترد کر دیا۔ عدالت نے پرویز مشرف کا طبی معائنہ کرانے کی درخواست بھی مسترد کر دی۔ تفتیشی ٹیم میں شامل ایک اہلکار نے بی بی سی کو بتایا کہ پرویز مشرف سے اس معاملے میں ویسی تفتیش نہیں کی جائے گی جس طرح اس مقدمے میں گرفتار ہونے والے دیگر ملزموں سے کی گئی ہے۔ تفتیشی ٹیم نے اس ضمن میں ایک سوالنامہ تیار کیا ہے جس میں سابق وزیراعظم کو فراہم کردہ سکیورٹی، وقوعہ کے روز یعنی 27 دسمبر 2007ءکو بینظیر بھٹو کے قتل کے بعد جائے حادثہ کو دھونے کی ہدایات جاری کرنے سے متعلق سوال ہیں۔ اس کے علاوہ بےنظیر بھٹو کی طرف سے امریکی شہری مارک سیگل کو وقوعہ سے کچھ عرصہ قبل لکھے گئے خط سے متعلق بھی سوال شامل ہے۔ مقدمے کے سرکاری وکیل چودھری ذوالفقار کے مطابق اس خط میں بےنظیر بھٹو نے کہا تھا کہ انہیں سابق آرمی چیف پرویز مشرف سے جان کا خطرہ ہے۔ یاد رہے کہ سابق وزیراعظم بےنظیر بھٹو کے قتل کے مقدمے میں سات افراد کو حراست میں لیا گیا تھا جن میں سے پانچ ملزم گذشتہ پانچ سال سے اڈیالہ جیل میں ہیں۔ کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان کے رہنما بیت اللہ محسود سمیت چھ افراد کو اس مقدمے میں اشتہاری قرار دیا گیا ہے۔ پرویز مشرف کی عدالت میں پیشی کے موقع پر ان کے ساتھ وکلا کی وردیوں میں ملبوس ”کمانڈو“ نہیں آئے حالانکہ وکیلوں نے ان سے نمٹنے کی منصوبہ بندی کر رکھی تھی۔ اطلاعات کے مطابق سب جیل میں ایف آئی کی ٹیم نے پرویز مشرف سے تفتیش کی ہے۔ اے پی پی کے مطابق فاضل جج چودھری حبیب الرحمان نے سابق صدر کے طبی معائنہ اورجوائنٹ انویسٹی گیشن میں تبدیلی کی درخواستیں مسترد کر دی۔ سکیورٹی خدشات کے باعث ایف آئی اے کی جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم سب جیل میں ہی سابق صدر سے تفتیش کرے گی۔ ایف آئی اے کے سنیئر پبلک پراسیکیو ٹر چودھری ذوالفقار احمد نے ٹرائل کورٹ میں دیئے گئے پرچہ ریمانڈ میں م¶قف اختیار کیا کہ سابق وزیر اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو قتل کیس میں اسی عدالت نے مسلسل عدم حاضری پر سابق صدر پرویز مشرف کو اشتہاری ملزم قرار دیا تھا، پرویز مشرف دفعہ 302 کے تحت قتل کے مقدمہ میں نامزد ملزم ہیں لہٰذا ان سے تفتیش کے لیے پانچ دن کا جسمانی ریمانڈ درکار ہے۔ سابق صدر کے وکیل بیرسٹر سلیمان صفدر نے کہا کہ میرے موکل پر جو بھی الزامات ہیں وہ بے بنیاد ہیں‘ مفروضوں کی بنیاد پر جسمانی ریمانڈ کیسے دیا جا سکتا ہے۔ دلائل مکمل ہونے کے بعد فاضل جج نے سابق صدر کو 4 روزہ جسمانی ریمانڈ پر ایف آئی اے کے حوالے کر دیا اور حکم دیا کہ سابق صدر کو 30 اپریل کو دوبارہ عدالت میں پیش کیا جائے ۔فاضل جج نے ایف آئی اے کو حکم دیا کہ جسمانی ریمانڈ کے دوران بھی سابق صدر سب جیل میں ہی رہیں گے۔ قبل ازیں پرویز مشرف کی جانب سے ان کے وکیل بیرسٹر سلیمان صفدر نے اپنے م¶کل کے طبی معائنے کی درخواست دائر کی جس پر ایف آئی اے کے وکیل نے کہا کہ سابق صدر مکمل فٹ ہیں، ان کے میڈیکل کی ضرورت نہیں‘ طبی معائنہ تو جیل میں بھجوانے والے ملزموں کا ہوتا ہے‘ سابق صدر تو اپنی ہی رہائش گاہ، جسے حکومت پاکستان نے سب جیل قرار دیا تھا، میں موجود ہیں۔ فاضل جج چودھری حبیب الرحمان نے طبی معائنہ کی درخواست بھی مسترد کر دی۔ دریں اثناءسابق صدر کی جانب سے جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم کے سربراہ کو پارلیمنٹ میں بے نظیر بھٹو قتل کیس کی بریفینگ دینے پر جے آئی ٹی سے الگ اور کچھ مزید تبدیلیوں کی درخواست بھی دائر کی گئی ۔ایف آئی اے کے پراسیکیوٹر چودھری ذوالفقار نے اپنے دلائل میں کہا کہ جے آئی ٹی کی تبدیلی عدالت نہیں کرتی لہٰذا یہ درخواست قابل سماعت نہیں۔ فاضل جج نے سرکاری وکیل کے دلائل سے اتفاق کر تے ہوئے درخواست کو ناقابل سماعت قراردیکر مسترد کر دیا۔ سابق صدر کی عدالت پیشی کے موقع پر انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت کو جانے والا راستہ مکمل طور پر سیل کیا گیا تھا‘ کیس کی پیروی کرنے والے وکلا اور بار کے عہدیداران کے علاوہ کسی وکیل کو کمرہ عدالت میں داخل ہونے کی اجازت نہیں تھی۔

ای پیپر-دی نیشن