نظریہ پاکستان کو قائداعظم سے سیکھئے
قیام پاکستان کے بارے میں یہ دعویٰ مبنی بر حقیقت ہے کہ اس کیلئے برصغیر کے مسلمانوں نے جس جدوجہد جس جذبے اور جس جوش و خروش کا مظاہرہ کیا تھا وہ اسلام کے تصور کا مرہون منت تھا۔ اگر قائداعظم کی ولولہ انگیز قیادت میں تخلیق پاکستان کیلئے جدوجہد کرنے والے مسلمانوں کے سامنے اسلامی نظریہ اور اسلامی ریاست نہ ہوتی تو وہ کبھی صرف زمین کا ٹکڑا حاصل کرنے کیلئے اتنی بڑی قربانیاں نہ دیتے اور دنیا کی سب سے بڑی ہجرت نہ کی جاتی جو ظہور پاکستان کیلئے کی گئی۔ نظریہ پاکستان ٹرسٹ ہر سال اگر دو روزہ اور بعض اوقات تین روزہ نظریہ پاکستان کانفرنس کا انعقاد کرتا ہے تو اس کا صرف ایک ہی مقصد ہوتا ہے کہ وہ تخیل اور وہ نظریہ پاکستانی قوم اور بالخصوص نوجوان نسل کی نظروں سے اوجھل نہ ہونے پائے جو پاکستان بناتے وقت بانیان پاکستان کے پیش نظر تھا۔ آج چند لوگ یہ بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ پاکستان ہندوﺅں کے معاشی غلبہ سے نجات حاصل کرنے کیلئے بنایا گیا تھا۔ ایک گروہ یہ بھی پروپیگنڈا کرتا ہے کہ پاکستان میں دین اور ریاست یا دین اور سیاست کو الگ الگ رہنا چاہیے کیوں کہ قائداعظم سیکولر ازم کے حامی تھے۔ یہ سب کچھ اس لئے کہا جا رہا ہے کہ ہم 66 سال بعد بھی قیام پاکستان کے تخیل (جو یقینا اسلام تھا) کو عملی طور پر نافذ کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے ۔ اگر ہم قیام پاکستان کے مقاصد کو اپنے سامنے رکھتے اور عدل ومساوات پر مبنی اسلامی نظام کو عملی شکل میں نافذ کردیتے تو آج نظریہ پاکستان کو مسخ کرنے کی کوئی جرات نہ کرتا۔ جب تحریک پاکستان کے دوران ہر جگہ پاکستان کا مطلب اللہ کا نعرہ سنائی دیتاتھا تو اس کا مفہوم یہ تھا کہ ہم انفرادی طور پر نہیں بلکہ ہم بطور قوم اور بطور ریاست بھی کلمہ طیبہ پر عمل کریں گے۔ قائداعظم کو اگر اللہ تعالی زندگی کی مزید مہلت دیتی تو وہ یقیناً قیا م پاکستان کی طرح پاکستان کو ایک اسلامی اور فلاحی ریاست بھی بنا کر دکھا دیتے۔ اسلام کا جو اصلی اور اجلاتخیل ہے اگر اس کے مطابق پاکستان میں اسلامی نظام قائم ہوجاتا تو پھر نظریہ پاکستان کا مذاق اڑانے والے اپنی موت آپ مرجاتے۔ اسلام صرف چند مذہبی رسوم تک محدود نہیں ہے بلکہ ایک مکمل ضابطہ حیات کا نام ہے۔ ہماری صرف انفرادی زندگی نہیں بلکہ اجتماعی زندگی بھی قرآن مجید اورسنت رسول کے مطابق ہونا چاہیے۔ اگرہماری انفرادی زندگی اسلا م کے تابع ہو اوراجتماعی زندگی یعنی ہمارا معاشی، سیاسی اورمعاشرتی نظام اسلام کے مطابق نہ ہو تو پھر فرد اور معاشرے میں تضاد پیدا ہوجائے گا بلکہ ہماری انفرادی زندگی بھی اسلامی نہیں رہے گی۔ قرآن نے جو یہ ارشاد فرمایا ہے کہ”تمہارے لیے رسول خدا میں ایک بہترین نمونہ ہے“یا”رسول جو تم کو دے لے لو اور جس سے وہ تم کو روکے تو رک جاﺅ“ ۔ تو یہ حکم صرف آخرت کے لیے نہیں ہے بلکہ دنیا کو اچھا بنانے کے لیے بھی ہے۔ پیغمبر اسلام کی زندگی اپنے قول اورعمل کی یکسانیت کی وجہ سے ایک ہمہ جہت حیثیت رکھتی ہے۔ انہوں نے جو کچھ کہا اس پر عمل بھی کیا۔ انہوں نے دس سال کے قلیل عرصہ میں دس بارہ لاکھ مربع میل کا رقبہ اپنی ماتحتی میں لا کر وہاں ایک مضبوط اورمستحکم مملکت قائم کر دی۔ خود سر اورایک دوسرے سے لڑنے والے قبائل کو ایک مہذب ترین قوم میں تبدیل کر دیا اور ایک مثالی نظام حکمرانی متعارف کروایا۔کیا حضور نبی کریم ﷺایک مدبر سیاست دان، منتظم اورحکمران کے طور پر ہمارے لیے قابل تقلید نہیں؟۔کیا معیشت کے میدان میں ہمارے رسول کریم نے سود سے پاک اور دولت پر زکوة نافذ کرکے عملی طور پر ایک ایسے معاشرہ کی بنیاد نہیں رکھ دی تھی؟ جس میں دولت صرف مالداروں کے درمیان گھومتی نہیں رہتی تھی بلکہ معاشرے کے غریب اور پسماندہ طبقہ کو بھی بنیادی ضرورتیں فراہم کرنا حکوت اپنا فرض سمجھتی تھی،پست اور مظلوم قوموں کے لیے اسلام میں یہ کشش تھی کہ دین اسلام سے زیادہ عدل ومساوات اورکسی مذہب میں نہیں۔ اسلام میں عزت و احترام متقی ہونے کی وجہ سے ہے دولت مندی کے باعث نہیں۔مسلمان قوم کو قرآن کریم میں سب سے بہترین قوم کہا گیا اور دلیل یہ دی گئی کہ مسلمان نیکی کا حکم دیتے اور برائی سے روکتے ہیں ۔ اب نیکی کو نافذ کرنے اوربرائی کو روکنے کے لئے حکومت ہی کردار ادا کرسکتی ہے۔ یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب سیاست اور دین کا ملاپ ہوگا۔ اگر دین کو سیاست سے الگ کردیا جائے تو و ہ اسلامی نظام حکومت نہیں ہوگا۔ جب اسلامی نظام حکومت نہیں ہوگا تو پھر اسلامی نظام معیشت بھی قائم نہیں ہوگا۔ ا س وقت پاکستانی حکمرانوں کا یہ حال ہے کہ انہوں نے سود کے خلاف شریعت کورٹ کے فیصلہ کے خلاف سپریم کورٹ سے حکم امتناعی لے رکھا ہے۔ سود کو اللہ تعالی نے حرام قرار دیا اور قرآن و احادیث میں سود کی حرمت کے حوالے سے واضح احکامات موجود ہیں۔اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک اسلامی ملک کے حکمرانوں نے قرآن اور احادیث کے خلاف حکم امتناعی لے رکھا ہے۔ اسلام کا معاشی نظام سرمایہ دارانہ نظام اور سوشلزم دونوں کی خرابیوں سے محفوظ ہے لیکن ہم نے ملک میں سرمایہ دارانہ اورجاگیردارانہ نظام کو تخفظ دے رکھا ہے اور معاشیات کے اسلامی اصولوں سے ہمارے حکمران خوف زدہ ہیں، کیوں کہ اسلام کے نظام معیشت کے نافذ ہونے سے سرمایہ داروں کی دولت میں غریب اور محتاج بھی حصہ دار بن جائیں گے اورجاگیردارانہ نظام بھی جڑوں سے اکھڑ جائے گا۔ اسی طرح سزاﺅں اور انصاف کے حوالے سے اسلام کا اپنا ایک نظام ہے۔ گویا ایک مسلمان معاشرہ کی تشکیل کے لیے قرآن واحادیث میں ہماری انفرادی اور اجتماعی زندگی میں راہنمائی کے حوالے سے ایک مکمل پروگرام موجود ہے۔ اس پروگرام پر اسی صورت میں عمل ہوسکتا ہے جب ہم عہد نبوی میں قائم کیے گئے نظام حکمرانی سے روشنی حاصل کریں۔14فروری 1948ءکو بلوچستان میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے قائداعظم نے بھی یہی فرمایا تھا کہ ”میرا ایمان ہے کہ ہمارے لیے نجات کا واحد ذریعہ ان سنہری قوانین کی پابندی میں ہے جو شریعت لانے والے ہمارے عظیم پیغمبرنے ہمارے لیے متعین کیے۔آئیے ہم اپنی جمہوریت کی اساس صحیح اسلامی تصورات اور اصولوں پر استوار کریں۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم کاروبار مملکت کے فیصلے باہمی مشاورت سے کریں“ ایک موقع پر قائداعظم نے یہ بھی فرمایا تھا کہ ”ہم دنیا میں اپنا مقام صرف اس وجہ سے کھوبیٹھے ہیں کہ ہم نے کسی نہ کسی وجہ سے سیرت رسول ﷺپر عمل کرنا چھوڑ دیاہے۔“