• news

نگران حکومت کی توجہ کیلئے....

 ملک کا معاشی انحطاط کسی بھی بم دھماکے سے زیادہ خطر ناک ہوتا ہے۔ملکی توانائی بحران قومی اقتصادی ترقی و خوشحالی کی راہیں مسدود کردیتا ہے ایک لمحے کیلئے ٹھنڈے دل سے سوچئے کہ 2013 ءکے الیکشن سر پر ہیں تو اسوقت ہم کس نظام کی موجودگی اور کس نظام کی تبدیلی چاہتے ہیں۔یہ سب سیاسی نعرے بازیاں و سیاسی قضیئے ہوں گے....دیکھئے عوام کیاچاہتے ہیں؟ قومی بقاءکے تقاضے کیا ہیں؟ ملکی استحکام کس بات میں ہے؟ ملکی معیشت کا پہیہ جام ہونے سے کس طرح بچایاجاسکتا ہے؟ غریب کی مہنگائی و کرپشن میں ڈوبی کٹیا کو کس طرح منجدھار سے نکالاجاسکتا ہے؟ اپنی نسلوں کو قرض کی لعنت و امداد بھیک کی کٹھن و بے آبرو پگڈنڈیوں کے الجھاﺅ سے کیسے دور رکھاجاسکتا ہے؟ ہم کیسے خود کفیل ہوں گے؟ وطن عزیز کی 66سالہ تاریخ کے اوراق میں موجود یہ سوالات اپنے تئیں جواب چاہتے ہیں۔گیس، بجلی ،تعلیم صحت و دیگر وسائل سے محروم عوام جینے کا حق مانگ رہی ہے قدرتی وسائل، ذہانتوں ،مہارتوں پر نظر ڈالیں تو الحمدللہ ایسا تو ہرگز نہیں لگتا کہ ہم لاچار و بے بس ہیں ۔ویسے بھی ہماری قوم اپنی فولادی قوتوں سے واقف ہے ۔جب بھارت نے پانچ ایٹمی دھماکے کیے تو پاکستان نے چھ ایٹمی دھماکے کرڈالے۔اب وقت کا تقاضا ہے کہ ہم اپنی دفاعی پوزیشن مضبوط کرنے کے بعد اپنی اقتصادی و معاشی پوزیشن بھی مربوط و مستحکم کرنے کیلئے سنجیدہ ہوجائیں۔ملک کو پاور جنریٹنگ سکیم کی اشد ضرورت ہے۔نگران حکومت اپنی پالیسی میں اس سکیم کو متعارف کراکے اسے لاگو کرادے تو بڑا اچھا ہوگا۔نگران حکومت کے متعلقہ ذمہ داران قومی توانائی کی ضروریات پوری کرنے کیلئے آئندہ برسوں میںکم از کم پچیس تیس ایٹمی پلانٹس لگانے کی منظوری دیدیں۔ تھرمل پاور طریقوں پر نظر ثانی کرکے قوم کو circular debt سے نجات دلانے کیلئے ہائیڈر پاور اور کوئلہ کی گیس سے چلنے والی توانائی کے حصول کیلئے پاور کمشن تشکیل دیں۔نگران حکومت زرعی اجناس کی پیداوار و صنعتی خام مال کی ضرورتوں کو پورا کرنے کیلئے زیادہ سے زیادہ ڈیمز تعمیر کرنے کی پیش رفت کرسکتی ہے۔ ڈیمز بنانے والے تمام پروجیکٹس مرتب شدہ ہیں،پاور جنریٹنگ سکیم پہلے ہی سے موجود ہے لیکن سب ادھورا،نامکمل بلکہ بے عملی کا شکار ہے جیسا کہ کالا باغ ڈیم کا منصوبہ1954ءمیں بنا اور اب تک 1.6بلین اسکی ڈیزائنگ،رپورٹنگ فزبیبلٹی اور دیگر امور پر خرچ ہوچکے ہیں اس پر مزید پیشرفت نگرانوں کے لئے آسان ہے ۔ ہمارے پاس زیر زمیں کوئلے کے وافر ذخائر پائے جاتے ہیں لہٰذا کوئلے کی اس نعمت خداوندی کو صحیح طورپر ملکی خوشحالی کیلئے استعمال میں لانے کی مربوط حکمت عملی بھی موجود ہے چنانچہ اس سلسلے میں نگران سیٹ اپ کے ذمہ داران ڈاکٹر ثمر مبارک مند صاحب کے ساتھ”تھرکول پاور پراجیکٹ ڈویلپمنٹس سیٹس“ شیئر کریں۔ ڈاکٹر ثمر مبارک مند کے مطابق زیر زمین کوئلے سے پچاس ہزار میگا واٹ تک بجلی حاصل کی جاسکتی ہے۔یہ بجلی ماحولیاتی آلودگی پیدا کرنے کے مسائل سے مبرا ہے۔زیر زمین کوئلے کوجلا کر توانائی کے حصول کیلئے ڈاکٹر ثمر مبارک مند نے اپنے رفقاءکے ہمراہ تھرکول منصوبہ بنایا اور اس پر کامیاب ورکنگ بھی کی۔اب افسوسناک امر یہ ہے کہ کالا باغ ڈیم منصوبے کی طرح تھرکول منصوبے کو نتیجہ خیز و کارآمد بننے نہیں دیا جارہا۔ چونکہ تھرکول منصوبہ پاکستانی معیشت کی خوشحالی میں بہت اہم ہے لہٰذا اس منصوبے کے دفاع کیلئے کچھ راست اقدام ضرور کردئیے جائیں یعنی اتنا تو ضرور examin کیاجاسکتا ہے کہ اسے کون فلاپ کر رہا ہے؟ خداکیلئے ملکی استحکام و خوشحالی کیلئے اس منصوبے پر xنہیں لگناچاہئے۔ سرزمین پاک پر ہائیڈل،کوئلہ اور ایٹمی ذرائع قدرت کے انمول عطیئے ہیں۔ہمیں فخر یہ کہنے دیجئے کہ وطن عزیز پاکستان دنیا کا ایسا عظیم ملک ہے کہ جہاں یورینیم کے ذخیرے دنیا کے مجموعی ذخیروں کا %22 حصہ ہے۔ہم سورج اور ہوا کے استعمال سے توانائی حاصل کرنے کے منصوبوں سے خودکفیل ہوسکتے ہیں۔الحمد للہ وسائل و مہارت سب کچھ ہمارے پاس ہے پھر بھی ہم مقروض و محتاج چلے آرہے ہیں۔ معاشی بحران دربحران کا شکار ہورہے ہیں۔یہی وہ نقطہ ہے جو ہم سے قومی سلامتی و تعمیر و ترقی کے ماہرین و محب وطن لیڈران پر مشتمل قومی ادارے کے ہونے کی اہمیت کا تقاضا کرتا ہے ۔ حکومت کو قومی ادارے کا سٹیٹس حاصل ہے جسکی بنیاد جمہوریت و عوامی فلاح پر رکھی جاتی ہے۔اس فلاحی و جمہوری قومی ادارے حکومت کے عہدے وہیں رہتے ہیں بدلتے تو صرف عہدیدار ہی بدلتے ہیں حکومتی عہدوں پر فائز عہدوں کے کچھ تقاضے ہوتے ہیں جو مستقبل حیثیت رکھتے ہیں لیکن عہدیداران تقاضوں کو عارضی طورپر نبھانے کے عادی ہوگئے ہیں یعنی ایک حکومتی عہدیدار اپنے وقت میں جو خوشحالی و ترقی کے امور انجام دیتا ہے دوسری حکومت میں اسی عہدے کا عہدیداران خوشحالی و ترقی کے امور کو روک دیتا ہے....یوں ترقی و خوشحالی پستی چلتی جاتی ہے....ترقی یافتہ ممالک میں میں نے قومیت Nationalism کو ہی دیکھا اور اب ہم بھی قومیت کے علاوہ کسی دوسری روش کے متحمل نہیں رہے۔ قومی وقار و آبرو مندانہ زندگی کیلئے ہمیں قومی سوچ کو ہی پروان چڑھانا ہوگا۔ ہمارے حالات میں تبدیلی اس وقت آئے گی جب ہماری سوچ میں تبدیلی آئے گی اور قومی سوچ کے پنپنے کیلئے ہمیں ذاتی عناد و مفادات سے مبرّا ہونا ہوتا ہے۔ہمیں من حیث المجموعی ایک قوم کے قومی مفادات کا تحفظ کرنا ہوتا ہے جب اپنا گھر مضبوط اور اپنے مکین مخلص ہوجاتے ہیںتو باہر والے کسی گھر کو توڑنے کی، بکھیرنے کی لاکھ کوشش کرلیں ناکام رہتے ہیں۔کالا باغ ڈیم و تھرکول توانائی پروجیکٹس کو فلاپ بنانے میں بیرونی سازشی ہاتھ ضرور ہوں گے لیکن ان ہاتھوں کو کام دکھانے کے قابل تو ہم ہی بناتے ہوں گے....ہماری نگران حکومت کا خدا بھلا کرے.... وہ قومی خوشحالی و معاشی استحکام کا بیڑا اٹھائے.... اور آئندہ آنے والے یہ بیڑا پار لگائیں.... مضحکہ خیز امر یہ نہیں کہ نگران حکومت جسکے پاس گنتی کے چند دن ہیں کی میں ملک کی معیشت کو سنبھالا دینے والے میگا پراجیکٹس پر عملی پیش رفت کی طرف توجہ دلا رہی ہوں بلکہ میرے نزدیک مضحکہ امر یہ ہے کہ66برس میں ہم ملکی معاشی خوشحالی کا ضامن ایک بھی میگا پراجیکٹ کامیاب نہ بناسکے۔

ای پیپر-دی نیشن