• news
  • image

دیکھنا ہے مشرف پر آرٹیکل 6 کا اطلاق ہوتا ہے یا نہیں‘ فیصلہ تین نومبر کے اقدامات کو دیکھ کر کرینگے ....ماورائے آئین اقدامات روکنے کا وقت آ گیا‘ ایسے لوگوں کی کشتی ڈبو دینی چاہیے : سپریم کورٹ


اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت+ نوائے وقت نیوز) سپریم کورٹ نے مشرف غداری کیس میں وفاق کو ہدایت کی ہے کہ وکلا کو پرویز مشرف سے ملاقات سے نہ روکا جائے، مشرف کے وکیل ابراہیم ستی نے عدالت میں مﺅقف اختیار کیا کہ آئین پامال کرنے والے ایک ہی کشتی کے سوار ہیں، غداری کے معاملات کو دیکھنا ہے تو 1956ءسے شروع کرنا پڑے گا، ماضی میں ان جرنیلوں کا احتساب نہیں کیا گیا جنہوں نے آئین توڑا، اگر صرف مشرف کو سزا دی گئی تو یہ امتیازی سلوک کے مترادف ہو گا، مارشل لاءکبھی فوج نے نہیں لگایا، ایوب خان کے دور میں صدر سکندر مرزا نے مارشل لاءلگایا بعد میں ان سے استعفیٰ لے لیا گیا، پاکستان کے علاوہ کسی اور ملک میں آرٹیکل 6نہیں، کیس میں چیف جسٹس کے بغیر لارجر یا فل کورٹ بنانے کی استدعا کی تھی جو منظور نہیں ہوئی، مشرف کے خلاف کارروائی کرنی ہے تو ان کے خلاف بھی کارروائی کی جائے، جن سٹیک ہولڈرز نے مشرف کی معاونت کی۔ ان کے دلائل جاری تھے کہ مقدمہ کی مزید سماعت آج تک ملتوی کر دی گئی۔ جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے خلاف غداری کے مقدمے کے اندراج کیلئے دائر درخواستوں کی سماعت کی۔ وکیل ابراہیم ستی نے کہا کہ ان کو پرویز مشرف سے ملاقات کی اجازت نہیں دی جا رہی، قانونی مشاورت کیلئے ملنا چاہتے ہیں، جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہاکہ سمجھ نہیں آ رہا کہ وفاق اس معاملے میں مداخلت کیوں کر رہا ہے، وکیل کا کہنا تھا کہ انہوں نے فل بنچ کی تشکیل کیلئے درخواست دی ہے، استدعا ہے پہلے اس کی سماعت کی جائے، جسٹس خلجی عارف نے کہا کہ آپ بار بار بنچ بدلنے کی درخواست نہ کریں، ہمارا مقصد صرف یہ دیکھنا ہے کہ آرٹیکل 6کا اطلاق ہوتا ہے یا نہیں، ابراہیم ستی ایڈووکیٹ نے کہاکہ ریاست کے مفاد میں صدر ماورائے آئین اقدامات کر سکتا ہے، جسٹس خلجی عارف نے کہاکہ صدر کو یہ اختیار کیسے مل گیا، وکیل نے جواب دیا کہ عدالتی فیصلوں نے صدر کو یہ اختیار دیا ہے، ابراہیم ستی نے کہاکہ اگر غداری اور آرٹیکل 6کے معاملے کو دیکھنا ہے تو یہ 1956ءسے شروع کرنا پڑے گا کیونکہ پاکستان میں بار بار آئین سے انحراف کیا گیا اس میں پی سی او ججز بھی شامل ہیں، وکیل کا کہنا تھا کہ آئین کا اطلاق سب پر ہو گا، آئین کو پامال کرنے والے سارے لوگ ایک ہی کشتی کے سوار ہیں، جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہاکہ ایسی بھری ہوئی کشتی کو کہیں تو غرق ہو جانا چاہئے، ماورائے اقدامات کرنے والوں کی بھری کشتی ڈبونی چاہئے، جسٹس خلجی نے کہاکہ میں نے تو آئین کو دیکھنا اور اس کا تحفظ کرنا ہے۔ پارلیمنٹ نے پہلی بار ماورائے آئین اقدامات کی توثیق سے انکار کیا۔ انہوں نے کہا کہ عدلیہ آئین توڑنے والوں کا ساتھ دینے سے قطعی انکار کر چکی ہے۔ سپریم کورٹ نے قرار دیا ہے کہ ماورائے آئین اقدامات روکنے کا وقت شروع ہو چکا ہے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ 3نومبر کے اقدامات کی کہیں سے توثیق ہوئی نہ ہی ان کو آئینی تحفظ حاصل ہے۔ ابراہیم ستی نے کہاکہ غداری کے تحت اس وقت کارروائی کی جاتی ہے جب کوئی حکومت یا فرد دشمن ملک کا ساتھ دے اس پر جسٹس خلجی عارف حسین کا کہنا تھا کہ جب کوئی شخص آئین کے تحت حلف لینے کے بعد اس سے انحراف کرتا ہے تو یہ غداری کے ایکٹ میں آتا ہے۔ یہی ہماری آئین کی کتاب میں لکھا ہے۔ ابراہیم ستی نے کہاکہ پھر ان کے اتحادیوں کے خلاف بھی کارروائی کرنی چاہئے، ابراہیم ستی نے حلف کے حوالے سے کہاکہ وزیراعظم آئین کے آرٹیکل 9/3کے تحت حلف اٹھاتا ہے اسی طرح سینیٹرز آرٹیکل 63/2، ایم این اے آرٹیکل 65، گورنر آرٹیکل 102، چیف منسٹر اور صوبائی اسمبلی کے سپیکرز آرٹیکل 127 جبکہ آرمڈ فورسز آرمی ایکٹ 1952ءآرٹیکل 9-Aکے تحت حلف اٹھاتے ہیں جس کے مطابق آرمڈ فورسز پر لازم ہے کہ وہ اپنے کمانڈر کا حکم مانے۔ میرے مﺅکل نے کبھی حلف اٹھانے کے بعد ملکی سلامتی پر سمجھوتہ نہیں کیا اگر ملک کی سلامتی کو خطرات لاحق ہوں تو ماورائے آئین اقدام اٹھایا جا سکتا ہے۔ جسٹس خلجی نے کہا کہ ماضی میں جرنیلوں کے خلاف غداری کی کارروائی نہیں ہوئی اسی لئے اوروں کے حوصلے بڑھے اگر ایکشن ہوتا تو آج حالات کچھ اور ہوتے۔ ابراہیم ستی نے کہاکہ اگر میرے موکل کے خلاف کارروائی ہوئی تو یہ امتیازی سلوک ہو گا۔ سپریم کورٹ نے پرویز مشرف کے وکیل سے کہا کہ وہ ایک ہی طرح کے دلائل بار بار نہ دہرائیں بلکہ دلائل کو مربوط انداز میں پیش کریں۔ نجی ٹی وی کے مطابق مشرف کے وکیل کا کہنا تھا کہ پہلے فل کورٹ یا لارجر بنچ تشکیل دینے سے متعلق فیصلہ کیا جائے۔ 9 مارچ سے اب تک 2 کردار ہیں، ایک چیف جسٹس اور دوسرا پرویز مشرف۔ جسٹس خلجی عارف کا کہنا تھا کہ ہمارے سامنے کوئی کردار نہیں، ہمیں صرف یہ دیکھنا ہے کہ آرٹیکل 6 کا اطلاق ہوتا ہے یا نہیں مشرف کے بارے میں ہمیں صرف 3 نومبر کے اقدامات کو سامنے رکھ کر فیصلہ کرنا ہے۔ جسٹس جواد نے کہا کہ ہم سماعت جاری رکھیں گے، تمام معاملات کا فےصلہ آخر میں کرینگے۔ ابراہیم ستی نے فوج اور صدر کا حلف پڑھ کر سنایا جس میں تھا کہ اگر ملک خطرے میں ہو تو صدر کے پاس اختیار ہے کہ وہ کوئی بھی اقدام کر سکتا ہے۔ جسٹس خلجی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ یہ بتائیں کہ پرویز مشرف نے پہلے کون سا حلف لیا تھا فوج کا یا صدارت کا؟ ابراہیم ستی نے کہا کہ وہ یہ بات پرویز مشرف سے پوچھ کر بتائینگے۔ جسٹس خلجی عارف نے استفسار کیا کہ صدر جو بھی اقدام کریگا وہ قانون کے مطابق ہی ہوں گے نا؟ جبکہ جسٹس جواد ایس خواجہ کا کہنا تھا کہ شاید آپ بڑے نازک دلائل دے رہے ہیں، صدر کا حلف آئین کے تحت ہے۔ جسٹس خلجی عارف نے کہا کہ پارلیمنٹ نے پہلی بار ماورائے آئین اقدامات کی توثیق سے انکار کیا ہے۔ ابراہیم ستی نے کہا کہ عدالت سنگین غداری کا مقدمہ چلائے تو اسکا اطلاق 1956ءسے کیا جائے۔ ماورائے آئین اقدامات کی توثیق کرنیوالے ججز پر بھی اسکا اطلاق ہوتا ہے۔ جسٹس خلجی عارف نے کہاکہ آپ کا کہنا ہے ماضی میں کسی کیخلاف کارروائی نہیں ہوئی، آئندہ بھی نہ کی جائے۔ اس پر ابراہیم ستی نے کہا کہ کارروائی سب کیخلاف ہونی چاہئے، کسی ایک کیخلاف نہیں۔ عدالتی حکم میں کہا گیا ہے کہ پرویز مشرف کے وکلاءکو ملاقات سے نہ روکا جائے۔ وکلاءکا موقف ہے کہ ملاقات سے روکنا آرٹیکل 10 کی خلاف ورزی ہے۔ وفاقی حکومت سابق صدر کے وکلاءکو ملاقات کیلئے موقع دے۔ اے پی اے کے مطابق ابراہیم ستی نے کا کہنا تھا کہ ریاستی مفاد میں صدر ماورائے آئین اقدامات کر سکتا ہے۔ جسٹس خلجی عارف حسین نے استفسار کیا یہ اختیار صدر کو کیسے مل گیا۔ ابراہیم ستی نے کہا صدر کو یہ اختیار عدالتی فیصلوں نے دیا ہے۔ جسٹس خلجی عارف حسین نے کہاکہ جو آئین میں نہ ہو ایسا اختیار عدالت کسی کو نہیں دے سکتی۔ ابراہیم ستی نے کہا 1956ءسے لے کر اب تک ماورائے آئین اقدامات کرنیوالے کسی بھی شخص کے خلاف غداری کی کارروائی نہیں ہوئی، غیر معمولی حالات میں غیر معمولی اقدامات کرنا پڑتے ہیں۔ ان اقدامات پر غداری کا مقدمہ چلانا ریاستی مفاد میں نہیں۔ 1958ءکا مارشل لاء آرمی چیف نے نہیں منتخب صدر سکندر مرزا نے لگایا۔ 1969ءمیں جنرل ایوب نے نہیں سکندر مرزا نے آئین منسوخ کیا۔ 1977ئ میں ضیائ الحق نے مارشل لائ نافذ کیا تو صدر چودھری فضل الٰہی نے مخالفت نہیں کی۔ 1999ءمیں بھی پرویز مشرف نے مارشل لائ لگایا تو صدر رفیق تارڑ سمیت تمام ریاستی ادارے کام کرتے رہے۔ ماورائے آئین اقدامات میں جتنے عہدیدار موجود تھے انہیں بھی شریک جرم سمجھا جائے گا۔ انہوں نے کہاکہ تاریخ گواہ ہے کہ تمام اقدامات ریاست کو بچانے کے لئے کئے گئے ریاستی مفاد میں ماورائے آئین اقدامات کو تسلیم بھی کیا گیا۔ صرف ان کے موکل کے خلاف کارروائی کی گئی تو یہ امتیازی سلوک ہو گا۔ ابراہیم ستی نے دلائل جاری رکھتے ہوئے لارجر بنچ کی تشکیل کے لئے بھارتی سپریم کورٹ اور احادیث مبارکہ کے حوالے دیئے۔ ابراہیم ستی نے کہاکہ صدر اپنے حلف سے باہر فیصلہ کر سکتا ہے۔ جسٹس جواد نے استفسار کیا کہ صدر کو ماورائے آئین اختیار کس نے دیا، ابراہیم ستی کا کہنا تھا کہ صدر کو یہ اختیار ماضی کے عدالتی فیصلوں کی روشنی میں وراثت میں ملا، جس پر جسٹس جواد نے کہاکہ آپ کیا یہ کہنا چاہتے ہیں کہ جب کوئی موقع آئے تو صدر آئین و قانون کو بالائے طاق رکھ کر فیصلہ کر سکتا ہے، وکیل نے کہا کہ صدر اور آرمی چیف کے حلف ناموں کے متن میں فرق ہے، 1975ءسے 1999ء تک آئین کی خلاف ورزیوں کی عدالت نے توثیق کی، ججوں کے علاوہ تمام ادارے کام کررہے تھے صرف عدلیہ میں کچھ تبدیلیاں کی گئیں۔ سب کا ٹرائل کریں چاہے کوئی مرا ہو یا زندہ ہو، کس سے مشورہ لیا گیا، کس نے عملدرآمد کرایا سب کو شامل تفتیش کیا جائے، کیس کی مزید سماعت آج ہو گی۔ دریں اثناءپرویز مشرف سے ان کے وکال نے سب جیل میں ملاقات کی اور غداری کیس میں مشاورت کی۔ نجی ٹی وی کے مطابق پرویز مشرف کے وکیل ابراہیم ستی نے بتایا کہ ملاقات میں پرویز مشرف سے غداری کیس میں ہدایات لیں پرویز مشرف کے حوصلے بلند ہیں، چار روز سے ملاقات کی اجازت نہیں دی جا رہی تھی۔ سپریم کورٹ کے حکم پر پرویز مشرف سے ملاقات کی اجازت ملی، غداری کا مقدمہ شروع کرانے کیلئے 5درخواستیں دائر کی گئیں۔
مشرف کیس

epaper

ای پیپر-دی نیشن